Inquilab Logo

جیسنڈا کے استعفےٰ کو سمجھنا مشکل ہے

Updated: January 28, 2023, 9:31 AM IST | Mumbai

اپنے عہدہ سے استعفےٰ دے کر پوری دُنیا کو حیرت میں ڈالنےوالی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن عمر کی ۴۲؍ ویں بہار دیکھ رہی ہیں۔ عالمی سیاست کے ایسے دور میں جب لیڈران عمر نہیں دیکھتے، عہدے اور اقتدار یا ان میں توسیع پر نگاہ مرکوز رکھتے ہیں، جیسنڈا نے مثال قائم کی ہے۔

New Zealand Prime Minister Jacinda Ardern
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن

اپنے عہدہ سے استعفےٰ دے کر پوری دُنیا کو حیرت میں ڈالنےوالی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن عمر کی ۴۲؍ ویں بہار دیکھ رہی ہیں۔ عالمی سیاست کے ایسے دور میں جب لیڈران عمر نہیں دیکھتے، عہدے اور اقتدار یا ان میں توسیع پر نگاہ مرکوز رکھتے ہیں، جیسنڈا نے مثال قائم کی ہے۔ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو دُنیا کے معمر لیڈروں کی طرف دیکھتا اور سوچتا کہ ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔ مگر جیسنڈا نے پورے اعتماد کے ساتھ مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب اُن کا ملک نیوزی لینڈ نہ تو کسی سیاسی یا اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے نہ ہی جیسنڈا کی کارکردگی پر سوال اُٹھایا گیا ہے۔ نہ تو اُن پر کوئی الزام ہے نہ ہی اُن کی صحت کا کوئی مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود اُنہوں نے محسوس کیا کہ وہ جتنا کچھ کرسکتی تھیں، کرچکیں، اب مزید کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ اُن کے جملے ’’نتھنگ لیفٹ اِن دی ٹینک‘‘ کا جو مفہوم ہم نے اخذ کیا وہ وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ میرے پاس مزید کچھ کرنے کیلئے نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا مفہوم کچھ اور ہو۔ مثلاً اب مجھ میں اتنی تاب نہیں کہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھال سکوں۔ دونوں ہی صورتوں میں اُن کا فیصلہ دُنیا کے بہت سے لیڈروں کیلئے سبق ہے بالخصوص اُن کیلئے جو کچھ کرتے ہیں نہ ہٹتے ہیں۔
 یہ فیصلہ جیسنڈا آرڈرن کی دُہری ذمہ داریوں (خانگی اور سیاسی) کا نتیجہ ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔ دُہری ذمہ داری اُنہوں نے اُس وقت بھی نبھائی تھی جب ایک ماں گھر سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ جیسنڈا اپنے نوزائیدہ کو لے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے پہنچی تھیں۔ اُن کی اس بہادری نے پوری دُنیا کو چونکایا تھا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی خاتون لیڈر اپنے نوزائیدہ کو لے کر کسی اجلاس میں پہنچی ہو۔ اس واقعہ کو چار سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ چار سال پہلے جب بچہ بہت چھوٹا تھا، جیسنڈا تب پیچھے نہیں ہٹیں تو اب کیا ہے؟ یقیناً معاملہ دُہری ذمہ داری کا نہیں ہے۔ 
 مسئلہ حالات کے جبر کا بھی نہیں ہے۔ حالات کا جبر تو تب تھا جب ۲۰۱۹ء میں اُن کے ملک کی دو مساجد میں مصلیان پر اندھادھند فائرنگ کے اندوہناک واقعات پیش آئے تھے۔ دُنیا گواہ ہے کہ ایسے تشویشناک حالات میں جیسنڈا نے  نادر المثال حکمت اور تدبر سے کام لیا اور کسی کی پروا کئے بغیر مظلومین کے ساتھ کھڑی ہوئی تھیں۔ یہ اُن کی زبردست آزمائش کا وقت تھا، آزمائش بحیثیت انسان بھی اور آزمائش بحیثیت منتظم اعلیٰ بھی۔ مگر وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئیں۔ اُنہوں نے حالات کا مقابلہ ہی نہیں کیا، حالات کو بہتر بناتے ہوئے جلد سے جلد معمول پر لانے کی غیر معمولی کوشش کی۔ یہ بہادری کا دوسرا نقش تھا۔
 جیسنڈا کی بہادری کا تیسرا نقش تب قائم ہوا جب پوری دُنیا کورونا کی وباء سے نبردآزما تھی۔ بحیثیت وزیر اعظم جیسنڈا نے کورونا سے اپنے عوام کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ وہ روزانہ عوام کے رابطے میں رہتیں، اُن سے خطاب کرتیں اور پریس کانفرنسیں منعقد کرتیں۔ اُن کی چوطرفہ ستائش کی گئی یہاں تک کہ واشنگٹن پوسٹ نے اُن کی سرگرمیوں کو ’’ماسٹر کلاس اِن کرائسس کمیونی کیشن‘‘ قرار دیا تھا۔ بہرکیف، ایک بات صاف ہے کہ جیسنڈا کے استعفے کی کوئی سیاسی یا معاشی وجہ نہیں ہے۔ کوئی اسکینڈل بھی نہیں ہے۔ پھر کیا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اس سوال کے جواب کیلئے نیوزی لینڈ کے معاشرہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK