Updated: July 10, 2025, 9:01 PM IST
| Washington
ایکس پر ایک پوسٹ میں، البانیز نے کہا تھا کہ ۷ اکتوبر سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد اور منظم ہو چکا ہے اور مرد اور خواتین قیدیوں کو عصمت دری سمیت جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ٹرک نے جمعرات کے روز مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات کی اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز کے خلاف امریکی پابندیوں کے ’’فوری خاتمے‘‘ کا مطالبہ کیا۔
فرانسسکا البانیز۔ تصویر: آئی این این
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ٹرک نے جمعرات کے روز مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات کی اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز کے خلاف امریکی پابندیوں کے ’’فوری خاتمے‘‘ کا مطالبہ کیا۔ ٹرک نے ایک بیان میں کہا، ’’اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے، انسانی حقوق کے نظام کے دیگر حصوں کی طرح، فطرتاً ایسے حساس اور اکثر متنازعہ مسائل پر بات کرتے ہیں جو بین الاقوامی تشویش کا باعث ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سخت اختلافات کے باوجود بھی رکن ممالک کو ’’معنوی اور تعمیری انداز میں اسے قبول کرنا چاہیے نہ کہ سزاؤں کا سہارا لینا چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ نے بدھ کو اقوام متحدہ (یو این) کی محصور علاقے غزہ کیلئے خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اقوام متحدہ کو البانیز کو ان کے عہدے سے ہٹانے پر قائل کرنے میں ناکامی کے بعد یہ پابندیاں لگا دیں جو فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ یہ اقدام، غزہ میں ۲۱ ماہ سے جاری اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کے ناقدین کو سزا دینے کی امریکہ کی تازہ کوشش ہے۔
فرانسسکا البانیز کون ہیں؟
فرانسسکا البانیز ایک بین الاقوامی وکیل ہیں جو انسانی حقوق اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ یو این ہائی کمشنر فار رفیوجی کے مطابق، مئی ۲۰۲۲ء سے وہ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور ۱۹۶۷ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نگرانی اور رپورٹنگ کی ذمہ دار ہیں۔ بطور خصوصی نمائندہ، انہوں نے مختلف مسائل پر متعدد قانونی تجزیے اور اہم رپورٹس جاری کی ہیں۔ ان میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں حق خود ارادیت کی خلاف ورزی (۲۰۲۳ء)، فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر اور منظم قید (۲۰۲۳ء)، بچوں کے حقوق کی پامالی جسے ”ان چائلڈنگ” کہا جاتا ہے (۲۰۲۳ء) اور اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی فوج کا ’شیڈواسٹاف‘ تشکیل دیدیا تھا
”دی ورلڈ ود یالدا حکیم“ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں، البانیز نے کہا کہ غزہ میں ’بہت سے‘ نوجوان جنگجو اپنے تجربات سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور ”جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے، جو کچھ انہوں نے کیا ہے، وہ اس سے پریشان ہیں۔“ انہوں نے تنازع کے گہرے نفسیاتی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ کوئی جنگ نہیں، یہ شہریوں پر حملہ ہے اور یہ ان میں سے بہت سے لوگوں میں ایک دراڑ پیدا کر رہا ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں، البانیز کا کہنا ہے کہ ۷ اکتوبر سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد اور منظم ہو چکا ہے اور مرد و خواتین قیدیوں کو عصمت دری سمیت جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ کی آبادی کی جبری منتقلی کا اسرائیلی منصوبہ انسانیت کیخلاف جرم ہے‘‘
البانیا نے اپنی تازہ رپورٹ میں کیا لکھا؟
انسانی حقوق کی وکیل فرانسسکا البانیز نے اسرائیل پر غزہ میں فلسطینی آبادی کے خلاف کھلے عام ”نسل کشی“ کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا ہے، اس الزام کو اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ دونوں نے سختی سے مسترد کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، البانیز کی یکم جولائی کو ریلیز ہوئی تازہ رپورٹ، بین الاقوامی دفاعی کمپنیوں پر مرکوز ہے جنہوں نے اسرائیلی فوج کو ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ اس میں شپنگ، رئیل اسٹیٹ، ٹیکنالوجی، بینکنگ اور فنانس اور آن لائن ٹریول صنعتوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں کمپنیوں کی سرگرمیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں زندگی کو مٹایا جارہا ہے اور مغربی کنارے پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسرائیل کی نسل کشی کیوں جاری ہے کیونکہ یہ بہت سے لوگوں کیلئے منافع بخش ہے۔
انہوں نے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے گرفتاری کے وارنٹ کی بھی بھرپور حمایت کی ہے۔ ان کی تازہ رپورٹ میں گوگل، امیزون، مائیکروسافٹ سمیت کئی بڑی امریکی کمپنیوں کو ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو ان کے بقول اسرائیل کے قبضے اور غزہ پر جنگ میں مدد کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ:بچوں میں گردن توڑ بخار تیزی سے پھیل رہا ہے،ادویات کی شدید قلت،حکام نے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں ۵۷ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، وزارت کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مہلوکین میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس جنگ کو تقریباً ۲۱ ماہ مکمل ہو چکے ہیں جس نے غزہ کی ۲۳ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کی اکثریت کو بے گھر کر دیا ہے، علاقے میں سرگرم ڈاکٹروں اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شدید زخمیوں کیلئے ضروری دیکھ بھال حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔