Inquilab Logo

ممتاکی تیسرےمحاذکی کوشش بی جے پی سےمقابلےکیلئےہےیاایساکرنااُن کی کوئی مجبوری ہے؟

Updated: December 19, 2021, 3:29 PM IST | Subhash Gatade | The Wire

کوئلہ گھوٹالہ معاملے میں ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی اوران کی اہلیہ پر سی بی آئی اور ای ڈی نے دو ماہ قبل شکنجہ کسا تھا اور سمن بھی جاری کیا تھا لیکن جب سے تیسرے محاذ کا شوشہ بلند ہوا ہے ، اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی.... کیا یہ محض اتفاق ہے؟

Sharad Pawar and Trinamool Congress chief Mamata Banerjee, who are considered to be contemporary Chanakyas.Picture:INN
دور حاضر کے چانکیہ قرار دیئے جانے والے شرد پوار اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی۔ تصویر: آئی این این

یوں تو یہ تصویر کسی کو بھی ایک عام سی تصویر لگ سکتی ہے، جس میں ایک منتخب نمائندے جو دراصل ایک ریاست کی  وزیر اعلیٰ ہیں سے ایک سرمایہ دار  ہاتھ ملا رہا ہے.... لیکن اگر وزیر اعلیٰ کا نام ممتا بنرجی  ہوں جنہوں نے ابھی چھ ماہ قبل بی جے پی کو  زبردست ہزیمت سے دوچار کیا ہو، اور پونجی پتی کا نام  اڈانی  ہو، جس کے حکمراں طبقے سے قریبی تعلق کا علم پوری دنیا کو ہو... تو اس تصویر کے بالکل مختلف معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ کیا اس ملاقات کو محض اخلاقی ملاقات کہا جا سکتا ہے؟ ویسے، اس طرح کی ملاقات کااشارہ انہوں نے اسی وقت دے دیا تھا  جب وہ  اپنے آبائی شہر کولکاتا پہنچنے سے پہلے ممبئی میں مختصر سے وقفے کیلئے قیام کیاتھا۔ جب وہ اپنے مشن انڈیا پروجیکٹ کیلئے کانگریس کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے  لیڈروں سے ملاقات کیلئے ممبئی میں موجود تھیں۔ ممتا بنرجی نے اُس وقت کہا تھا کہ انہیں’’ایک کسان کے ساتھ ساتھ ایک اڈانی کی بھی ضرورت ہے۔‘‘ خیال رہے کہ آج کی تاریخ میں، جب ہم تاریخی کسانوں کی تحریک کی کامیابی کو دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے مودی حکومت تینوں’متنازع زرعی قوانین‘ کو واپس لینے پر مجبور ہوئی، تب اس سچائی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس تحریک کے دوران ایک  عام بحث اسی بات پر تھی کہ اگر اس’ کالے قانون‘ کو  نافذ کیا جاتا تو سب سے زیادہ فائدہ اڈانی  ہی کو ہوتا۔ ممتا بنرجی کا ممبئی کا دورہ بی جے پی کے خلاف ایک ایسا اتحاد بنانے کی سمت میں تھا جس میں کانگریس اب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی یو پی اے (متحدہ ترقی پسند اتحاد) نہیں ہے اور کانگریس اب کسی اپوزیشن اتحاد کی فطری لیڈر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
 اس کے برعکس  خواہ وہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) ہو یا شیوسینا، ان دونوں کے بیانات سے یہ واضح  ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ویسے کوئی یہ تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ سچ ہے کہ ان دنوں ہندوستانی سیاست کلیڈواسکوپ (رنگ بدلنے والے شیشے) کی طرح رنگ بدلتی نظر آرہی ہے۔اگر ہم یاد کریں تو ممتا بنرجی کا دہلی دورہ (جولائی۲۰۲۱ء) بالکل مختلف انداز میں ختم  ہوا تھا۔ یہ دورہ ان کی پارٹی کی تاریخی فتح کے صرف دو ماہ بعد ہوا تھا جب انہوں نے  نریندرمودی، امیت شاہ اور ان کی پوری مشینری کو شکست دی تھی۔اس دوران انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کے تمام لیڈروں سے ملاقات کی تھی بلکہ وہ ذاتی طور پر کانگریس صدر سونیا گاندھی سے ملنے گئی تھیں جہاں راہل گاندھی بھی موجود تھے۔اس دوران  باہمی مکالمے میں ان کا زور’اپوزیشن کے اتحاد کو کیسے مضبوط کیا جائے ‘ پر تھا۔
 خیال رہے کہ چند ہی مہینوں کے اندر اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور پنجاب وغیرہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔۲۰۱۴ء میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کیلئے یہ پہلا موقع ہے کہ وہ  وسیع پیمانے پر کسانوں کی تحریک کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم اطمینان اور بے چینی کے بعد دفاعی  حربہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ اتنے کم وقت میں اپنے  جانے پہچانے اور آزمودہ نسخے  یعنی ’پولرائزیشن‘ کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا سکتی، اس کی وجہ سے  وہ کافی مشکل میں نظر آرہی  ہے۔امیت شاہ کے مطابق۲۰۲۲ء کے انتخابات میںوزیر آدتیہ ناتھ یوگی کی ہار جیت۲۰۲۴ء میں نریندر مودی حکومت کی  ہارجیت کا مستقبل کا فیصلہ کرنے والی ہے۔اس پس منظر میں ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی اچانک تیسرا محاذ بنانے کی کوشش جس میں وہ کانگریس کو دور رکھنا چاہتی ہیں۔ کانگریس پر آئے دن اس طرح کے حملوں سے یقیناً بی جے پی کی خواہش پوری ہو گئی ہے۔
 جمہوریت، جس کی تعریف ابراہم لنکن نے’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اورعوام کیلئے‘‘ کے طور پر کی تھی، اس کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ آپ نہ صرف  اپنی پارٹی بنا سکتے ہیں بلکہ آپ ذاتی طور پر حکومت کے سب سے بڑے عہدےتک پہنچنے کا خواب دیکھ سکتے ہیں اور اس کیلئے کوششیں بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے میںممتا بنرجی جو کہ فائر برانڈ لیڈر کہلاتی ہیں، اگر کچھ دنوں سے وزیر اعظم بننے کا  خواب دیکھ رہی ہیں اوراس کیلئے کوشاں بھی ہیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں!
 تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ بہت جلد بازی میں نظر آتی ہیں اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس جلد بازی میں دوست اور دشمن کی ان کی شناخت بھی دھندلی ہو گئی ہے۔ تریپورہ میں، کانگریس حامیوں اور کارکنوں کے ایک حصے کو اپنے حق میں کرلینے کے بعدشمال مشرقی خطے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کا توسیعی منصوبہ کانگریس کے چند نوجوان اور سینئر لیڈروں کو، بھلے ہی ان کی تعداد کم ہو، اپنی طرف کرلینے میں کامیاب ہو رہا تھا۔کہا جا سکتا ہے کہ آسام کی رہنے والی سشمتا دیو جو خود ’مہیلا کانگریس‘ کی صدر تھیں اور راہل گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں  سے ایک تھیں اور جن کے والد خود کانگریس کے بڑے لیڈر تھے اور مرکز میں وزیر بھی تھے،کا ترنمول سے وابستہ ہونا کانگریس کیلئے یقیناً ایک بڑا جھٹکا تھا۔اس کے بعد گوا کانگریس کے سینئر لیڈر، جو پہلے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور جو تقریباً چالیس سال تک کانگریس سے جڑے رہے تھے، نے اپنا  پالا بدل کرترنمول کا دامن تھام لیا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اشوک تنور (ہریانہ) اور کیرتی جھا آزاد (بہار) کے ترنمول کانگریس میں شامل ہونے کے بعد، شمال مشرقی میگھالیہ میں کانگریس کے ۱۸؍ میں سے۱۳؍ ایم ایل اے پارٹی چھوڑ کر ترنمول میں شامل ہو گئے۔
 ممتا کے حالیہ دہلی دورے کی خاص بات وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی ملاقات تھی جو مبینہ طور پر ریاست سے متعلق چند مطالبات کیلئے تھی، جس میں انھوں نے ریاست میں سیکوریٹی فورسیزکی تعیناتی کا مسئلہ اٹھایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے علاوہ قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق  اُس فنڈ پر بھی انہوں نے گفتگو کی  جس کےچند ہزار کروڑ روپے مرکز کے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئندہ سال مغربی بنگال کے دارالحکومت میں ہونے والی گلوبل بزنس سمٹ کے مہمان خصوصی وزیر اعظم نریندر مودی ہوں گے، جنہیں یہ دعوت دینے خود ممتا بنرجی ان کے پاس پہنچی تھیں۔  دوسری طرف کانگریس صدر سونیا گاندھی سے ان کی مجوزہ ملاقات نہیں ہوسکی تھی جس کی نہ صرف میڈیا میں خبریں آئی تھیں بلکہ ان کی پارٹی کے کچھ  لیڈروں نے بھی اس کا اشارہ دیا تھا۔اس بدلے ہوئے منظر نامے کے حوالے سے پچھلے چار مہینوں میں کیا ہوا؟اس کے بارے میں قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو مضبوط کرنے سے لے کر کانگریس کے بغیر تیسرا محاذ قائم کرنے کے ان کے دعوے تک، اس کے پیچھے کی سچائی تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔  رسمی طور پر ترنمول کانگریس کی جانب سے یہی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ’’کانگریس بی جے پی سے لڑنے میں سنجیدہ نہیں ہے‘‘ یا پھر یہ کہ’’ کس طرح دو انتخابات (۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء)  میں وہ بی جے پی کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے‘‘ اور اس کے برعکس’ مغربی بنگال کا تجربہ‘ ہے، جس میں بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خود ممتا بنرجی نے ٹی ایم سی کے  ترجمان اخبار ’جاگو بنگلہ‘  کے اکتوبر۲۰۲۱ء میں شائع اپنےمضمون میں’دیلیرڈاک‘ (دہلی بلا رہی ہے) میں اس موضوع پر گفتگو کی تھی۔ اس پورے واقعہ میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ پارٹی کے اس مشن انڈیا پروجیکٹ میں یا اس کی بدلی ہوئی ترجیحات کے پس پشت انتخابی حکمت عملی بنانے والے پرشانت کشور کی پارٹی کے اندر بڑھتا ہوا ان کا دبدبہ صاف نظر آرہا ہے، جن کے سر ترنمول کانگریس کی حالیہ کامیابی کا سہرا بھی باندھا جارہا ہے۔ خواہ وہ کانگریس  سے وابستہ رہے گوا کے ’لوزنہو فلیرو‘ ہوں یا میگھالیہ میں کانگریس کے سینئر لیڈر مکل سنگما، سبھی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ’’حکمراں بی جے پی کا متبادل بنانے کے کشور کے ویژن سے متاثر تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK