Inquilab Logo

عمران خان کا گیم اوور ہو چکا ہے؟

Updated: May 31, 2023, 10:39 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

شہباز شریف حکومت پی ٹی آئی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگانے اور عمران خان کو۹؍ مئی کی تخریب کاری اور تشددکی سازش کا ماسٹر مائنڈ بناکر جیل بھیجنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عمران کو تاعمر یا پانچ دس برسوں کیلئے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

گزشتہ تین ہفتے پاکستان کے لئے بلاشبہ بے حد طلاطم خیز رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف پارٹی (پی ٹی آئی) کے چیئر مین عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری اور ضمانت پر اتنی ہی ڈرامائی رہائی، پارٹی کارکنوں کے پرتشدد مظاہرے اور پھر ان کی اندھادھند گرفتاریاں، ہمارے پڑوسی ملک میں ان دنوں سیاسی منظرنامہ اتنی برق رفتاری سے تبدیل ہورہا ہے کہ یہ کہنابے حد مشکل ہے کہ حالات کل کیا کروٹ لینے والے ہیں۔
  قومی احتساب بیورو(نیب) کے ذریعہ کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے دو دن کے اندر رہائی سے عمران کو لگا کہ انہوں نے بازی جیت لی ہے۔ چیف جسٹس بندیال نے سپریم کورٹ میں جس گرم جوشی سے عمران کی پذیرائی کی اس سے کپتان کو یہ خوش فہمی ہوگئی کہ انہوں نے شہباز شریف حکومت،نیب اور فوج تینوں پر برتری حاصل کرلی ہے۔لیکن ان کی خوش فہمی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی۔۹؍مئی کوآرمی ہیڈ کوارٹر اور کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر اہم فوجی املاک اور تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر ہوئے پرتشدد حملوں کو جواز بناکر پی ڈی ایم حکومت اور فوج نے اپنے مشترکہ دشمن عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ہزاروں پارٹی کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اس قدر دہشت زدہ کردیا گیاہے کہ درجنوں لیڈروں نے صرف پارٹی سے لاتعلقی کا ہی نہیں بلکہ سیاست سے بھی دستبرداری کااعلان کردیا ہے۔ 
 شہباز شریف حکومت پی ٹی آئی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگانے اور عمران خان کو۹؍ مئی کی تخریب کاری اور تشددکی سازش کا ماسٹر مائنڈ بناکر جیل بھیجنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عمران کو تاعمر یا پانچ دس برسوں کیلئے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ اور بعد میں ان کے جانشیں عاصم منیریہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ فوج نے سیاست میں مداخلت سے توبہ کرکے نیوٹرل رہنے کی قسم کھالی ہے، لیکن اس وقت سیاست پرفوج کی بالا دستی پوری طرح عیاں ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق سرکردہ رہنما جہانگیر خان ترین پارٹی منحرفین کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت بنارہے ہیں جسے آرمی نے اپنی سرپرستی کی یقین دہانی کرادی ہے۔
 اس وقت پی ٹی آئی اور عمران خان کی وہی حالت ہے جو مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور اس کے سربراہ الطاف حسین کی ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تھی۔ آرمی جس نے پہلے اپنی سرپرستی میں الطاف حسین کو کراچی کا بے تاج بادشاہ بننے کا موقع دیاتھا وہ بعد میں ان کی دشمن بن گئی اور ۱۹۹۲ء میں ایم کیو ایم کی بیخ کنی کے لئے فوجی آپریشن لانچ کردیا۔ الطاف جان بچاکر لندن بھاگ گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے عتاب سے بچنے کے لئے خان صاحب کو بھی اس ضعیفی میں بن باس پر جانا پڑ سکتا ہے۔
 پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ دلانے کے بعد عمران کو یہ زعم ہوگیا کہ اگر وہ سیاست میں اترے تو عوام انہیں وہاں بھی سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ عوام نے انہیں سر آنکھوں پر تو بٹھایا لیکن وزیر اعظم کی کرسی پر نہیں بٹھایا۔ ۲۰۱۸ء میں عمران کی پارٹی الیکشن جیتی نہیں تھی جتوائی گئی، عمران وزیر اعظم منتخب نہیں ہوئے: باجوہ نے انہیں ’’پروجیکٹ عمران ‘‘کے تحت وزیر اعظم بنوایا۔باجوہ کو توقع تھی کہ عمران پاکستان کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے لیکن پی ٹی آئی حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی۔ کرکٹ کے پچ پر اپنی دلفریب بولنگ اور بیٹنگ کے جلوے دکھانے والے کپتان حکومت کے ایوان میں زیرو پر آؤٹ ہوگئے۔ ان کی ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا۔
  اسٹیبلشمنٹ کو امید تھی کہ عمران ان کے اشاروں پر چلیں گے لیکن جب وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی آنکھیں دکھانے لگے تو پچھلے سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ان کی حکومت گرادی گئی۔ عمران نے وارننگ دی تھی کہ اگر انہیں اقتدارسے ہٹایا گیا تو وہ اور’’ زیادہ خطرناک‘‘ ہوجائیں گے۔ وہ واقعی خطرناک ہوگئے۔وہ سیاسی حریفوں کو ہی نہیں آرمی چیف کو بھی للکارنے لگے۔ یہ جرأت ان سے پہلے کسی سیاسی رہنما نے نہیں کی تھی۔ ۹؍مئی کو ان کے پرجوش حامیوں کے ذریعہ مچائی گئی غارت گری اپنے قائد کی گرفتاری کے خلاف بے ساختہ ردعمل نہیں تھی۔ ایک معروف پاکستانی مبصر عرفان صدیقی کا دعویٰ ہے کہ لاہور، راولپنڈی، کوئٹہ، فیصل آباداور پشاور جیسے مقامات پرواقع فوجی املاک کو شرپسندوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ فوج کے خلاف بغاوت تھی جو ناکام ہوگئی۔پچھلے سال اقتدار کھونے کے بعد سے عمران نے اسٹیبلشمنٹ کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ان کے شیدائیوں نے ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں جہاں عمران اپنی تقریروں میں یہ الزام لگاتے رہے کہ فوج نے شہباز حکومت کے ساتھ ساز باز کرکے انہیں امریکہ کے اشارے پر اقتدار سے ہٹایاہے۔ ریلیوں میں امڈی بھیڑ سے ملٹری اور شہباز حکومت دونوں کو عمران کی بے پناہ مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ انہیں یہ خوف ستانے لگا کہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات عمران آسانی سے جیت جائیں گے۔ اس لئے شہباز اور ان کے اتحادیوں اور جنرل عاصم منیر کی پوری کوشش ہے کہ عمران کو الیکشن میں حصہ ہی نہیں لینے دیا جائے۔ عمران کو راستے سے ہٹانے کے لئے ان کے سیاسی اور عسکری حریفوں کو جس جواز کی تلاش تھی وہ عمران کے نادان دوستوں نے ۹؍مئی کے دن انہیں طشت میں سجا کر فراہم کردیا۔ اس وقت عمران کے ستارے پوری طرح گردش میں نظر آرہے ہیں۔ انہیں بھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوگیا ہے۔ کل تک جو خان شیر کی طرح چنگھاڑ رہے تھے،آج مذاکرات کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی منتیں کررہے ہیں۔کل تک جو امریکی سازش کا بیانیہ اچھال رہے تھے آج وہ اپنی سیاسی بقا کے لئے واشنگٹن سے مداخلت کی فریاد کررہے ہیں۔
 ۲۰؍ سال قبل میر ظفراللہ خاں جمالی جنرل پرویز مشرف کی کرمفرمائیوں سے پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ جب ان کے ڈرامائی استعفے کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا:’’جو لے کر آتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب تھا۔ پاکستان میں حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو اور وزیر اعظم کی کرسی پر کوئی بھی سیاسی لیڈر بیٹھاہو، طاقت اور اختیار کا حقیقی سرچشمہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔اس تکلیف دہ سچائی سے ساری دنیا واقف ہے۔حیرت ہے کہ عمران خان اسے کیسے فراموش کرگئے

imran khan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK