Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں کیلئے اسلام کا نظام ِ معیشت جاننا اور سمجھنا ضروری ہے

Updated: February 02, 2024, 2:33 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اسلام کے نظام معیشت ہی نہیں، بلکہ پورے نظام حیات میں اس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہونا چاہئے، جو فطرت سے بغاوت پر مبنی ہو۔

There are basically three sources of livelihood, trade, employment and industry. Take any field but keep Islamic principles in mind. Photo: INN
معاش کے بنیادی طور پر تین ذرائع ہیں، تجارت ، ملازمت اور صنعت۔کوئی بھی شعبہ اختیار کریں لیکن اسلامی اصولوں کو ذہن میں رکھیں۔ تصویر : آئی این این

معیشت کے سلسلہ میں اگر اسلام کے بنیادی تصور کو واضح کیا جائے تو انہیں چند نکات میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
(الف) زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح معیشت کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات اعتدال پر مبنی ہیں۔ اسلام نے مال کو خیر (البقرۃ: ۲۱۵) اور فضل الٰہی ( الجمعہ: ۱۰) سے تعبیر کیا ہے، جس سے ظاہر ہے کہ مال کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے حاصل کرنا اسلام کی نظر میں کوئی مذموم بات نہیں ہے؛ بلکہ مباح اور بعض حالات میں واجب ہے۔ قرآن مجید میں ۳۲؍ مواقع پر تو اُسلوب و تعبیر کے قدرے فرق کے ساتھ صراحتاً ز کوٰۃ دینے کی تلقین کی گئی ہے اور صرف ایک آیت میں زکوٰۃ لینے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ قرآن چاہتا ہے کہ امت میں زکوٰۃ دینے والے مرفہ الحال افراد زیادہ ہوں اور زکوٰۃ لینے والے تنگ دست حضرات کم ہوں، اسی کو رسولؐ اللہ نے الید العلیا خیر من الید السفلیٰ (اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے) (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰة) سے تعبیر فرمایا ہے اور نماز کے بعد کسب حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی معاشی ترقی کے سلسلہ میں غور کرنا، اس کیلئے منصوبہ بندی کرنا اور اُمت کے پسماندہ لوگوں کو معاشی ترقی کے اعتبار سے اوپر اٹھانے کی کوشش کرنا مستحسن عمل اور اجتماعی فریضہ ہے۔ 
 ( ب ) معیشت کے سلسلہ میں اسلام کے بنیادی تصورات میں سے یہ بھی ہے کہ کسب و صرف یعنی مال کا حاصل کرنا اور اس کا خرچ کرنا اس طور پر ہو کہ وہ افراد اور سماج کے لئے نفع بخش ہو، نقصان دہ نہ ہو۔ اسی لئے قمار سے منع کیا گیا کہ اس کی وجہ سے کسی معقول سبب کے بغیر بہت سے لوگوں کی دولت ضائع ہو جاتی ہے اور انسان کے اندر بغیر محنت کے دوسروں کا مال ہڑپ لینے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کیا گیا جو لوگوں کے لئے نقصان دہ ہو، جیسے منشیات۔ تجارت میں احتکار سے منع کیا گیا؛ کیوں کہ ذخیرہ اندوزی کا عمل ایک شخص کو فائدہ پہنچاتا ہے اور پورے سماج کو نقصان۔ اسی طرح خرچ کرنے میں بھی فرد اور سماج کے نفع و نقصان کو ملحوظ رکھا گیا، فضول خرچی کی ممانعت کی گئی، کیونکہ اس سے قومیں معاشی پسماندگی میں مبتلا ہوتی ہیں اور تعلیم، صحت اور دوسرے مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتیں۔ 
  (ج) اسلام میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور گردش میں رہے:
 ’’جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ ‘‘ (الحشر:۷)  چنانچہ قدرتی وسائل اگر شخصی زمین میں بھی دریافت ہوں تو ان کا معتد بہ حصہ بیت المال کا حق قرار دیا گیا؛ تاکہ تمام لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح میراث کا مکمل نظام مقرر ہوا، زکوٰة و عشر کو واجب قرار دیا گیا، وغیرہ۔ غرض کہ شریعت میں یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ سماج میں دولت اور اس کے وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جائیں۔ 
 (۳) اسلام میں نفع کا فطری تصور ہے؛ اس لئے سود کو حرام قرار دیا گیا، سود ایک غیر فطری چیز ہے؛ کیوں کہ خود پیسوں سے پیسے پیدا نہیں ہو سکتے اور سود خور یہ فرض کر کے نفع وصول کرتا ہے کہ اس کے پیسوں سے لا محالہ پیسوں میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح اسلام میں انسانی محنت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے؛ کیوں کہ فطری اصول یہ ہے کہ جب تک مال کے ساتھ انسانی محنت کی شمولیت نہ ہو، وہ نفع آور نہیں ہوتا، اسی اصول پر اسلام میں استثمار کے طریقوں میں مضاربت اور مزارعت شامل ہے۔ 
  مضاربت میں ایک شخص کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے کی محنت اور مزارعت میں ایک شخص کی زمین ہوتی ہے اور دوسرے کی محنت، دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ فریقین کی رضا مندی ہو اور یہ کہ محنت کار کے نفع کا تناسب زیادہ رکھا جائے۔ 
 اسلام کے نظام معیشت ہی نہیں، بلکہ پورے نظام حیات میں اس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہونا چاہئے، جو فطرت سے بغاوت پر مبنی ہو اس لئے تلقی جلب، بیع حاضر للبادی، تناجش اور احتکار وغیرہ کو منع کیا گیا؛ کیوں کہ ان تمام صورتوں میں قیمتوں میں غیر فطری اُتار چڑھاؤ پیدا کیا جاتا ہے۔ آج کل تشہیری (ایڈورٹائزنگ) کے وسائل کا استعمال کرکے مصنوعی طور پر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے، یہ بھی اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے۔ رسولؐ اللہ نے تجارت میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے اور کسی چیز کے فائدہ کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے نقصانات کے پہلو پر پردہ ڈالنا بھی جھوٹ میں داخل ہے، جس کا زبردست مظاہرہ موجودہ دور میں اشتہارات کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے۔ 
اس عہد میں اسلام کے مقابلے میں دو بڑے معاشی نظام وجود میں آئے، ایک : اشترکیت جس نے ستر سالہ تجربہ کے بعد اپنی جائے پیدائش ہی میں دم توڑ دیا اور جہاں اب بھی باقی ہے وہاں بھی اس نے اپنے بعض بنیادی تصورات سے سبکدوشی قبول کر لی ہے۔ اشتراکیت کی بنیاد دو نظریات پر تھی: معاشی مساوات اور اجتماعی ملکیت، اور یہ دونوں ہی باتیں قانون فطرت کے خلاف ہیں، خدا نے انسان کے اندر صلاحیتوں کا فرق رکھا ہے اور معاشی ترقی میں انسان کی صلاحیت اور لیاقت کا بڑا دخل ہے، اس کے باوجود ان سب کے درمیان معاشی مساوات ایک خواب تو ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح افراد کے اندر اپنی املاک میں محنت کرنے اور اسے ترقی دینے کا فطری جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایسی چیز جو تنہا اس کی ملکیت نہ ہو؛ بلکہ سماج کی ملکیت ہو، اس میں محنت کا جذبہ اس درجہ نہیں پایا جاتا لیکن اشتراکیت کے نمائندوں نے اجتماعی ملکیت کا تصور دیا اور انفرادی ملکیت کا انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں محنت کرنے کا فطری جذبہ مفقود ہوتا گیا اور معاشرتی ترقی رک گئی۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ بنیادی ضرورتیں سبھوں کو مہیا ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ معاشی معیار بھی سب کا ایک ہی ہو، اسی طرح اسلام انفرادی ملکیت کا قائل ہے ؛ لیکن افراد پر اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے مال میں سماج کا حق محسوس کریں، نیز شریعت اسلامی میں زیادہ تر قدرتی وسائل کو حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا ہے؛ تا کہ اس کا نفع زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ 
 اسلامی معیشت کے مقابلے میں اشتراکیت کے علاوہ دوسرا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ وہ بھی اس وقت موت وزیست کی کیفیت میں ہے؛ کیونکہ اس نظام میں افراد کو ایسا بے لگام بنا دیا ہے کہ ان کیلئے کوئی اخلاقی سرحد نہیں ہے، سرمایہ داری کی سب سے بڑی خرابی سود اور قمار کی اجازت ہے کیونکہ یہ نفع حاصل کرنے کے غیر فطری طریقےہیں۔ اس میں مال کو مبالغہ آمیز اہمیت دی جاتی ہے اور مزدوروں کی محنت کو کوئی خاص درجہ نہیں دیا جاتا۔ یہ نظام ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتا ہے؛ حالاں کہ یہ سماج کے غریب لوگوں کے ساتھ ظلم ہے۔ اس میں مصنوعی طور پر صارفیت کو بڑھایا جاتا ہے اور اشتہارات اور بے جا تر غیبات کے ذریعہ سماج کا مزاج بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضروریات پر قانع نہ رکھے؛ بلکہ خواہشات کا غلام بن جائے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خرچ کرے تا کہ سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچے، چاہے غریب لوگ قرض اور فضول خرچی کے بوجھ سے دب کر مرہی کیوں نہ جائیں۔ ان حالات میں خاص طور پر ضرورت ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو اس کی معقولیت اور منطقیت کے ساتھ دُنیا کے سامنے رکھا جائے اور واضح کیا جائے کہ انسانیت کی حقیقی فلاح و بہبود اور معاشی اعتبار سے عدل کا قائم کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں۔ 
 معاش کے بنیادی طور پر تین ذرائع ہیں، تجارت، ملازمت اور صنعت۔ ملک میں مسلمانوں کی معاشی ترقی کیلئے اسلامی مالیاتی اداروں کے قیام کی کوشش کی جائے، تعلیمی اوسط کو بڑھایا جائے، مسلم تاجروں اور صنعت کاروں اور کاشتکاروں کیلئے بھی رہنما اداروں کی ضرورت ہے تاکہ ان کی تجارت مفید ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو تجارت کی طرف راغب کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK