Inquilab Logo

اسلامی معاشرہ کلمہ ٔ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہوتا ہے

Updated: October 22, 2021, 2:03 PM IST | Sayed Qutb Shaheed | Mumbai

مسلم معاشرے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ معاشرہ اپنے تمام معاملاتِ زندگی میں صرف اللہ کی عبودیت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ کلمۂ شہادت اسی عبودیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی کیفیت متعین کرتا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ) اسلامی عقیدہ کے رکن اول… یعنی کلمہ ٔ  شہادت… کا پہلا جزو ہے جس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بندگی و عبادت کے لائق صرف ایک اللہ ہے۔’’محمد رسول اللہ‘‘ اس کا دوسرا جزو ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس بندگی کی کیفیت اور اس طریقہ کوصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی سے حاصل کیا جائے گا۔ مومن اور مسلم کا دل وہ دل ہے جس کی گہرائیوں میں یہ کلمہ اپنے ان دونوں اجزا سمیت پوری طرح جاگزیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں شہادتوں کے بعد ایمان کے جتنے ستون اور اسلام کے جتنے ارکان ہیں وہ دراصل ان شہادتوں ہی کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملائکہ پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، تقدیر خیر و شر پر ایمان، اسی طرح نماز، روزہ زکوٰۃ اور حج، اور پھر حدود، تعزیرات، حلال و حرام، معاملات، قوانین، اسلامی ہدایات و تعلیمات ان سب کی اساس اللہ کی عبودیت پر استوار ہوتی ہے اور ان سب کا منبع وہ تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے۔ 
اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جو کلمۂ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہو۔ اگر یہ کلمہ اور اس کے تقاضوں کی کوئی جھلک معاشرے کی عملی زندگی میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ گویا کلمۂ شہادت  ایک ایسے مکمل نظام کی بنیاد ٹھہرتا ہے جس پر امت مسلمہ کی زندگی اپنی تمام تفصیلات اور ضروریات سمیت تعمیر ہوتی ہے۔ اس بنیاد کے قیام سے پہلے زندگی کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس بنیاد کے ماسوا کسی اور بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے یا اس بنیاد کے ساتھ کسی اور بنیاد کو یا متعدد خارجی بنیادوں کو بھی شامل کر کے زندگی کی تعمیر کی کوشش کی جائے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے معاشرے کو اسلامی زندگی کا نمائندہ کسی طرح بھی نہیں کہا جا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ (درست دین) ہے۔‘‘ (یوسف:۴۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (النساء:۸۰)
یہ مختصر، اصولی اور فیصلہ کُن بیان دین حق اور اس کی عملی تحریک سے تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اولاً: یہ ’’مسلم معاشرے کی فطرت‘‘ کے تعیّن میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ، ثانیاً:’’مسلم معاشرے کے طریقۂ تعمیر‘‘ کی نشاندہی میں ہمیں اس سے مدد ملتی ہے،  ثالثاً: ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام نے جاہلی معاشروں کے ساتھ نمٹنے کے لئے کیا طریقِ کار تجویز کیا ہے۔ اور رابعاً: وہ یہ تعین کرتا ہے کہ انسانی زندگی کی عملی صورتِ حال کو بدلنے کے لئے اسلام کا ضابطۂ کار کیا ہے۔ یہ تمام مسائل وہ ہیں جو قدیم زمانے سے لے کر آج تک اسلامی تحریک کے نظام کار میں نہ صرف اساسی اہمیت کے حامل رہے ہیں بلکہ بڑے نازک اور فیصلہ کن سمجھے جاتے رہے ہیں۔ 
اسلامی معاشرے کا امتیازی وصف
مسلم معاشرے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ معاشرہ اپنے تمام معاملاتِ زندگی میں صرف اللہ کی عبودیت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ کلمۂ شہادت اسی عبودیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی کیفیت متعین کرتا ہے۔ انسان کا اعتقاد بھی اس عبودیت کا مظہر ہوتا ہے ، عبادات و شعائر میں بھی اس عبودیت کا پرتو پایا جاتا ہے ، قوانین و ضوابط اس کی عملی تصویر ہوتے ہیں۔ جو شخص اللہ سبحانہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتا تو اُس نے دراصل ایک اللہ کی بندگی اختیار ہی نہ کی: 
’’اور اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے ، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو، اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خالصاً اُسی کا دین (کائنات میں) چل رہا ہے۔ پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے تقویٰ کرو گے۔ ‘‘ (النحل:۵۱۔۵۲)
اسی طرح جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کے آگے یا اللہ کے ساتھ کسی اور ذات کو شریک کر کے عبادات و شعائر بجا لاتا ہے وہ بھی خدائے واحد کا بندہ نہیں ہو سکتا: 
 ’’کہہ دیجئے میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ ‘‘ (انعام:۱۶۲۔۱۶۳) جاتی ہے ۔اسی طرح جو شخص ان قوانین کو چھوڑ کر، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو دیئے ہیں، کسی اور منبع سے قوانین اخذ کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کی بندگی ٔ خالص سے محروم ہے : 
’’کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا تھا۔‘‘ (شوریٰ:۲۱) 
’’اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔‘‘ (حشر:۷)
یہ ہیں اسلامی معاشرے کی اقدارِ اصلی۔ اس معاشرے میں جس طرح افراد کے معتقدات و تصورات میں بندگی ٔ  رب رچی بسی ہوتی ہے ، اسی طرح ان کی عبادات اور شعائر و مناسک پر بھی بندگی ٔ خالص کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور ان کا جماعتی نظام اور قوانین و ضوابط بھی بندگی ٔ رب کے عملی پیکر ہوتے ہیں۔ ان پہلوؤں میں سے ایک پہلو میں بھی اگر بندگی کا رنگ معدوم ہو تو پورے کا پورا اسلام کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس لئےکہ اس طرح اسلام کا رکن اول، کلمۂ شہادت، جس پر اسلام کی بنیاد ہے سرے سے وجود پذیر ہی نہیں ہو سکتا۔ 
اوپر ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ اسلامی معاشرے کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد کے اعتقادات بھی اسی جذبۂ عبودیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ اسلامی اعتقاد کیا ہے ؟ 
’’اسلامی اعتقاد ‘‘  دراصل یہ ایک ایسا اعتقاد اور تصور ہے جس کا پودا انسان کے شعور و ادراک میں اس وقت پھوٹتا ہے جب وہ عقیدۂ اسلام کے حقائق و رموز کو براہ راست ربانی سرچشمۂ ہدایت (قرآن) سے اخذ کرتا ہے۔ اور جب اس تصور اور اعتقاد کا نقش پوری طرح انسان کے ذہن پر مُرتَسِم ہو جاتا ہے تو پھر اُسے اپنے رب کی حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے ، جس کائنات میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے اُس کی خفی اور جلی حقیقتیں بھی اُسی وقت اُس پر منکشف ہوتی ہیں، جس زندگی کی بدولت وہ زندہ انسانوں میں شمار ہوتا اور ان کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اُس کے پنہاں اور عیاں حقائق بھی اُس پر روشن ہو جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی عرفانِ ذات بھی اسے نصیب ہوتا ہے۔ یعنی وہ خود انسان کی اصلیت سے باخبر ہو جاتا ہے۔ 
 پھر اسی تصور کی بنیاد پر وہ تمام حقائق کے ساتھ اپنے معاملات کی کیفیت متعین کرتا ہے۔ اپنے پروردگار کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس میں اس کی عبودیت اور بندگی کے نور کا پرتو ہو، کائنات اور کائنات کے قوانین و نوامیس، ذی روح مخلوقات، نوع انسانی اور اس کے مختلف اداروں کے بارے میں وہ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی جڑیں اللہ کے دین میں پیوست ہوتی ہیں اور اُس تعلیم سے ماخوذ ہوتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے پورے رویۂ زندگی کے اندر اللہ کی عبودیت و بندگی کا اظہار کرتا ہے ، اور یوں اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر اسی پاکیزہ روش کی مُہر ثبت ہوتی جاتی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK