سیاستدانوں کا اقتدار کا کھیل عوام کو غیر معمولی آزمائشوں سے گزارتا رہتا ہے۔ اسرائیل کی وہ حکومت، جو نیتن یاہو کی سربراہی میں جیسے تیسے چل رہی ہے اور تقریباً ہر سنیچر کو عوامی ناراضگی کے نئے چیلنجوں کا سامنا کرتی ہے
EPAPER
Updated: October 12, 2023, 7:57 AM IST | Mumbai
سیاستدانوں کا اقتدار کا کھیل عوام کو غیر معمولی آزمائشوں سے گزارتا رہتا ہے۔ اسرائیل کی وہ حکومت، جو نیتن یاہو کی سربراہی میں جیسے تیسے چل رہی ہے اور تقریباً ہر سنیچر کو عوامی ناراضگی کے نئے چیلنجوں کا سامنا کرتی ہے
سیاستدانوں کا اقتدار کا کھیل عوام کو غیر معمولی آزمائشوں سے گزارتا رہتا ہے۔ اسرائیل کی وہ حکومت، جو نیتن یاہو کی سربراہی میں جیسے تیسے چل رہی ہے اور تقریباً ہر سنیچر کو عوامی ناراضگی کے نئے چیلنجوں کا سامنا کرتی ہے ، خود کو اقتدار میں برقرار رکھنے کیلئے طرح طرح کے حربے آزماتی ہے۔ ہر سنیچر کو عوام کا بڑا مجمع اس کی عدالتی اصلاحات کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ ان کے غصہ کا رُخ بدلنے اور خود کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے نیتن یاہو کی حکومت اپنے اُن عناصر کی سنتی ہے جو نظریاتی اعتبار سے شدت پسند ہیں۔
ان صہیونیت زدہ لوگوں کا پہلا اور آخری مقصد فلسطین کے وجود کو ختم کر دینا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی کی کوئی بھی حکومت ایسے شدت پسند عناصر سے پاک یا اُن کے اثر سے محفوظ نہیں رہی لیکن جب سے نیتن یاہو‘ نے ان کی مدد سے حکومت بنائی ہے، اس کی حیثیت کٹھ پتلی جیسی ہوگئی ہے۔ اب اس کا کام ان عناصر کی مطلب براری ہی رہ گیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر یہ عناصر حکومت میں شامل نہ ہوتے تو کیا نیتن یاہو کی حکومت کا طرز عمل یا پالیسی مختلف ہوتی؟ جی نہیں۔ تب بھی مختلف نہ ہوتی مگر عالمی برادری، عالمی تنظیموں اور اداروں کا کچھ تو لحاظ رہتا۔ حالیہ مہینوں میں اہل ِ فلسطین کا غم و غصہ، جو اسرائیلی پالیسیوں کی وجہ سے کبھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوپاتا، اس لئے حد سے بڑھ گیا کہ مسجد اقصیٰ پر بار بار دھاوا بولا جارہا تھا، پُرسکون مصلیان کو رگیدا اَور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور قبلۂ اول پر نماز سے روکا جارہا تھا۔ یہ ہوئی ایک بات۔ دوسری وجہ عرب ملکوں کی سفارتی ترجیحات سے پیدا شدہ بے چینی ہے۔ عرب ملکوں کا اسرائیل کی دعوت پر اُس کے قریب جانا اور سفارتی تعلقات قائم کرنا یا اُنہیں مستحکم کرنے کی جانب پیش رفت کرنا۔ ممکن ہے اس کی وجہ سے اہل فلسطین کا یہ احساس شدت اختیار کرگیا ہو کہ اُن کے کاز سے پیچھے ہٹنے یا کاز کے ساتھ رہنے کے باوجود اسرائیل سے تعلقات بنانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو بھی ہو، اگر اسرائیل فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالے اور اُنہیں محصور اور مجبور بناکر نہ رکھے تو اہل فلسطین کو تسلی دی جاسکتی ہے۔ مشہور صحافی کرن تھاپر سے گفتگو میں ہندوستان کے سابق سفیر تلمیذ احمد کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو اَب تک کے سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے لیڈر ہیں اور اِدھر چند برسوں میں حال یہ ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہ رہے تو جیل میں رہیں گے اسلئے اُن کے پاس ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے کسی بھی قیمت پر اقتدار میں رہنا۔ بقول تلمیذ احمد، نیتن یاہو نہایت مکار اور جفاشعار لیڈر ہیں۔ اُن سے عوام خوش نہیں ہیں مگر اسرائیل کی قومی سیاست اتنے برسوں میں اُن کا متبادل تلاش کرنے میں ناکام رہی اسی لئے گزشتہ ۲۵؍ سال سے نیتن یاہو قومی سیاست کاجزوِ لاینفک ہیں خواہ اُنہیں حکومت بنانے کے نقطۂ نظر سے خاطرخواہ سیٹیں نہ ملیں۔
اتنی اُٹھاپٹک کے باوجود نیتن یاہو‘ کی حکومت کیخلاف اسرائیل میں وسیع تر برہمی پائی جارہی ہے۔عوام کو یاہو‘ سے سخت شکایت ہے کہ وہ اُن کے تحفظ میں ناکام رہے۔ حالیہ واقعات کا تجزیہ کرنے والے بہت سے مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اسرائیلی حکومت فلسطین کو تنگ آمد بجنگ آمد کے دہانے پر نہ لے آتی تو یہ حالات نہ ہوتے مگر المیہ ہے کہ اسرائیل اب بھی عقل کے ناخن لینے کو تیار نہیں ۔ n