Inquilab Logo

کیاعمران کا وکٹ گرنے والا ہے؟

Updated: January 05, 2022, 1:56 PM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے ۱۰۰؍دنوں کے اندر ۵۰؍لاکھ غریبوں کو گھر اور ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں گے اور بے ایمان ساہوکاروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ذریعہ لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لائیں گے لیکن وہ اپنے وعدے وفا نہ کرسکے۔

Imran Khan.Picture:INN
عمران خان۔ تصویر: آئی این این

 سرحد پار سے جو خبریں آرہی ہیں ان سے لگتا ہے کہ’’ کپتان ‘‘کا وکٹ جلد ہی گرنے والا ہے۔ وہ کلین بولڈ ہوتے ہیں یا رن آؤٹ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔پاکستان کے معروف صحافی نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت کے دن گنتی کے رہ گئے ہیں اور وہ۲۰۲۲ء میں اقتدار سے بے دخل کر دیئے جائیں گے۔’’ ان کے بوریا بستر باندھنے کا وقت آگیا ہے۔ خان صاحب پریشان ہیں۔‘‘ سیٹھی نے یکم جنوری کو ایک ٹیلی وژن پروگرام میں کہا۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) لیڈر نواز شریف کی واپسی کی قیاس آرائیاں بھی تیز ہوگئی ہیں اور کسی متوقع ’’خفیہ ڈیل ‘‘ کے چرچے بھی ہو رہے ہیں۔  خود عمران خان نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ میاں صاحب کوئی  ’’خفیہ ڈیل ‘‘کئے بغیر واپس نہیں آسکتے ہیں۔اگر واقعی ایسی کوئی ڈیل ہوجاتی ہے تو عمران کو ہٹا کر شریف کے چھوٹے بھائی اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر شہباز شریف کی قیادت میں ایک نئی(عبوری)حکومت بنائی جاسکتی ہے جو اگلے عام انتخابات تک چلے گی۔’’مائنس ون‘‘ کا ایک فارمولہ بھی زیر غور ہے جس کے تحت عمران کو ہٹا کر ان کی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) پارٹی کے ہی کسی دوسرے لیڈر مثلاً شاہ محمود قریشی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ پچھلے چند ہفتوں سے اسلام آباد کے سیاسی گلیاروں میں یہ چہ میگوئیاں تیز ہوگئی ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ جس کی سرپرستی میں عمران وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تھے، ان کی کارکردگی سے ناخوش ہے اور انہیں ہٹا کر کسی اور سیاسی شخصیت کو ان کی جگہ بٹھانا چاہتی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اور جیل بھجواکر عمران کی تاج پوشی کی راہ ہموار کی گئی تھی۔  مقتدرہ اداروں نے عمران کو وزیر اعظم بناکر ایک نیا تجربہ کرنا چاہا تھا کیونکہ وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک تھے، کھیل کے میدان میں قابلیت کے جھنڈے گاڑ چکے تھے، آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھے، فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور عوام میں مقبول تھے۔مقتدرہ کو لگا کہ انہوں نے جس آسانی سے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جتا دیا تھا اسی آسانی سے ملک کی بگڑتی تقدیر بھی سنوار دیں گے۔لیکن اسٹیبلشمنٹ اور عوام دونوں کی امیدوں پر عمران پورے نہیں اترے۔ مودی جی کے’’نیو انڈیا‘‘ کی طرح عمران نے اپنے عوام کو ایک’’نیا پاکستان‘‘ کا خواب دکھایا تھا اور مودی جی کی طرح ہی عمران نے بھی اچھے دنوں کی آمد کی نوید سناکر عوام کو رجھایا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے ۱۰۰؍دنوں کے اندر ۵۰؍لاکھ غریبوں کو گھر اور ایک کروڑ  نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں گے، بے ایمان ساہوکاروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ذریعہ لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لائیں گے اور لٹیرے سیاستدانوں کو جیل بھجوائیں گے۔ لیکن عمران بھی پیشہ و ر سیاستدانوں کی مانند ہی نکلے:وہ اپنے وعدے وفا نہ کرسکے۔پچھلے ساڑھے تین برسوں میں ان کی حکومت کووڈ کا بخوبی مقابلہ کرنے کے سوا بقیہ ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔ملک اس وقت شدیدمالی بحران کا شکار ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے،  کرپشن اور لوٹ کھسوٹ بدستور جاری ہے اور نفرت اور انتہا پسندی بڑھ گئی ہے۔عوام خاص کر غریب اور متوسط طبقوں میں حکومت کے خلاف بڑھتی برہمی کی عکاسی حالیہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں حکمراں تحریک انصاف پارٹی کی شکست سے واضح ہوگئی۔ پچھلے ہفتے وزیر خزانہ شوکت ترین نے جس منی بجٹ کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا وہ نہ صرف عوام کی کمر توڑ دے گا بلکہ ماہرین کی مانیں تو معاشی بدحالی کا شکار پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (IMF) اور عالمی طاقتوں کے ہاتھوں گروی بھی رکھ دے گا۔ صرف داخلی محاذ پر ہی نہیں خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی عمران حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود آج واشنگٹن اور اسلام آباد کے رشتے بے حد خراب ہیں۔ کیا اسے محض اتفاق کہا جائے کہ اگست ۲۰۱۸ء میں عمران وزیر اعظم بنے اور امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل اسلام آباد سے رخصت ہوگئے؟ اس کے بعد تین سال تک امریکہ نے پاکستان کے لئے کوئی سفیر مقرر نہیں کیا۔ بائیڈن نے دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان سے بات کی ہوگی لیکن عمران ان کے ایک فون کال کو آج تک ترس رہے ہیں۔ کئی عشروں سے سعودی عرب اور پاکستان کے خصوصی سفارتی، اقتصادی اور عسکری رشتے رہے ہیں لیکن عمران خان کی سفارتی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ۲۰۱۹ء   میں ان رشتوں میں اس وقت دراڑ پیدا آگئی جب پاکستان کی پرزور کوششوں کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) نے کشمیر کی خودمختاری ختم کردینے کے ہندوستان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی اور برگشتہ عمران نے اسلامی ممالک کا ایک نیا متوازی بلاک بنانے کا منصوبہ بنا لیا۔ چین اور پاکستان کی ’’پہاڑوں سے بھی اونچی اور سمندر سے بھی گہری دوستی‘‘میں بھی ان دنوں پہلے والی گرم جوشی نہیں رہی ہے۔   پچھلے تین برسوں میں عمران خان کی حکومتی،انتظامی اور سفارتی امور میں ناتجربہ کار ی بار بارعیاں ہوگئی ہے۔ وہ اقتصادی فرنٹ پر تو مکمل طور پر فیل ہوگئے ہیں۔ عوام نے ان کے غریبی مٹانے اور مہنگائی کم کرنے کے منشور سے متاثر ہوکر عمران کو مینڈیٹ دیا تھا لیکن ان دونوں اہداف کی حصولیابی میں انہیں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سربراہ مملکت کوڈھائی سال میں چار باروزیر خزانہ بدلنا پڑے اس کی معاشی اوراقتصادی امور سے مکمل ناواقفیت کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آج پاکستان کی بدتر صورتحال کی اصل وجہ اس کی معیشت کی زبوں حالی ہے۔حزب اختلاف نے بھی ہوا کا رخ دیکھ کر عمران حکومت پر حملے تیز کردیئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں عمران اور ان کی تحریک انصاف پارٹی کیخلاف محاذ آرائی کیلئے تیار ہوچکی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے مارچ میں لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کردیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ وہ عمران کو تخت سے اتار کر ہی دم لیں گے۔ عمران یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت پائیدار اور مستحکم ہے کیونکہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ میں ہم آہنگی ہے اور دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ لیکن اب سیاست اور ملٹری کا یہ ہنی مون ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ عمران کے منظور نظر فیض حمید کو ہٹا کر ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سر براہ بنائے جانے کے بعد سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور عمران کے رشتے ناخوشگوار ہوگئے ہیں۔ اب انتظار اس بات کا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کب عمران خان کے سر سے اپنا دست شفقت ہٹا تی ہے۔عمران کے پہلے پاکستان  میں ۲۲؍ وزیر اعظم گزرے ہیں اور کوئی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا اوریہ روایت شاید اس بار بھی نہیں ٹوٹے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK