’’قوم‘‘ کا تصور محض مذہبی وابستگی پر نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: August 15, 2025, 4:44 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
’’قوم‘‘ کا تصور محض مذہبی وابستگی پر نہیں ہے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کی سب سے پہلی اور بنیادی شناخت اس کی ہندوستانی قومیت ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب، زبان، نسل یا ثقافت سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو ملک کے کثیرالمذہبی اور کثیرالثقافتی معاشرے کو ایک وحدت میں پروئے رکھتا ہے۔ قومیت کا یہ تصور صرف ایک قانونی یا آئینی پہچان نہیں ، بلکہ ایک فکری اور عملی فلسفہ ہے، جسے آزادی سے قبل، تحریکِ آزادی کے دوران اور آزادی کے بعد بھی برصغیر کے اکابر علماء اور دانشور طبقے نے ہندوستانیوں کے سامنے واضح انداز میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے یہ سمجھایا کہ مذہب اور قومیت دو الگ پہچان ہیں : مذہب انسان کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا تعین کرتا ہے، جبکہ قومیت اس کی جغرافیائی اور سیاسی شناخت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہونا کسی طرح کے تضاد یا کمزوری کا باعث نہیں بلکہ ایک قدرتی حقیقت ہے۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے مختلف مذاہب، زبانوں اور علاقوں کے لوگوں کو ایک مشترکہ جدوجہد میں جوڑ کر انگریز سامراج کے خلاف کھڑا کیا اور آزادی کی منزل تک پہنچایا۔ آج بھی یہی نظریہ ملک کے اتحاد، ہم آہنگی اور پائیدار امن کی بنیاد ہے، کیونکہ جب ہر فرد اپنی قومی شناخت کو مقدم رکھتا ہے تو وہ مذہبی اختلافات کے باوجود ایک ہی لڑی میں پروئے رہتے ہیں۔ اسی سے کثرت میں وحدت جنم لیتی ہے اور فروغ پاتی ہے۔
قرآن کریم میں یہ بات بار بار نظر آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت کے دوران اپنی قوم کو اے میری قوم کہہ کر پکاراہے اور اس خطاب میں وہ سب لوگ شامل تھے جو ان پر ایمان لائے اور وہ بھی جو ان کے منکر رہے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۵۹) اسی طرح حضرت ہود، صالح، شعیب اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے بھی اپنی قوم کو اسی لفظ سے مخاطب کیا۔ اس سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ قوم کا تعلق محض عقیدہ یا مذہب سے نہیں بلکہ مشترکہ نسب، زبان، سرزمین اور تاریخی وحدت سے بھی ہوتا ہے۔ انبیاء کے اس طرزِ خطاب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ہی قوم میں مختلف عقائد رکھنے اور مذاہب کو ماننے والے لوگ شریک ہو سکتے ہیں ، اور قومیت کی بنیاد وطن اور اجتماعی رشتہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہی تصور موجودہ دور میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایک ہی وطن میں بسنے والے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ ایک ہی قوم کہلاتے ہیں۔
اسی بنیاد پر علماء نے واضح کیا ہے کہ ’’قوم‘‘ کا تصور محض مذہبی وابستگی پر نہیں بلکہ مشترکہ سرزمین، زبان اور ثقافت پر بھی قائم ہوتا ہے۔ مفکرین نے لکھا ہے کہ ’’انسان ایک خاص علاقے اور زمین کے ساتھ قدرتی انسیت رکھتا ہے، یہی انسیت قومی تعلق کو جنم دیتی ہے۔ ‘‘ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے تحریک ِ آزادی کے دوران یہی اصول بیان کیا تھا کہ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو وطن سے جوڑاہے، اور قومیں اپنے وطن سے پہچانی جاتی ہیں۔ ‘‘ مثال کے طور پر اگر ایک عرب، ترک یا ہندی مسلمان کہیں اور بھی جائے تو اسے اس کے وطن سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ لہٰذا وطن صرف رہائش کی جگہ نہیں بلکہ قوم کی پہچان اور اجتماعی وجود کی اساس ہے، اور جب قوم اپنے وطن سے جڑی رہتی ہے تو اس کی وحدت، وقار اور ترقی ممکن ہوتی ہے۔
اگرچہ موجودہ وقت قومیت اور وطنیت کے فلسفیانہ پہلوؤں پر تفصیلی بحث کا نہیں ہے، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اس تصور کو صحیح معنوں میں سمجھنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ براہِ راست ان کی اجتماعی ترقی، قومی کردار اور اس ملک میں ان کے وجود کی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس سرزمین پر ہم پیدا ہوئے، پروان چڑھے اور جہاں ہماری نسلیں آباد ہیں ، اس سے گہرا تعلق قائم رکھنا ہماری ملی، سماجی اور سیاسی ضرورت ہے۔ قومیت اور وطنیت کو سمجھ کر ہی ہم اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں ، اپنے حقوق کے لئے مؤثر آواز اٹھا سکتے ہیں ، اور ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ مضبوط اعتماد اور تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ اس فلسفے سے غفلت ہمیں قومی دھارے سے کاٹ سکتی ہے اور ہمارا مثبت کردار کمزور کرسکتی ہے، جبکہ اسے سمجھنے سے ہم ایک فعال، باوقار اور ذمہ دار قوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔