Inquilab Logo

اسلام میں عدل و انصاف پر مبنی معاشی ترقی مطلوب ہے

Updated: January 24, 2020, 3:09 PM IST | Sayed Asaad Geelani

اسلام ایک کامل نظامِ زندگی کی حیثیت سے انسان کو معاشی میدان میں بھی کامل رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے ۔

معاشی ترقی عدل و انصاف پر مبنی ہے ۔ تصویر : آئی این این
معاشی ترقی عدل و انصاف پر مبنی ہے ۔ تصویر : آئی این این

  اسلام ایک کامل نظامِ زندگی کی حیثیت سے انسان کو معاشی میدان میں بھی کامل رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ اسلام معاشی ترقی کا نہ مخالف ہے اور نہ اس سے بے نیاز ہے بلکہ وہ انسان کو معاشی دوڑ میں شرکت کیلئے بعض اصول اور حدود کا پابند کرتا ہے۔ یہ حدود دراصل دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق ہیں جن کو پامال کرکے کوئی معاشی ترقی مطلوب نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ معاشی ترقی نہیں بلکہ معاشی ظلم و ستم اور استحصال بن جاتا ہے جبکہ اسلام ہر قسم کے استحصال کا مخالف ہے۔
 معاشی ترقی صرف وہی معتبر اور جائز ہے جس میں عدل و انصاف اور اعتدال و توازن ہو اور جس سے طبقات پیدا نہ ہوں۔ معاشرے کے تمام افراد میں اخوت و ہمدردی اور مساوات  کے احساسات موجود ہوں۔ اسلامی معاشرے میں نسلی اور مالی امتیازات کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کا پیش کردہ اسلامی تصور حیات متوازن و معتدل اور مکمل ہے اور انسان کو پیدائش سے قبر تک اور قبر سے آخرت تک کے حساب و کتاب کی پوری رہنمائی دیتا ہے۔انسانی زندگی چونکہ  ایک وحدت ہے اس لئے اس کی ضروریات کے سارے شعبے چاہے وہ سیاست کا ہو، معیشت کا ہو یا اخلاق کا، سب آپس میں مربوط ہیں اور سب ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک شعبہ مفلوج کردیا جائے تو دوسرے پر زد پڑتی ہے۔  اسلام کا نظامِ عبادات اگر کائنات کے متعلق بنیادی تصور دے کر انسان کیلئے یکسوئی فراہم کرتا اور دل و دماغ کو پاکیزگی مہیا کرتا ہے تو سیاسی نظام معاشرے کی اس پاکیزہ فضا کو قائم رکھتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کا معاشرتی نظام خاندان کو معاشرے کی اکائی تصور کرکے خاندان کی فلاح و بہبود اور باہمی خوشگوار تعلقات کو قائم کرتا ہے۔ اقتصادی نظام معاشرے کے ہر فرد کو رزق حلال حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔آپؐ نے  اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ایک متوازی، معتدل، مصنفانہ اور ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشی نظام قائم کیا تھا جس کے نتیجے میں طبقاتی کشمکش، معاشی استحصال، معاشی طبقہ بندی اور گروہ بندی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہر شخص کا یہ بنیادی حق تھا کہ وہ معاش حاصل کرے اور روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات کے لئے نہ ضمیرفروشی کرے اور نہ ذلیل و رسوا ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بعض بنیادی اصول طے کردیئے گئے تھے:
 فرد کی آزادی: اسلامی معاشرے میں بنیادی اصول کے طور پر سب سے پہلے فرد کی آزادی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ یہ حق صرف تسلیم ہی نہیں کیا گیا بلکہ پورے اسلامی نظام کی قوت اس حق کی پشت پر لا کرکھڑی کردی گئی تاکہ افراد کو ہر شعبۂ زندگی میں شرافت اور پاکیزگی کی حدود میں رہتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی میدان میں پوری پوری آزادی حاصل رہے۔
  یہ اصول اس لئے ناقابل فراموش ہے کہ ہر انسان کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب  دینا ہے اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ اسے وہ آزادی حاصل ہو جس سے وہ اپنی صلاحیتوں، فطری قوتوں اور فہم و فراست کا کھل کر مظاہرہ کرسکے اور نیکی اور بدی کے دونوں پلڑوں میں جو کچھ جمع کرنا چاہتا ہے، خود اپنی مرضی سے جمع کرسکے۔ البتہ اسلامی قانون صرف اس جگہ آکر فرد کا راستہ روکتا ہے جہاں دوسرے افراد کو ضرر پہنچانے کا خطرہ پیدا ہو اور معاشرے کی پاکیزگی اور دوسروں کے حقوق اس اصول کے تحت متاثر ہوتے ہوں۔
استحصال سے آزاد معاشی جد و جہد:  دنیا میں جتنے بھی اقتصادی نظام  رائج رہے  ہیں اور جتنے بھی انسانی گروہ پائے جاتے ہیں، سب نے معاشی استحصال کی سخت مخالفت کی اور اسے ختم کرنے کا دعویٰ کیا لیکن ہر نظام اور اس کے ماننے والے گروہ کے نزدیک معاشی استحصال صرف وہی ہے جو اس کے تصور ِ استحصال سے مطابقت رکھتا ہو۔ اشتراکیت ذاتی ملکیت کو استحصال سمجھتی ہے لیکن اگر تمام وسائلِ رزق پر ریاست قابض ہوکر لوگوں کا استحصال کرے تو اس کے نزدیک یہ استحصال نہیں ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ داری نظام کو شخصی ملکیت اور لامحدود ملکیت میں استحصال نظر نہیں آتا۔ اس کے نزدیک استحصال ذرائع و وسائل پر ریاست کاقابض  ہونا ہے حالانکہ انسان اس حقیقت سے ہمیشہ واقف رہا ہے کہ استحصال دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ ریاست بھی اس کا ارتکاب کرتی ہے اور فرد بھی۔ دونوں کا طرزِ عمل انسانی فطرت سے قطعاً مطابق نہیں رکھتا۔
 اسلام ان دونوں انتہاؤں سے ہٹ کر اعتدال کی ایک ایسی راہ تجویز کرتا ہے جس میں فردِ واحد اور معاشرے دونوں کے دونوں کے مصالح کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ فرد اور معاشرے میں حقوق و فرائض متعین کر دیئے جاتے ہیں۔ دولت کے حصول اور مصارف کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کردیا جاتا ہے جس میں نہ تو فرد کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ معاشرے کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہے البتہ دونوں کے درمیان توازن و تعاون کی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ استحصال کا تصور ہی بالکل غائب ہوجاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور تعمیر و ترقی میں ایک دوسرے کے مددگار بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد حاصل کرنے میں مشترکہ کردار ادا کرتے ہیں۔
بااصول معاشی جدوجہد: حضور اکرم ﷺ نے معاشی توازن پیدا کرنے کے لئے  بنیادی طور پر دو کام  سرانجام دیئے۔ سب سے پہلے تو آپؐ نے لوگوں کے دلوں سے دولت کی ہوس کو نکالا۔ پھر اُس کے بعد دولت کمانے اور خرچ کرنے دونوں امور پر حلال و حرام کی قیود لگادیں۔ اس لئے کہ ان دونوں کاموں کی گمراہیاں اور بے راہ رویاں ہی معاشی میدان میں تمام برائیوں، استحصال اور ظلم کو جنم دیتی ہیں۔ ان دونوں تدابیر سے اسلامی معاشرے میں معاشی جدوجہد ایک بااصول اور پابند اخلاق جدوجہد بن گئی اور بے تحاشا لوٹ اور بے تحاشا مصارف کا بازار سردپڑگیا جس سے معاشی زندگی میں اعتدال کا توازن آگیا۔
ہوسِ زر کا استیصال: اسلام نے ہوسِ زر کی شدت سے مذمت کی۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا: ’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دو۔‘‘ (التوبہ)
 مزید فرمایا : ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر نے مستغرق کررکھا ہے۔ قبر میں جانے تک تم اسی فکر میں منہمک رہتے ہو۔ یہ ہرگز تمہارے لئے نافع نہیں ہے۔ جلد ہی تم کو اس کا انجام معلوم ہوجائے گا۔‘‘ (التکاثر)
 حضرت ابوذرغفاریؓ روایت کرتے ہیں:
 ’’ایک دن رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ کی طرف تشریف لے گئے۔ میں بھی آپؐ کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ابوذر! میں نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ لبیک۔ آپؐ نے فرمایا: آج جو لوگ زیادہ رکھتے ہیں کل قیامت کے دن وہی مفلس ہوں گے ، بجز ان کے جو ایسا کریں، آپؐ نے اپنے ہاتھ دائیں، بائیں، سامنے  اور پیچھے پھیلاتے ہوئے کہا ،اور ایسے لوگ کم ہوں گے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ابوذر! میں نے عرض کیا : ارشاد اللہ کے رسولؐ ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ میرے پاس اُحد جتنی دولت ہو اور میں اُسے راہ خدا میں خرچ کرتا رہوں ، لیکن مروں تو اس میں سے دوقیراط بھی چھوڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ ! آپؐ کی مراد کیا دو قنطار سے ہے؟ آپؐ نے فرمایا : نہیں نہیں دو قیراط۔ پھر آپؐ نے فرمایا:   ابوذر تم زیادہ کی طرف جاتے ہو اور میں کم کی طرف۔‘‘
  اس طرح آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو تربیت دی اور ان کو بتایا کہ اہل ایمان کے دولت ، سونا چاندی جمع کرنا یا اس کی ہوس  میں مبتلا ہونا تباہی ہے اور یہ کہ اسلامی معاشرہ دولت کو گردش میں رکھنے کا روادار ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں اور کوئی شخص بھی دولت پر سانپ بن کر نہ بیٹھ جائے۔  اس طرح ہر شخص سے آخرت میں جو پانچ سوال ہونے والے ہیں ان میں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ دولت کس ذریعے سے کمائی اور کن کاموں پر خرچ کی۔ ان سوالات کا جواب دیئے بغیر انسان کے قدم عرصۂ محشر سے ہٹ نہ سکیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK