چاہے پانی تقسیم کررہے ہوں، اس کی تلاش میں ہوں، پانی ہراعتبار سے موت کا سبب بن رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ میں کنوؤں کا پانی بھی آلودہ ہوچکا ہے اورلوگ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کاشکار ہورہے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 01, 2025, 7:15 PM IST | Ahmed Abu Shawish | Gaza
چاہے پانی تقسیم کررہے ہوں، اس کی تلاش میں ہوں، پانی ہراعتبار سے موت کا سبب بن رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ میں کنوؤں کا پانی بھی آلودہ ہوچکا ہے اورلوگ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کاشکار ہورہے ہیں۔
غزہ میں ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں موت نظر آرہی ہے۔ یہاں موت ناقابل جدا ساتھی بن چکی ہے، جو ہماری گلیوں ، آسمانوں ، حتیٰ کہ ہمارے گھروں کے اندر بھی منڈلاتی رہتی ہے۔ اب موت کوئی صدمہ نہیں رہی، یہ روزمرہ کی ایک بھیانک حقیقت بن چکی ہے، جس کے ساتھ ہم جینا سیکھ گئے ہیں۔غزہ میں مرنے کے بہت سے طریقے ہیں، لیکن لوگوں کو انتخاب کا اختیار نہیں ہے۔کیونکہ یہاں آپ بمباری میں مارے جا سکتے ہیں، یا کھانے کے حصول کیلئے کسی لائن میں کھڑے رہ کر اِسنائپر کی گولی کا نشانہ بن سکتے ہیں، یا پھر پانی آپ کی جان جانے کا سبب بن سکتا ہے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق، غذائی قلت کی وجہ سے اب تک۱۱۶؍ افراد جاں بحق ہو چکے، جن میں زیادہ تر بچے اور شیر خوار ہیں۔غزہ میں سب سے بنیادی ضرورت بھی جان لیوا بن سکتی ہے اور پانی ان میں سرفہرست ہے۔ اسکے ہر پہلو میں خطرہ چھپا ہے: چاہے آپ پانی تقسیم کررہے ہوں ، یا اس کی تلاش میں ہوں، چاہے پی رہے ہوں ، یا پھر تیراکی کررہے ہوں، پانی ہراعتبار سے موت کا سبب بن رہا ہے۔ نسل کشی کے آغاز(اکتوبر۲۰۲۳ء) سے ہی اسرائیلی فوج غزہ کے آبی نظام کو نشانہ بنارہی ہے۔۸۵؍ فیصد سے زائد واٹر اینڈ سینیٹیشن کے نظام جن میں پائپ لائنیں، کنوئیں، اور صفائی کے مراکز شامل ہیں، ناکارہ ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے پانی سے متعلقہ ساز و سامان کی غزہ میں آمد پر بھی پابندی لگا دی ہے، جس سے مرمت کے کام بھی مشکل ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے واٹر اتھاریٹی کے گودام کو بھی نشانہ بنایا، جہاںموجود سازوسامان اور پرزے بھی تباہ ہوگئے ہیں۔ بدترین حقیقت یہ ہے کہ آب رسانی نظام چلانے والے کارکنوں کو براہِ راست نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔ غزہ میں محکمہ آب رسانی میں کام کرنا اب موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔حال ہی میں۲۱؍ جولائی کو قابض اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کے رِمل محلے میں موجود کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے پلانٹ پر حملہ کیا، جس میں ۵؍ افراد مارے گئے۔ یہ شہر کے چند فعال واٹر اسٹیشنوں میں سے ایک تھا۔
غزہ میں پانی کے انفراسٹرکچر کی تباہی نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم روزانہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ کچھ موقع پرست افراد پانی گھروں تک پہنچانے کے بدلے ہوشربا دام وصول کرتے ہیں، جو عام فلسطینی ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس لئے لوگ باگ پلاسٹک کی بوتلیں اور کین لے کر پانی کے حصول کیلئے دور دور تک بھٹک رہے ہیں ، لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں تاکہ دن بھر کی ضرورت کا پانی مل جائے۔کڑی دھوپ میںیہ انتظار نہ صرف تھکا دینے والا ہے بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۱۳؍ جولائی کو، نصیرات پناہ گزین کیمپ میں جو میرے گھر سے زیادہ دور نہیں پانی کے ٹرک سے پانی لینے کے لیے قطار میں کھڑے افراد پر اسرائیلی میزائل حملے میں۱۱؍ فلسطینی شہید گئے، جن میں ۷؍ بچے تھے، اور درجنوں زخمی ہوئے۔
کبھی کبھار پانی کے ٹرک دستیاب نہیں ہوتے، تو لوگ مقامی کنوؤں سے ناپاک، مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ پانی جراثیم، کیمیکل اور دیگر زہریلے مواد سے آلودہ ہوتا ہے، اور اس سے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ میں خود اس کا شکار ہو چکا ہوں۔ کچھ مہینے پہلے جب میں نے ایک مقامی کنویں کا پانی پیا تو مجھے ہیپاٹائٹس اے ہو گیا۔ میری جلد اور آنکھوں کی سفیدی پیلے رنگ میں بدل گئی۔ متلی کے سبب میرا کھانا بھی بند ہوگیا، اور بخار نے سانس لینا بھی دشوار کر دیا۔ لیکن سب سے بدترین وہ درد تھا جو میرے پیٹ میں مسلسل ہوتا رہا ، ایسا لگتا تھا جیسے کوئی میری آنتوں کو مروڑ رہا ہو۔ ہفتوں تک میں بستر پرپڑارہا، جس سے میرا جسم کمزور اور دماغ وسوسے و اندیشوں سے گھرگیا۔کلینک کا چکر کاٹنے پر صرف ایک دردکش گولی(پین کلر ٹیبلٹ) اور ’’سلامت رہو‘‘ سننے کو ملا۔ اس باعث مجھے خود ہی اس بیماری سے لڑنا پڑا۔خدا کے فضل سے تومیں بچ گیا، لیکن اس بیماری میں بیشتر بچ نہیں پاتے۔ ہیپاٹائٹس اور پانی سے پھیلنے والی دیگربیماریاں غزہ میں موت کا پیغام بن چکی ہیں۔ جھلسادینے والی گرمی سے راحت کیلئے کوئی سمندر میں نہانے کا بھی سوچ نہیں سکتا کیونکہ وہ بھی موت کا باعث بن چکا ہے۔حالیہ ہفتوں میں، اسرائیلی فوج نے غزہ کے پورے ساحل کو ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا ہے۔ فلسطینیوں کو سمندر میں نہانے، مچھلی پکڑنے، یا سمندر کے قریب جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ جو کوئی بھی ساحل کے قریب جاتا ہے، اس پر گولیاں داغ دی جاتی ہیں۔ اس پابندی سے پہلے بھی اسرائیلی فوج فلسطینی مچھیروں پر حملے کرتی تھی جو سمندر سے مچھلی پکڑ کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتے تھے۔ دسمبر۲۰۲۴ء تک اقوامِ متحدہ کے مطابق تقریباً ۲۰۰؍ فلسطینی مچھیرے مارے جا چکے تھے، اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سےتو تعداد مزید بڑھ گئی ہے۔
ایک طرف ہم سے وہ واحد جگہ بھی چھین لی گئی ہے جو ہمیں گرمی سے کچھ راحت دیتی تھی، وہیں دوسری طرف محض چند کلومیٹر شمال میں اسرائیلی شہری اسی سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں، وہ دھوپ سینکتے ہیں، تیراکی کرتے ہیں اور پانی سے کھیلتے ہیں۔انہیں روزانہ فی کس۲۴۷؍ لیٹر (۶۵؍گیلن) پانی مل رہا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ایک فرد کو روزانہ کم از کم۱۰۰؍ لیٹر(۲۶؍گیلن) پانی درکار ہوتا ہے۔ غزہ کے لوگ فی فرد اب صرف ۲؍ سے ۹؍ لیٹر پانی روزانہ حاصل کر پارہے ہیں۔
فلسطینیوں کے لئے پانی کا حصول بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ نہ کھانے کو کچھ میسر ہے، نہ بجلی سے پنکھے چلتے ہیں، نہ بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ یوں زندگی کا ہر پہلو ایک امتحان بن چکا ہے۔ یہاں واقعی کچھ بھی ایسا نہیں جو ان کٹھن حالات کا بوجھ ہلکا کرے نہ سکون، نہ آرام، نہ کوئی چھوٹا سا سہارا۔مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ۲۱؍ویں صدی میں، ایک ایسی دنیا جس کی آبادی۷؍ ارب سے زیادہ ہے، جہاں عالمی لیڈر خوشحالی، عزت اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں وہاں ہم اب بھی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔ دسمبر۲۰۲۴ء میں ہیومن رائٹس واچ نے کھل کر کہا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ میں ’نسل کشی‘کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اس نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے ’پانی کی محرومی کو ایک دانستہ اقدام‘ قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ’’اگست۲۰۲۴ء تک ہزاروں فلسطینی غذائی قلت، پانی کی کمی اور بیماریوں کے سبب جاں بحق ہو چکے ۔‘‘
تب سے اب تک ایک سال گزر چکا ہے۔ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر کے جتنے لوگ مارے گئے، ان کی گنتی سرکاری اموات کے اعداد و شمار میں شامل نہیں — کیونکہ صحت کے حکام کے پاس یہ سہولت بھی نہیں کہ وہ پانی کے سبب ہونیوالی اموات کا ڈیٹا رکھ سکے۔درحقیقت سچائی سب کے سامنے ہے۔ بین الاقوامی میڈیا سب کچھ نشر کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بحرانی صورتحال صاف نظر آتی ہے لیکن پھر بھی دنیا خاموش ہے۔فلسطینیوں کو بچانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھاتی، اسرائیل کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کرتی۔میں دنیا سے کہنا چاہتا ہوں:تمہاری خاموشی کی گونج ان بموں سے بھی کہیں زیادہ ہے جو ہم پر روز گررہے ہیں۔اے دنیا کے لوگو!تمہیں ابھی کچھ کرنا ہوگا، ورنہ تم تاریخ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور بھوک وپیاس سے مرنے میں شریک جرم سمجھے جاؤ گے۔ (بشکریہ: الجزیرہ )