Inquilab Logo

بات ایک شاعر کی

Updated: March 14, 2022, 1:16 PM IST | Shakeel Ajaz | Akola

برسوں پرانی بات ہے، بلڈانہ ضلع (مہاراشٹر) کے ایک چھوٹے سے قصبے کے پرائمری اسکول میں کسی بچے کا انتقال ہوگیا۔ تعزیتی میٹنگ میں اساتذہ نے تقریریں کیں پھر سامنے بیٹھے ہوئے بچے سے کہا گیا کہ وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرف سے چند تعزیتی جملے کہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

برسوں پرانی بات ہے، بلڈانہ ضلع (مہاراشٹر) کے ایک چھوٹے سے قصبے کے پرائمری اسکول میں کسی بچے کا انتقال ہوگیا۔ تعزیتی میٹنگ میں اساتذہ نے تقریریں کیں پھر سامنے بیٹھے ہوئے بچے سے کہا گیا کہ وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرف سے چند تعزیتی جملے کہے۔ بچے کو تقریر کا کوئی تجربہ نہ تھا اور کس وقت کیا کہا جائے اس کا’سینس‘بھی نہیں تھا۔ البتہ اتنا ضرور تھا کہ اتنی کم عمری ہی میں اردو کی کتابیں پڑھتے رہنے سے بہت سے مشکل الفاظ کو پہچانتا تھا۔ چنانچہ اُس نے جو تقریر کی وہ یہ تھی  :  ’’ساتھیو! آج ہمارا ایک پیارا دوست ہم سے بچھڑ گیا۔ اس کی صورت ہماری آنکھوں میں گھوم رہی ہے۔ ہماری صورت بھی اُس کی آنکھوں میں گھوم رہی ہوگی۔ اس کی کیا تعریف کروں۔ وہ بہت ہی رقیق القلب، مرنجان مرنج اور خبط الحواس تھا۔ اُس میں اخوت، لاابالی پن اور نہ جانے کیا کیا کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ مختصر یہ کہ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں بلاسوچے سمجھے کہا جاسکتا ہے کہ گرقبول افتدز ہے عزوشرف۔ اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کو صبر جمیل عطا کرے اور اُس کے رشتے داروں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔‘‘پہلی تقریر سے طالبان علم اور اساتذہ پر قابلیت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اس سے حوصلہ ملا تو اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ مشکل سے مشکل الفاظ یادرہنے لگے۔ تھوڑا تھوڑا مطلب بھی سمجھنے لگا۔ ایک دن اُس کے لفظی خزانے میں ایک نیا لفظ آکر اوندھے منہ گرا، ’’قیلولہ‘‘ ۔وہ اپنی سیدھی سادی ماں کے پاس گیا اور بولا ’’ مجھے جلدی سے پانچ روپے دے دو نہیں تو میں قیلولہ کرنے چلا جائوں گا۔‘‘ ماں کو قیلولہ کے معنی معلوم نہ تھے سن کر پریشان ہوگئیں، بولیں’’بیٹا تجھے میری جان کی قسم مجھے چھوڑ کر قیلولہ کرنے نہ جا۔‘‘ لڑکا بولا اس گھر میں میری کوئی عزت نہیں رہی۔ میری بات کی قیمت نہیں رہی۔ آج تو اس گھر میں قیلولہ ہوکر ہی رہے گا۔ آخر پڑوس کے پڑھے لکھے لوگ سمجھانے آئے کہ بیٹا اچھے بچے قیلولہ نہیں کرتے۔ گھر میں آرام کرتے ہیں۔ تب معاملہ رفع دفع ہوا۔   بچہ محنت مزدوری اور پڑھائی کرتا رہا۔ ساتویں جماعت میں پہنچ کر تھوڑی بہت شاعری شروع کی۔ ایک دفعہ وہاں مشاعرہ منعقد ہوا تو یہ زندہ طلسمات کے تخلص کے ساتھ شریک ہوا۔ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ مشاعرے میں زندہ طلسمات بھی ہے تو بہت سارے مریض چلے آئے۔ مشاعرہ اور شاعر دونوں کامیاب ہوگئے۔ دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اپنے تخلص بدل ڈالے اور امرت انجن، عرق پودینہ، گم پلاس وغیرہ اختیار  کرلئے۔ یہ لوگ کسی مشاعرے میں جمع ہوتے تو ایسا لگتا کہ یہ شاعروں کا جمگھٹ نہیں کوئی میڈیکل اسٹور ہے۔ پھر جب شاعروں کے اصل نام لوگوں کے ذہنوں سے مٹ گئے تو اس طرح کی باتیں بھی سننے کو ملیں  : ’’یار آج امرت انجن نظر نہیں آتا؟‘‘بیٹھا ہوگا کسی کے پاس، اس کے سر میں درد کرتے ہوئے۔‘‘ دیکھا تم نے ؟ کل میں نے غزل پڑھی تو اس نے ایک بھی شعر پر داد نہ دی۔ اب آنے دو اس ’اسپرو‘ کے بچے کو، کوٹ کوٹ کر پائوڈر نہ بناڈالا تو میرا نام بھی سیریڈون نہیں۔  مڈل پاس کرنے کے بعد یہ نوجوان بالاپور کے ٹیچرس ٹریننگ کالج میں داخل ہوا اور وہیں اپنے ایک استاد مصطفےٰ خاں صاحب کے ورغلانے میں آکر زندگی کی پہلی غزل کہی۔ بعد ازاں اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور پہلی غزل اُردو ٹائمز (بمبئی) میں شائع ہوئی۔ بعد میں یہ نوجوان محبوب راہیؔ کے نام سے نہ صرف اپنے ضلع اور صوبے بلکہ پورے ملک میں مشہور ہوا۔ اس دوران شادی ہوئی۔ لاکھن واڑہ میں مسلسل پندرہ برس سروس کرنے کے دوران ان کو اتنی آسودگی اور فرصت میسر رہی کہ شاعری سنورتی رہی اور شہرت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ لاکھن واڑہ کے بعد یہ بارسی ٹاکلی چلے آئے۔ اگر وہاں کے پندرہ برس شاعری کرنے میں گزرے تھے تو یہاں کے ابتدائی برس کتابیں چھپوانے میں بیتے۔ یہیں سے ان کی پہلی کتاب ’’ ثبات‘‘ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی پھر ’’تردید‘‘ دہلی سے اور ’’بازیافت‘‘ بھی دہلی ہی سے شائع ہوئی۔ بچوں کی نظموں کی کتاب ’’رنگارنگ‘‘ کے دو ایڈیشن بھی بارسی ٹاکلی سے شائع ہوئے۔ یہیں رہتے ہوئے کھنڈوہ کے احباب قاضی حسن رضاؔ اور حبیب عالم کے توسط سے ڈاکٹر مظفر حنفی سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات دوستی میں بدلی اور دوستی اس وقت وقتی دشمنی میں بدل گئی جب انھوں نے مظفر حنفی پر پی ایچ ڈی کے لئے ناگپور یونیورسٹی سے رجسٹریشن کروایا۔   لوگ محبوب راہیؔ کی زودگوئی کا رونا روتے ہیں لیکن خوب گوئی سے نظریں چُراتے ہیں۔ محبوب راہی نے غزل، رباعی، ہزل، وطنی، سماجی نظمیں اور موسمی نظموں کے علاوہ تنقیدی، تحقیقی مضامین اور تبصرے بھی تحریر کیے ہیں۔ مشہور ہے کہ ہندوستان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا اخبار یا رسالہ ایسا نہیں جس میں ان کی تخلیقات نہ چھپی ہوں لیکن اس شہرت کے باوجود ان کے مزاج میں سادگی بہت ہے۔لوگ، شاعری کے لئے سکون کی تلاش میں رہتے ہیں۔ راہیؔ صاحب گھر کے ہنگاموں اور بیوی بچوں کی آوازوں کے بغیر شاعری نہیں کرسکتے۔ ریسرچ کے دوران ان کے لئے علاحدہ کمرے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ مگر وہ وہاں چھ صفحے بھی نہ لکھ سکے۔ واپس سب کے درمیان آگئے۔ یہیں انھوں نے چھ سو صفحات کا وہ مقالہ لکھا جس پر ممتحن حضرات نے تعریفی ریمارک دیئے۔   گھر سے باہر راہیؔ صاحب ایک ٹھنڈے مزاج کے آدمی مشہور ہیں لیکن گھر میں یہ عالم ہے کہ یہ خود تو درکنار ان کے لکھے ہوئے کاغذ کے پرزوں سے بھی بچے ڈرتے اور ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے کاغذ نہیں ایٹم بم رکھا ہے۔ کوئی کاغذ اِدھر اُدھر پڑا دکھائی دے تو احتیاط سے اُٹھا کر ٹیبل پر لگادیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ انھوں نے ٹیبل صاف کرکے ردی کے کاغذات نکالے اور چولہے کے پاس رکھ دیئے۔ کسی نے دیکھا، گھبرایا اور چپکے سے دوبارہ ٹیبل پر لگادیئے۔ انھوں نے پھر چولہے کے پاس رکھے وہ پھر ٹیبل پر آگئے۔ جھنجھلاکر انھوں نے سارے کاغذات اپنے ہاتھ سے جلادیئے۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ غزلوں کے تین کاغذات غائب ہیں۔ ایک چھوٹی ڈائری لاپتہ ہے اور عورتوں کے موضوعات پر لکھا گیا پورا مسودہ، آدھا جل کر چولہے کے باہر پڑا ہے۔   ان کی ایک خالی دکان سڑک کے کنارے دس برس سے بیکار پڑی تھی، اُسے جھاڑ جھٹکار کر صاف کیا۔ پھر کچھ سوچ کر یہ بورڈ آویزاں کردیا کہ ’’ یہ دکان ہے‘‘ لوگ جھانک جھانک کر جانے لگے کہ آخر کاہے کی دکان ہے۔ تنگ آکر کتابوں کی دکان لگالی۔ شروع میں صبح سات سے رات نو بجے تک بیٹھتے۔ لیکن تشبیہوں اور استعاروں کے سہارے جینے والا شاعر، دکانداری کی حقیقتوں میں کیوں کر جی لگاسکتا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے اوقات میں کمی کرنی شروع کردی۔ دس بجے کھولتے اور پانچ بجے بند کردیتے۔ پھر دوپہر میں ایک سے چار تک لنچ ٹائم کی سہولت نکال لی۔ بعد میں یہ نوبت آئی کہ چار بجے کھولتے اور پانچ بجے بند کردیتے۔ پھر سننے میں آیا کہ گاہکوںکے خوف سے صرف پانچ منٹ کے لئے دکان کھولتے ہیں۔ اس دوران بھی کوئی چلا آئے تو اُسے کہتے ہیں کہ دیکھتے نہیں میں دکان بندکررہا ہوں۔ اور دیکھتے دیکھتے دکان بند کرکے بیڑی کا دھواں گاہک کے منہ پر چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ بیڑی کے علاوہ خاص موقعوں پر سگریٹ بھی پیتے ہیں۔ کسی منسٹر سے ملنا ہوتو منہ میں سگریٹ۔ وہاں سے نکل کر پھلاری گلی میں آئے اور کسی شاعر سے ملاقات ہوگئی تو منہ میں بیڑی۔ ہم تو اپنی اوقات کا اندازہ اُن کے منہ میں بیڑی یا سگریٹ دیکھ کر لگاتے ہیں۔ ایک دن انھیں غزل کی اشاعت پر مبارکباد دی۔ان کے اچھے شعر زبانی سُنا دیئے۔ اُنھوں نے سگریٹ پینی شروع کردی۔ ہم سمجھ گئے کہ آج خوش ہیں اور شام کو اگر ہم کہیں کہ آج کے اخبار میں آپ کی جو غزل شائع ہوئی اس کا تیسرا شعر وزن اور سمجھ سے باہر ہے تو فوراً بیڑی پر اُتر آتے ہیں۔  جن دنوں اُن پر شاعری کا موڈ سوار رہتا ہے، یہ اکثر غائب دماغ رہتے ہیں۔ ایک بار ابلیس اور بلقیس میں گڑ بڑ کردی۔ غزل سوچتے بیٹھے تھے کسی نے بچے کی شکایت کی کہ اس کو سمجھائو۔ بولے میں ایسے بلقیسوں سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ اس گھر میں سارےبلقیس کی اولاد جمع ہوگئے ہیں۔ ان کی پھوپی زاد بہن جن کا نام بلقیس ہے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ آئیں تو ایک بچے کو دیکھ کر بولے۔ ارے ! یہ ابلیس کا بچہ اتنا بڑا ہوگیا۔ بچے کے والد شرمندہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔  بعض شعراء گھر کے جھگڑوں سے تنگ آکر فرقہ وارانہ فساد پر ایک آدھ نظم لکھ لیتے ہیں تو فساد ہونے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ موسمی نظم فوراً شائع ہوسکے۔ ان کی ایک نظم کی اشاعت کے لئے کتنوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں انھیں احساس بھی نہ ہوتا ہوگا۔ ممکن ہے ایسے شاعروں کو فساد میں مرنے والوں کا اتنا افسوس نہ ہوتا ہو، جتنی خوشی نظم کے چھپنے کی ہوتی ہے۔ راہیؔ صاحب کو ہم نے کوئی فسادی نظم لکھتے تو نہیں دیکھا۔ البتہ موسمی نظموں کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔ کڑاکے کی سردی میں ان کے گھر گئے۔ دیکھا رضائی میں دبکے گرم چائے اور سگریٹ پی رہے ہیں۔ کٹکٹاتے دانتوں اور کپکپاتے ہاتھوں سے سردی  کے بجائے گرمی کے خلاف نظم لکھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ اب گرمی کا موسم آنے والا ہے۔ اشاعت کے لئے دہلی بھیجنا ہے۔ گرمی کے دنوں میں تو گرمی کے خلاف نظم کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ سردیوں کے دوران گرمی کی مخالفت میں نظم لکھی جائے اور وہ بھی ایسی کہ جو بھی پڑھ لے، پسینہ پسینہ ہوجائے۔  بیشتر شاعروں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ جس نشست میں شرکت کریں گے اس کے بارے میں کہیں گے کہ عمائدین شہر جمع تھے۔ برسوں بعد ایسی کامیاب نشست ہوئی  اور جس میں دعوت نہ دی گئی ہو اس سے متعلق فرمائیں گے کہ میں تو گیا نہیں لیکن سُنا ہے، بہت خرافات ہوئی۔ سب لوفروں کا مجمع رہا ہوگا۔ لیکن راہیؔ صاحب ایسے نہیں۔ وہ تو جس نشست میں شرکت کرتے ہیں اُسی کے بارے میں کہتے ہیں کہ سب لوفروں کا مجمع تھا  ایک بھی آدمی ڈھنگ کا نہیں تھا۔ یہ آخری نشست تھی اب کبھی نہیں جائوں گا۔ ایسی کئی آخری نشستیں وہ اب تک پڑھ چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK