Inquilab Logo

اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں

Updated: February 14, 2020, 3:32 PM IST | Hafiz Shabbir Siddiqui

’’محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔

 اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں ۔ تصویر : آئی این این
اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں ۔ تصویر : آئی این این

’’محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’محبت‘‘ کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے۔ صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے حقیقی محبت کا اظہار کرنا چاہے تو وہ بھی تذبذب کا شکار رہتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس سے محبت ہو اس سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے۔ (سنن أبي داؤد) اس تمام صورت حال کا سبب فقط اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں۔ جہاں محبت کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے وہیں ہمارے معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کا منایا جانا ہے۔ ہر سال ۱۴؍فروری کو یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے ہم ’’محبت‘‘ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی حقیقت کو جاننے کے لئے اسلام کا ’’معیارِ محبت‘‘ اور اس کی ترتیب کو جاننا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت
قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پر کسی اور شخص یا چیز کی محبت غالب نہیں آتی۔مومنوں کی اس محبت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’اہل ایمان سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں  ۔‘‘ (البقرہ:۱۶۵)
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
’’تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرنے لگتا ہے: ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں…‘‘ (صحیح البخاري)
رسول اللہﷺ سے محبت
سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے محبت ایمان کا اہم حصہ ہے۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا انحصار آپﷺ کی محبت کو قرار دیا گیا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح البخاري) ایک روایت میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے:’’جب تک تمام لوگوں سے بڑھ کر ان کے نزدیک محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ 
ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے قبولِ اسلام سے پہلے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی نبیﷺ سے محبت کا اعتراف یوں کیا تھا:’’میں نے کسی کو کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت محمد ﷺ کے ساتھی اور شاگرد ان سے کرتے ہیں۔‘‘ (تاریخ الطبري)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے محبت
صحابہ کرام ؓسے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق اور الحاد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان کو مسلمانوں کے لئے آئیڈیل قرار دیا ہے۔ 
میاں بیوی کی آپس کی محبت
میاں بیوی کا آپس میں محبت کرنا شرعاً پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ دین اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ میاں بیوی آپس میں محبت کرنے کے بجائے غیروں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے پھریں۔ شریعت یہ چاہتی ہے کہ میاں بیوی کا یہ پاکیزہ بندھن خوش حال زندگی کا باعث بنے، اسی لئے شریعت نے ان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ ان حقوق میں سے ایک اہم حق ان کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کی آپس کی محبت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:
’’اور (یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اوراس نے تمہارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کردی۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے عظیم نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘ (الروم: ۲۱) 
والدین اور اولاد کی آپس میں محبت
والدین اور اولاد کے درمیان محبت کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس محبت کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب ہونے کی صورت میں سخت وعید فرمائی ہے، اس لئے کہ محبت کا پہلا حق اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ گو یا کہ والدین اور اولاد کے مابین محبت شرعی طور پر مطلوب ہے مگر اس وقت جب اسے ثانوی حیثیت دی جائے اور اس پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کو ترجیح حاصل ہو جیسا کہ بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
عام افراد کی آپس میں محبت
اسلام امن و امان، اخوت اور محبت کا دین ہے۔ تمام لوگ معاشرے میں امن و امان اور محبت کے ساتھ پر سکون زندگی گزاریں، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مقدس میں تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے۔ گویا جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان محبت ہوتی ہے اسی طرح تمام لوگوں سے محبت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے آپس میں محبت کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
’’جب کوئی بندہ کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے محبت رکھتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے پروردگار کی تکریم کرتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد) یہ محبت اسی صورت لائق تحسین ہے جب بغیر کسی لالچ اور طمع کے ہو۔
ویلنٹائن ڈے
عالمی سطح پر ’’یومِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہمارے معاشرے میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ دن منانے کی وجہ کیاہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی باغیرت اور باحمیت شخص کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی راہ چلتا شخص اس کی بیٹی کو پھولوں کا گل دستہ پیش کرنے کی جرأت ۔ اسی طرح کوئی بھی باحیا، با غیرت اور پاکدامن لڑکی کبھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ اس کا کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو یا کوئی بھی راہ چلتا نوجوان اسے پھول پیش کرے اور محبت کی پینگیں بڑھائے۔
باعثِ صد افسوس یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو یومِ تجدید محبت‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’محبت‘‘ کو باعث عار سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق  کا روگ لگ جاتا  تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا مگر آج صورت حال یہ بن چکی ہے کہ اس مرض کو ایک ’’مقدس شے‘‘ کے طور پر  بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔ 
 قدیم رومی کلچر کی روایات ہوں یا جدید مغرب کا اسلوبِ جنس پرستی، ان کا ہماری مذہبی تعلیمات تو ایک طرف، مشرقی کلچر سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ مغرب میں ’’محبت‘‘ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے۔ جس جذبے کو وہاں محبت (LOVE) کا نام دیا جاتا ہے، وہ درحقیقت بوالہوسی اور خواہش پرستی ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔
 نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو ان خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ انھیں اس بات سے مطلع نہیں کیا جارہا کہ جس بات کو وہ ’’محبت‘‘ سمجھ کر منا رہے ہیں، وہ در حقیقت جنسی بے راہ روی کی علامت ہے۔ اس کا ان کی سماجی روایات اور اخلاقی قدروں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK