Inquilab Logo

چھوٹے غزہ کی فکر

Updated: April 10, 2024, 12:50 PM IST | Mumbai

۔ ہندوستان میں بیٹھ کر ہم غزہ کے زمینی حالات کے بارے میں اندازہ تک نہیں کرسکتے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اہل غزہ نے ماہِ رمضان کس طرح گزارا، سحر میں کیا کھایا اور افطار میں کیا نوش جان کیا۔

A family during Iftar in Gaza. Photo: X
غزہ میں ایک خاندان افطاری کے دوران۔ تصویر: ایکس

کسی محلے میں کوئی پرانی اور شکستہ عمارت ڈھے جائے تو کیسی ہاہاکار مچ جاتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ چیخیں، آہ و بکا، علاقے کا محصور کر دیا جانا، بہادر نوجوانوں کا مدد کیلئے دوڑ پڑنا، ایمبولنس کیلئے جگہ بنانا، میونسپل عملے کا جائے حادثہ پر پہنچنا اور ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو مقامی افراد کی مدد سے بچانے کی کوشش کرنا، محلے میں سنسنی پھیل جانا اور اہل محلہ کا گہری تشویش میں مبتلا ہونا، وغیرہ، یہ سارے مناظر ہمارے تصور میں فی الفوراُبھر آجاتے ہیں۔ 
 جب ایک اور صرف ایک عمارت کے اِنہدام پر یہ کیفیت پیدا ہوتی ہو تو سوچئے غزہ میں سیکڑوں عمارتیں زمیں بوس کردی گئیں، ہزاروں شہید او راس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے، عوام کو پناہ گاہوں کی تلاش میں نکلنا پڑا، خود کو بچانا اور اپنے مرحومین کو سپرد خاک کرنا، غذائی اشیاء کی قلت، پینے کے پانی کا قحط، زخمیوں کو اسپتال لے جانے کی مشقت، اور ایسی ہزار مصیبتیں۔ ہندوستان میں بیٹھ کر ہم غزہ کے زمینی حالات کے بارے میں اندازہ تک نہیں کرسکتے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اہل غزہ نے ماہِ رمضان کس طرح گزارا، سحر میں کیا کھایا اور افطار میں کیا نوش جان کیا۔ چند ایک تصویریں جو ہم تک پہنچی ہیں، مثلاً ملبے پر افطار کرتے اکا دکا لوگ، یہ محض جھلکیاں تھیں جن سے اصل حالات کی عکاسی نہیں ہوتی۔ رمضان کا مبارک مہینہ ان لوگوں نے کھلے آسمان کے نیچے گزارا یا پناہ گاہوں میں، جہاں اُن کے پاس زندگی گزارنے یا زندہ رہنے کے بنیادی وسائل تک نہیں تھے۔ 
 ہمارا دل تڑپا، ہم آبدیدہ ہوئے، ان حالات کے تعلق سے سوچتے رہے، بہت کچھ ذہن میں آیا مگر ہم بے بس تھے کہ چاہتے ہوئے بھی اہل غزہ کیلئے کچھ نہیں کرسکے۔ ایسے میں دُعاؤں ہی پر ہمارا اختیار تھا، سوہم نے دُعائیں کیں، اب بھی کررہے ہیں۔ مگر، کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ 
 ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ کسی عرب ملک میں ایک صاحب موٹر گاڑی سے سفر کررہے تھے۔ راستے میں پیٹرول ختم ہوگیا۔ پمپ دور تھا۔ اُنہوں نے پیچھے سے آنے والی گاڑیوں سے مدد کی درخواست کی۔ اکثر لوگ نہیں رُکے۔ کافی دیر بعد ایک گاڑی رُکی جس میں غالباً کوئی انگریز بیٹھا تھا، اُس نے صورتحال کو سمجھا اور تھوڑا بہت پیٹرول دے دیا۔ دونوں گاڑیاں چل پڑیں۔ قریبی پیٹرول پمپ پر دونوں رُکیں۔ پہلی گاڑی کے لوگوں نے دوسری گاڑی کے اپنے محسن کو پیٹرول واپس کرنا چاہا۔ اُس نے انکار کیا۔ انہوں نے منت سماجت کی مگر وہ اپنے انکار پر قائم رہا، بالآخر یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ آپ کو مستقبل میں کوئی شخص ملے جس کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوچکا ہو اور وہ مدد کی درخواست کررہا ہو تو اُسے پیٹرول دے دینا، جس طرح مَیں نے آپ کو دیا ہے، تو مَیں سمجھوں گا میرا قرض ادا ہوگیا۔ 
 اس واقعہ میں ہمارے لئے سبق ہے۔ ہم اہل غزہ تک نہیں پہنچ سکتے تو کوئی بات نہیں، اُس چھوٹے غزہ تک تو یقیناً پہنچ سکتے ہیں جو ہمارے آس پاس موجود ہے مگر بڑے غزہ کے غم سے سینہ فگار لوگ اپنے قریب کے اس چھوٹے غزہ کی فکر نہیں کرتے۔ یہ غزہ کسی بمباری کا نتیجہ نہیں، گردشِ حالات اور معاشی جبر کا نتیجہ ہے، ا س غزہ کی مدد کرکے ہم تسلی کر سکتے ہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے۔ رمضان بہی خواہی کا مہینہ ہے۔ فلسفہ ٔ صدقۂ فطر سماج کے غریبوں اور ناداروں کو عید کی مسرتوں میں شریک کرنے سے متعلق ہے۔ اس کی فکر کرلیجئے جو آج ہی ہوسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK