اِس وقت کم و بیش ہر کھیل میں سیاسی دخل اندازی ہے اور اس حد تک ہے کہ کھیل کو کھیل کی طرح نہیں بلکہ سیاسی ہار جیت کی طرح دیکھا جانےلگا ہے۔
EPAPER
Updated: November 26, 2023, 2:58 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اِس وقت کم و بیش ہر کھیل میں سیاسی دخل اندازی ہے اور اس حد تک ہے کہ کھیل کو کھیل کی طرح نہیں بلکہ سیاسی ہار جیت کی طرح دیکھا جانےلگا ہے۔
اس وقت عوامی زندگی کا تقریباً ہر شعبہ سیاست کے دام میں گرفتار ہو گیا ہے۔سیاست کی یہ دخل اندازی ان شعبوں کے اعتبار اور وقار کو متاثر کر رہی ہے ۔ اس کے سبب زندگی کے مختلف شعبوں سے عوام کی وابستگی کی نوعیت میں بھی تبدیلی آر ہی ہے اور یہ تبدیلی مقتدر طبقہ کیلئے مفید اور عوام کیلئے بیشتر نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود عوام کو یہ محسوس نہیں ہورہا ہے کہ سیاست کا غلبہ ان کی ذات اور سماج کے رویے کوجس طرز میں ڈھال رہا ہے اس سے زندگی ایسے پیچیدہ مسائل کا شکار ہو سکتی ہے (ہو رہی ہے) جس سے نجات حاصل کرنے ہی میں ان کی پوری عمر، توانائی اور وسائل صرف ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر زندگی کا یہ طور ہو جائے تو کامیابی اور خوشحالی کے راستے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور تمام عمر ان غیر ضروری مسائل سے نبرد آزما رہنے ہی میں بسر ہوجاتی ہے جو اس نام نہاد سیاست نے ان پر مسلط کر دئیے ہیں جس کامقصد صرف اور صرف اپنا مفاد یقینی بنانا ہے۔ ملک کا سیاسی منظرنامہ اپنی تبدیلی کے ساتھ جن افکار و خیالات اور طرز حیات کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے اس میں ان اقدار کی گنجائش محال ہے جن قدروں کی بنیاد پر اس ملک کو ایک بڑے سیکولر جمہوری ملک کی شناخت حاصل ہوئی ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں پر سیاست کے غلبہ کے جو نتائج اب تک ظاہر ہوئے ہیں ان کے سبب تعلیم، طب، عدلیہ، پولیس اور دیگر اہم شعبوں کا معیار اور وقار واضح طور پر متاثر ہوا ہے۔ پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر اگر ملک گیر سطح پر عوامی امور سے وابستہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس تلخ حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ عصبیت کے مختلف روپ بیشتر ان اداروں کو اپنے حصار میں مقید کر چکے ہیں ۔یہی صورتحال موجودہ وقت میں کھیلوں میں بھی نظر آتی ہے ۔ ارباب اقتدار نے نام نہاد وطنیت کے جس تصور کو عوام میں بڑی حد تک مقبول بنا دیا ہے وہ اس وسیع النظری سے ماورا ہے جو کھیل میں شکست و فتح کے معیار اور شفافیت کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے ناگزیر ہے۔اقتدار نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حکومت کو وطن کے متبادل کے طور پر مشتہر کر کے اپنے ہر رویے اور عمل کا جواز تلاش کر لیا ہے اور عوام کو بھی اس کا قائل بنائے کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ سماج کے وہ افراد جو وطن اور حکومت کے مابین فرق کو جاننے اور سمجھنے سے قاصر ہیں وہ بڑی آسانی سے اس سیاسی دام میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور اس کا مظاہرہ مختلف صورتوں میں ان کی جانب سے ہوتا ہے۔
اس سیاسی مفروضے میں الجھ جانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے رویے سے سماج اور ملک کو کن مسائل اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا بالکل تازہ اظہار احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کرکٹ شائقین کے ذریعہ ہوا۔ ورلڈ کپ فائنل دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم میں جمع ہونیوالے ناظرین کی اکثریت اس جذبے سے بالکل بیگانہ تھی جس میں خوش دلی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خوش دلی کا جذبہ ہی ہوتا ہے جو اپنے ملک کی ٹیم کی فتح کیلئے پُر امید رہنے کی تحریک عطا کرتا ہے اور ساتھ ہی مخالف ٹیم کی بہترین کارکردگی پر اس کی تعریف کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے لیکن اس میچ میں سارا معاملہ یکطرفہ ہی رہا۔ یہ صورتحال میدان کے اندر اور میدان کے باہر دونوں جگہ دیکھی گئی ۔ میدان کے اندر کے معاملات پر کرکٹ ماہرین کے متعدد تبصرے آچکے ہیں لہٰذا اپنے ملک اورسماج سے محبت کرنے والے بیدار مغز شہری کی حیثیت سے میدان کے باہر کے ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جن کے سبب عالمی سطح پر نام نہاد قوم پرستی کی جکڑ بندی میں اسیر کھیل شائقین اور سیاستدانوں پر تنقید ہو رہی ہے۔
میچ کی پہلی پاری میں ہندوستانی بلے بازوں کی سست رفتار اور اُکتا دینے والی بیٹنگ کے دوران جب کبھی کوئی اچھا شاٹ لگتا تھا تو پورا اسٹیڈیم شور سے گونج اٹھتا تھالیکن جب آسٹریلیائی بلے بازوں نے اپنی بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تو اسٹیڈیم میں مکمل سکوت طاری ہوگیا۔ اس رد عمل کو کسی حد تک فطری رد عمل کہہ سکتے ہیں لیکن ہندوستان کی بیٹنگ کے دوران اسٹیڈیم میں جو شور گونجتا تھا اس میں بہت سی آوازیں اس طرز کی بھی ہوتی تھیں جن کا کرکٹ کے کھیل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان آوازوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ناظرین کے ہجوم میں سبھی کرکٹ شائقین نہیں ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی تعداد بھی خاصی ہے جو اس میچ کو کھیل کی نظر سے دیکھنے کے بجائے کسی اور نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اپنی ٹیم کی اچھی کارکردگی پر جوش اور ولولہ کا اظہار اس طور سے نہیں ہونا چاہئے جو مد مقابل ٹیم کے حامیوں کی دل آزاری کا سبب بن جائے۔ اس میچ میں جس طرح نام نہاد قوم پرست کھیل شائقین نے آسٹریلیائی ٹیم کے حامیوں کے ساتھ غیر شائستہ حرکت کی اس سے کھیل اور ملک دونوں کی امیج متاثر ہوئی ہے۔
کرکٹ پر سیاسی غلبہ کی دوسری نمایاں مثال بی سی سی آئی کے ارباب حل و عقد کا وہ رویہ رہا جس سے پوری طرح یہ عیاں ہو گیا کہ کرکٹ بورڈ اب پوری طرح آمرانہ مزاج کے حامل ارباب اقتدار کی گرفت میں آ چکا ہے۔اس بورڈ میں فیصلہ کن عہدوں پر بھی ایسے لوگ قابض ہو گئے ہیں جو کرکٹ کے نام پر کھیل شائقین کے مزاج کو اپنی سیاست کے دام میں اسیر بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ملک کیلئے پہلا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کپل دیو اور ان کی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو میچ میں مدعو نہ کرنے کا جو سبب رہا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ کرکٹ بورڈ کے اس سطحی عمل سے بعض سیاستدانوں کے رعونت آمیز جذبہ کی تسکین بھلے ہی ہو گئی ہو لیکن عالمی سطح پر بورڈ کی کارکردگی تنقید کا ہدف بنی۔ اس کے علاوہ کھیل شائقین سے ٹکٹ کے نام پر زیادہ رقم وصول کرنے کا جو التزام کیا گیا وہ بھی بورڈ کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ان سب کے علاوہ ورلڈ کپ کے میچوں کے انعقاد کیلئے اسٹیڈیم کے انتخاب کا جو خاکہ ترتیب دیاگیا اس پر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں کہ اس کا مقصد فقط بعض قد آور سیاسی نیتاؤں کو خوش کرنا تھا۔
کھیل اورفلم جیسے عوامی مقبولیت کے حامل شعبوں پر سیاست کا یہ غلبہ ان کے معیار اور اعتبار کو متاثر کررہا ہے۔ ان شعبوں میں ارباب اقتدار نے اپنی جی حضوری کرنے والا ایک ایسا طبقہ تیار کر لیا ہے جو اُن کی ہر بات پر صاد کرتا ہے خواہ اس سے شعبے کی امیج مجروح ہو یا اس میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو ، اس سے انھیں کوئی غرض نہیں ہے۔یہ طبقہ اقتدار پرست میڈیا کی مدد سے اپنے سیاسی آقاؤں کی دلجوئی کیلئے جو حربے استعمال کرتا ہے، اس سے ان شعبوں سے عوامی وابستگی میں نفرت اور جارحیت کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ان شعبوں کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے عوام کے مزاج اور رویے کا اظہار جس انداز میں ہورہا ہے اس سے امن و آشتی کے ماحول کا متاثر ہونا فطری ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ جو شعبے عوام کے درمیان امن و اتحاد کے رجحان کو تقویت دینے کا وسیلہ تھے اب انہی کے ذریعہ عوام کے درمیان نفرت و تشدد کو عام کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک کھیلوں پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے تو یہ صرف کرکٹ تک ہی محدود نہیں ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے مختلف کھیلوں کے لیے تشکیل دئیے گئے اداروں اور بورڈوں پر اس کے اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کشتی کھلاڑیوں اور کشتی فیڈریشن کے صدر برج بھوشن سنگھ کا قضیہ جس سطح پر پہنچ گیا تھا اس کا سبب بھی یہی سیاسی غلبہ تھا جو کھیلوں اور کھلاڑیوں کو اپنی مرضی کا تابع بنائے رکھنا چاہتا ہے۔اپنے کھیل سے عالمی سطح پر ملک کی ناموری اور شہرت کا پرچم لہرانے والے کشتی کھلاڑیوں کے مطالبات کو نام نہاد قوم پرستی کی سیاست کی لہر میں جس طرح درکنار کر دیا گیااس سے انصاف کے عمل اور جمہوریت میں عوام کے حقوق کا تصور دھندلا ضرور ہوا ہے۔ اس وقت کم و بیش ہر کھیل میں سیاسی دخل اندازی سے نہ صرف یہ کہ کھلاڑیوں کی صلاحیت اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات عصبیت اس طور سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ با صلاحیت کھلاڑیوں کو درکنار کر انھیں موقع دے دیا جاتا ہے جو اقتدار کی خوشنودی میں ماہر ہوتے ہیں۔ کرکٹ سمیت دیگر تمام کھیلوں کو اس سیاسی غلبہ سے محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کھیل کو صرف کھیل کے جذبے سے کھیلا جائے نہ یہ کہ کھیل کے میدان کو سیاسی اکھاڑہ بنادیاجائے۔