• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ ، ٹرمپ اور جیریڈکشنیر

Updated: October 13, 2025, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

رمزی بارود، جن کے مضامین اس اخبار میں شائع کئے جاتے رہے ہیں ،’’دی فلسطین کرانیکل‘‘ کے مدیر، مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار اور نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں ۔

INN
آئی این این
رمزی بارود، جن کے مضامین اس اخبار میں   شائع کئے جاتے رہے ہیں  ،’’دی فلسطین کرانیکل‘‘ کے مدیر، مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار اور نصف درجن کتابوں   کے مصنف ہیں  ۔ اپنے تازہ مضمون’’فریب کی تاریخ: امریکہ اور اسرائیل کی ساز باز اور غزہ کا امن منصوبہ‘‘میں   انہوں   نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اسرائیل کو ایک ایسے امن منصوبہ پر دستخط کیلئے آمادہ کیا جو دھوکہ ہے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں   ہے۔ رمزی بارود کے مطابق جنگ روکنے کی آڑ میں   کوشش یہ کی گئی ہے کہ فلسطین کی باقی ماندہ زمین دو ٹکڑوں   میں   باقاعدہ تقسیم ہو جائے اور مغربی کنارہ کے علاوہ اس کا دوسرا حصہ، غزہ، ایک غیر ملکی حکومت کے زیر انتظام رہے جہاں   نگرانی یا حکمرانی ’’بورڈ آف پیس‘‘ کی ہوگی جس کے ایک رکن برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہوں   گے جبکہ دوسرے رکن ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنیر۔ یاد رہنا چاہئے کہ ٹرمپ نے جیریڈ کشنیر کو اپنی صدارت کے پہلے دور میں   بھی فلسطین کا نام نہاد مسیحا بنا کر بھیجا تھا۔
اس بار بھی امریکہ کی جانب سے جو لوگ حماس اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتے کیلئے سرگرم تھے ان میں   امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر برائے جنگی امور پیٹ ہیگسیت کی حیثیت سرکاری رکن کی تھی مگر کشنیر؟ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں   پھر بھی ان کی حیثیت صدر کے مشیر کی تھی مگر اس بار کوئی سرکاری منصب انہیں   حاصل نہیں   ہے۔ ٹرمپ سے جب اس بابت پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا: ’’وہ بہت اسمارٹ شخصیت ہیں  ، ابراہیمی معاہدہ انہی کا مرہون منت ہے، وہ اس خطہ (مشرق وسطیٰ) سے بھی خوب واقف ہیں   اور یہاں   کے لوگوں   سے بھی ان کی اچھی شناسائی ہے۔‘‘کیا سرکاری پوزیشن حاصل نہ ہونے کے باوجود کشنیر کو ٹرمپ نے اس لئے آگے بڑھایا کہ آج نہیں   تو کل غزہ کے تعلق سے ان کا ’’رویرا کا منصوبہ‘‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے؟ یاد رہے کہ ٹرمپ نے اس سال فروری میں   غزہ کو مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا سیاحتی مقام بنانے کا پلان ظاہر کیا تھا جس پر چوطرفہ تنقید ہوئی تھی کہ یہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے مگر ٹرمپ جو کسی کی نہیں   سنتے ان عالمی لیڈروں   کی کیوں   سننے لگے جو ان کے اس پلان کی مخالفت کررہے تھے۔
ہم یہ نہیں   بھول سکتے کہ جیریڈ کشنیر ایک تاجر ہیں   اور ٹرمپ بھی تاجر۔بحیثیت بلڈر ٹرمپ کی بنائی ہوئی عمارتوں   سے کون واقف نہیں   ہے۔ نتین یاہو کا غزہ پلان کچھ اور ہوسکتا ہے اور ٹرمپ اور کشنیرکے ذہن میں   کچھ اور بات ہوسکتی ہے۔ ہمیں   شبہ ہے کہ یہ خسراور داماد غزہ کوسیاحتی مقام میں   تبدیل کرنے کے اپنے منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہے ہوں   گے۔ ابتدا میں   جب ٹرمپ نے ری ڈیولپمنٹ کا منصوبہ ظاہر کیا تھا تب اس کی شدید مخالفت ہوئی تھی مگر عالمی برادری کے بارے میں   ہر خاص وعام جانتا ہے کہ مخالفت اور مذمت اس کی حد ہے اور وہ اس حد سے آگے نہیں   بڑھتی۔ ممکن ہے مستقبل میں   خسر اور داماد اپنے تجارتی مشن کو آگے بڑھائیں  ۔واضح رہنا چاہئے کہ فروری ۲۰۲۴ء میں   ہارڈورڈکی ایک تقریب میں   کشنیر نے مسئلہ فلسطین کو عرب اور اسرائیل کے درمیان رئیل اسٹیٹ کا تنازع قرار دیا تھاجس سے ظاہر تھا کہ ان کی نظر میں   وطن، وطنیت اور اپنی مٹی جیسی جذباتی لگاؤ کی باتوں   کی کوئی اہمیت نہیں   ۔ڈالر اور منافع کے نقشوں   میں   الجھے رہنے والے انسانیت کیا جانیں  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK