Inquilab Logo

بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر!

Updated: April 25, 2024, 12:57 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

ہمارے ملک میں انتخابی کمیشن کو انتخابی عمل کو پورا کرانے کے لئے جو آئینی اختیارات حاصل ہیں اگروہ واقعی اس پر عمل کرے تو انتخابی تشہیری جلسوں میں جس طرح کی اشتعال انگیزی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ خود بخود کم ہو جائے گی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

معزز قارئین کی یادداشت میں ہمارا وہ کالم محفوظ ہوگا جو میں نے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کے اعلامیہ کے فوراً بعد لکھا تھا اور اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات بھی ملک کے بنیادی مسائل بالخصوص بیروزگاری، مفلسی، ترقیاتی نشانے، عدمِ تغذیہ اور طبی سہولیات جیسے مسائل پر نہیں ہوں گے بلکہ ذاتی نشانے اور مذہبی جنون کی بدولت ہی انتخابی تشہیر کو اشتعال انگیزی دی جائے گی اور اب جیسے جیسے پارلیمانی انتخابات کی تشہیر شباب پر جا ری ہے ویسے ویسے مذہبی جنون پروان چڑھ رہا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے ارد گرد انتخابی تشہیر کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوریت میں ایک سیاسی جماعت کا دوسری سیاسی جماعت کے خلاف بیان بازی جمہوریت کی صحت کیلئے اس وقت تک مضر نہیں ہے جب تک کہ اس سیاسی بیان کا مقصد آئینی تقاضوں کی دھجیاں اڑانا نہ ہو۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اب یہ مقابلہ شروع ہو چکا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت شخصی نشانوں کے ذریعہ آئینی ضابطہ شکنی میں آگے ہے۔ اس لئے اب کسی ایک خاص جماعت پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ہمارے جمہوری تقاضوں کی پاسداری نہیں کر رہی ہے۔ لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے حکمراں جماعت نے جس طرح مذہبی شدت پسندیت کو انتخابی تشہیر میں آلہ کے طورپر استعمال کیا ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے مضر ضرور ہے۔ اس ملک میں مسلمان دوسرے شہریوں کی طرح ہی با عزت زندگی جینا چاہتے ہیں اور اپنے آئینی حقوق کے مطابق ملک کے وسائل کا حصہ دار کا خواہش مند ہے لیکن جس طرح مسلمانوں کو علامتی طورپر نشانہ بنایا جا رہاہے اور تعداد ازدواج و تعداد اطفال کے حوالے سے اکثریت طبقے کے ذہن میں تعصبات وتحفظات پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ ملک کی سا لمیت کیلئے مضر ہے۔ واضح ہو کہ اب انتخابی تشہیر کے جلسوں میں مبینہ طورپر کانگریس پر یہ الزام عائد کیا جا رہاہے کہ وہ ملک کے وسائل کو ایسے لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے کہ ماضی میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی تعداد ازدواج اور تعداد اطفال کو لے کر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ وزیر اعظم نریند ر مودی اکثر یہ وکالت کرتے ہیں کہ وہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے اصول پر حکومت کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر مسلمانوں کو انتخابی تشہیر میں کیوں نشانہ بنایا جا رہاہے۔ 
ہمارے ملک میں انتخابی کمیشن کو انتخابی عمل کو پورا کرانے کے لئے جو آئینی اختیارات حاصل ہیں اگروہ واقعی اس پر عمل کرے تو انتخابی تشہیری جلسوں میں جس طرح کی اشتعال انگیزی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ خود بخود کم ہو جائے گی۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ انتخابی کمیشن کے ذریعہ حالیہ انتخابی مہم میں انتخابی اصول وضابطے کے معاملے میں بھی تعصباتی رویہ اپنایا جا رہاہے۔ جیسا کہ ادھو ٹھاکرے نے انتخابی کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے ذریعہ انتخابی ضابطہ شکنی پر خاموش رہتی ہے اور اپوزیشن کی سرزنش کرتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے تو انتخابی کمیشن کو چیلنج کیا ہے کہ پہلے وہ وزیر اعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف کارروائی کرے اس کے بعد ہی وہ اپنی پارٹی کے انتخابی گیت سے مذہبی الفاظ کو نکالنے پر غور کر سکتے ہیں۔ واضح ہو کہ ادھو ٹھاکرے نے اپنی پارٹی شیو سینا کیلئے جو انتخابی تشہیری گیت تیار کیا ہے اس میں ہندو مذہب اور ماں بھوانی کے لفظ کا استعمال کیا ہے جس پرالیکشن کمیشن نے ادھو ٹھاکرے کوہٹانےکا نوٹس بھیجاہے۔ لیکن ادھو ٹھاکرے نے الیکشن کمیشن کو جواب دیاہے کہ ہمارے وزیر اعظم مبینہ طورپر رام مندر کے موضوع پر بات کرتے ہیں اور دیگر لیڈران بھی انتخابی ریلی میں مزید مذہبی دیوی دیوتائوں کا نام لے کر اکثریت طبقے کو مخاطب کرتے ہیں یہ سراسر انتخابی ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے لیکن حکمراں جماعت کو الیکشن کمیشن کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے بڑی صاف گوئی سے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنا مدعا رکھا ہے کیونکہ انتخابی تشہیری جلسوں میں جس طرح مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک خاص طبقے کو علامتی طورپر نشانہ بنایا جا رہاہے وہ بلا شبہ انتخابی کمیشن کی نظر میں ہے لیکن اس کے خلاف اب تک کمیشن نے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایاہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں پر نکیل کسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
بہر کیف! اب دوسرے مرحلے کی پولنگ ہونی ہے اور انتخابی تشہیری جلسوں میں ہر سیاسی جماعت اپنے طورپر ووٹروں کو اپنی بات پہنچا رہے ہیں لیکن یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ اس انتخاب میں بھی کسی نہ کسی طورپر ملک کی مسلم اقلیت کے حوالے سے انتخابی تشہیری جلسوں میں نفرت انگیز باتیں کی جا رہی ہیں خواہ وہ علامتی طورپر ہی سہی لیکن ایک جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ تعصبانہ رویہ جمہوری فضا کیلئے مفید نہیں کہا جا سکتا۔ دراصل ہمارے ملک میں گزشتہ چار دہائیوں سے جس طرح کی سیاست پروان چڑ رہی ہے اس میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اب ہماری سیاست میں ’’ بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر‘‘یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدام اٹھانے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک خاص طبقے کے خلاف فضا مکدر کرنا ملک کی سا لمیت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیو سینا لیڈر ادھو ٹھاکرے کے جواب میں انتخابی کمیشن کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے اور جس سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ملک کی ایک بڑی مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔ کیونکہ ابھی چھ مرحلے کی پولنگ باقی ہے اور اگر انتخابی کمیشن کے ذریعہ کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ ملک میں نفرت انگیز چنگاری کا روپ اختیار کرے گی اور وہ ہماری جمہوریت کیلئے خسارہ ثابت ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK