Inquilab Logo

فلسطین اسرائیل معاملہ، کیا عالمی عدالت کچھ کریگی؟

Updated: February 02, 2023, 11:42 AM IST | Ramzi Barood | MUMBAI

اسرائیل اب زیادہ جارح ہوگیا ہے۔ اس میں عالمی موقف کو سمجھنے کی رواداری بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اب اس کے بیانات بھی دوٹوک ہیں کہ فلسطین پر قبضہ جائز ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ایک بار پھر عالمی عدالت ِ انصاف (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) فلسطین میں یہودی بستیاں بسانے کے جرم کے پیش نظر قانونی پہلوؤں کو روشنی میں لائے گا۔ ۳۱؍ دسمبر کو اقوام متحدہ نے اس بات کی وکالت کی کہ عالمی عدالت انصاف فلسطین میں یہودی بستیوں کے معاملے میں قانونی نتائج سے حکومت ِ اسرائیل کو آگاہ کرے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو واضح کرے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو  اسرائیلی قبضے کے خاتمہ کے تئیں اُن کی ذمہ داری کا احساس دلائے۔ مگر اس سے کتنا فرق پڑے گا؟
 اس سے پہلے عالمی عدالت سے ایسا ہی مطالبہ ۲۰۰۴ء میں کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت اقوام متحدہ نے عدالت سے جو قانونی رائے طلب کی تھی وہ ’’نسل پرستی کی دیوار‘‘ سے متعلق تھی جو اُس وقت تعمیر کی جارہی تھی۔
 عالمی عدالت نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطین میں جو کچھ بھی کررہا ہے وہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے ناجائز ہے بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی رو سے، مگر اس مرتبہ ایک نیا پہلو ہے اور وہ یہ کہ اقوام متحدہ کو فلسطین میں عارضی اسرائیلی قبضہ کے بجائے مستقل قبضہ کی تشویش لاحق ہے۔ بہ الفاظ دیگر، اگر عالمی عدالت ضروری سمجھے تو فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی ہر کارروائی کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے تمام پیش روؤں کے مقابلے میں اسرائیل کی ہر کارروائی کو معمول کے مطابق اور ضروری باور کرانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعہ عدالت سے رجوع کا قدم اُٹھایا تو نیتن یاہو برہم ہوئے اور اس کی شدید مذمت کی حتیٰ کہ اسے قابل نفریں بتایا۔ اس موقع پر اسرائیل کے ایک اہم رکن پارلیمان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارہ پر اسرائیل کا قبضہ حتمی اور مستقل ہے نیز اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ وہ اسے اپنی سرحدوں میں شامل کرلے۔ یہ بات انہوں نے یکم جنوری کو ایک ریڈیائی انٹرویو کے دوران کہی۔ اس سے آپ خود اندازہ لگائیں گے کہ کل تک جو تھوڑی بہت رعایت ِلفظی باقی تھی اب وہ بھی نہیں ہے اور اسرائیلی اہل اقتدار صاف لفظوں میں یہ سمجھانے پر تُلے ہوئے ہیں کہ اُن کا حتمی مقصد کیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل  اپنے عزائم کے اعتبار سے اُس مشن کی تکمیل کے قریب پہنچنا چاہ رہا ہے جو اُس نے ۴۸۔۱۹۴۷ء میں شروع کیا تھا۔ اس کے عزائم میں دور دور تک بھی دو قومی نظریہ نہیں ہے۔ وہ وسیع تر اسرائیل کا اپنا خواب پورا کرنے کے درپے ہے جس کے نتیجے میں فلسطینوں کو اُن کا حق خود ارادیت تو نہیں ملے گا، اُن کی زمینات بھی ہاتھ سے جاتی رہیں گی اور جو تھوڑا بہت حصہ اُن کے قبضے میں ہے وہ ایک طرح کی کالونی بن جائیگا اور اسرائیل ’’ وَٹ اسٹیٹ سالیوشن‘‘ پر ناز کرے گا کہ اسرائیل اور فلسطین دو ملک نہیں ہیں بلکہ ملک ایک ہی ہے اور وہ ہے اسرائیل۔ اس کی وجہ سے اُس کے مظالم بھی بڑھ جائینگے اور ا س کی کوشش ہوگی کہ فلسطین کا کوئی قانونی یا سیاسی یا اخلاقی جواز ہی باقی نہ رہے۔ اس بات کا خدشہ دن بہ دن زیادہ بڑھ رہا ہے کیونکہ اب جو حکومت اسرائیل میں ہے اُس میں شدت پسند عناصر زیادہ ہیں۔ بن گوویر، بیزلیل اسموٹرک اور یوآ گلانٹ جیسے لوگ امن مخالف ایجنڈے کو ماننے والے لوگ رہے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ۲۸؍ دسمبر کو جس دن اس نئی حکومت نے حلف لیا اسی دن اس نے اعلان کیا کہ اسرائیلی حکومت ہر طرح سے پیش قدمی کرے گی اور اسرائیل کے تمام حصوں پر یہودی بستیاں بسائے گی۔ یادرہے کہ ان میں جو بن گوویر ہیں انہوں نے ہی مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا تھا۔ اس پر عالمی ردعمل سامنے آیا تھا مگر اب وہ نہ صرف فلسطینیوں کو بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی یہ پیغام پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں کہ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوسکتا خواہ وہ عالمی قانون ہو یا بین الاقوامی قانون۔ یہ شدت پسند عناصر یہ بھی سمجھانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کا کوئی معمولی سا حصہ بھی اُن کی رسائی سے دور نہیں ہے اور اس پر قبضہ مشکل نہیں ہے۔
 اس حکومت کو ایسے عزائم سے روکا جاسکتا ہے بالکل اُسی طرح جیسے ماضی میں روکنا ممکن تھا۔ اسے روکنے کا بہترین طریقہ جو کل بھی اُتنا ہی سہل تھا جتنا آج ہے وہ یہ ہے کہ حکومت ِ اسرائیل کی مالی، فوجی اور سیاسی مدد یا پشت پناہی بند کردی جائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے لاکھ کوشش کی کہ اسرائیل پر بین الاقو امی قوانین کا اطلاق ہو مگر بار بار امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اسرائیل کو بچایا۔ اقوام متحدہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق فی الحال ۷؍ لاکھ ایسے یہودی ہیں جو فلسطینیوں کی زمین پر اپنی بستیاں بسائے ہوئے ہیں اور وہیں اُن کی بود و باش ہے۔ یہ لوگ مغربی کنارہ کی ۱۴۵؍ نو آباد کالونیوں میں رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں ۱۴۰؍ ایسی آبادیاں ہیں جنہیں نئی حکومت سرکاری جواز فراہم کرنے کے قریب ہے۔ نیتن یاہو کی قیادت میں جو حکمراں محاذ اقتدار میں ہے اس نے مذکورہ ۱۴۰؍ آؤٹ پوسٹس کو یقین دلایا ہے کہ اُنہیں بہت جلد قانونی حیثیت فراہم کردی جائے گی۔ تب انہیں سرکاری امداد بھی ملنے لگے گی۔ اس ضمن میں یاد رہنا چاہئے کہ اسرائیل کا ’’نیشن اسٹیٹ لاء آف ۲۰۱۸ء‘‘ ایسا ہے کہ جس نے تل ابیب کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مجاز ہے۔ اسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ یہودی بستیاں بسانے کیلئے جو بھی ضروری سمجھے، کرے اور فلسطینیوں کے حقوق کی پروا یا فکر نہ کرے۔ اسرائیل کا بنیادی قانون بھی یہی کہتا ہے کہ اسرائیل کا نیشن اسٹیٹ تصور یہ ہے کہ پوری زمین اسرائیل کی ہے چنانچہ اس پر قبضہ فطری تو ہے ہی، ثقافتی ، مذہبی اور تاریخی اعتبار سے بھی اسرائیلیوں کا حق ہے ۔ اقوام متحدہ کا عالمی عدالت سے رجوع اچھی بات ہے، مگر جب تک کوئی بامعنی کارروائی حکومت اسرائیل کے خلاف نہیں ہوتی تب تک قانونی نظریہ یا قانونی صلاح کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جب تک امریکہ اور اسرائیل کے دیگر اتحادی فلسطین کے درد کو نہیں سمجھتے،اُن کے حق کا اعادہ نہیں کرتے تب تک چاہے کتنی ہی قانونی بندشیں لائی جائیں، حکومت اسرائیل کو شیطنت سے روک نہیں پائیگی۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK