Inquilab Logo

جیسنڈا کی مقبولیت اور کامیابی

Updated: October 21, 2020, 11:20 AM IST | Editorial

جیسنڈا آرڈرن کی شاندار فتح اُن چیلنجوں کے باوجود ہے جن کا اُنہیں اچانک سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا اور ان چیلنجوں کے آگے کمزور اور بودا ثابت ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ دوبارہ منتخب نہ ہوتا

Jacinda Ardern - PIC : INN
جیسنڈا آرڈن ۔ تصویر : آئی این این

جیسنڈا آرڈرن کی شاندار فتح اُن چیلنجوں کے باوجود ہے جن کا اُنہیں اچانک سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا اور ان چیلنجوں کے آگے کمزور اور بودا ثابت ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ دوبارہ منتخب نہ ہوتا۔ ان میں سے ایک چیلنج تھا ۲۰۱۹ء میں نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر خوفناک حملوں کا۔ دل دہلا دینے والی اس واردات کے بعد جیسنڈا نے جس سیاسی بصیرت، فہم و تدبر، اُصول پسندی، وسعت قلبی، دردمندی اور بہادری کا ثبوت دیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 
 ۲۰۱۹ء ہی کے اواخر میں اُنہیں جس دوسرے بڑے چیلنج سے نمٹنا پڑا وہ کورونا کی وباء تھی۔ جیسنڈا نے اس وباء کو بڑی چابکدستی سے روکا جس کا نتیجہ تھا کہ اپریل میں متاثرین کی تعداد بڑھی مگر عالمی تعداد کے مقابلے میں آٹے میں نمک جیسی تھی۔ جیسنڈا کے ملک میں کورونا کے متاثرین کی مجموعی تعداد صرف ۱۸۸۷؍ تک پہنچی اور صرف ۲۵؍ متاثرین فوت ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ جیسنڈا کی فتح اُسی دن یقینی ہوگئی تھی جب انہوں نے کورونا کو شکست دی تھی۔   
  دیکھا جائے تو جیسنڈاکی شاندار فتح صرف فتح نہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ انتخابات تو ووٹوں کی کمی اور زیادتی سے ہارے اور جیتے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی نعرہ چل جاتا ہے، کبھی آخری لمحات میں اعلان کی گئی کوئی اسکیم رائے دہندگان کے ووٹوں پر براہ راست اثر انداز ہوجاتی ہے، کبھی لوگ اُمیدوار کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں اور فائدہ پارٹی کو ملتا ہے اور کبھی کچھ مخصوص قسم کے حالات انتخابات کو متاثر کرتے ہیں، وغیرہ۔ ہم چونکہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اس لئے انتخابی فتح کا تقریباً ہر راز اور انتخابی سیاست کا ہر گُر جانتے ہیں۔ اپنے اسی وسیع تجربہ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کے حالات کا جائزہ لینا اور کسی نتیجے پر پہنچنا ہمارے لئے آسان ہے۔ اسی لئے کہا گیا کہ جیسنڈا کی فتح، فتح کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ 
 ہمارے خیال میں یہ اُن کے نظریہ کی جیت ہے، معاملہ فہمی اور سیاسی شفافیت کی جیت ہے، حق بات کیلئے پوری قوت کے ساتھ کھڑا رہنے کی جیت ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنے کے طرز عمل کی جیت ہے اور خود اعتمادی کی جیت ہے۔ جب اتنی ساری فتوحات یکجا ہوں تو انتخابی فتح ہمالہ جیسی بلند دکھائی دیتی ہے۔ ہرچند کہ یہ ساری باتیں کچھ کم قابل ذکر نہیں ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ اس سے زیادہ قابل ذکر یہ حقیقت ہے کہ جیسنڈا بہت سے عالمی لیڈروں کے مقابلہ میں کم عمر اور کم تجربہ کار ہیں۔ ٹرمپ، پوتن، انگیلا میرکل، بورس جانسن اور ژی جن پنگ اُن کے مقابلے میں کافی سینئر اور وسیع تجربہ کے حامل سیاستداں ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے اقدامات سے پوری دُنیا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا، بھلے ہی دُنیا نے شرم محسوس کرتے ہوئے اپنا محاسبہ نہ کیا ہو۔
 جیسنڈا آرڈرن نومبر ۲۰۰۸ءمیں’ لسٹ ایم پی‘ کی حیثیت سے نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں داخل ہوئی تھیں۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں دو طرح کے ایم پی ہوتے ہیں، ایک وہ جو براہ راست منتخب ہوتے ہیں اور دوسرے لسٹ ایم پی جو پارٹی کو حاصل شدہ ووٹوں کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ ہم انہیں راجیہ سبھا کے رکن جیسا سمجھ سکتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے جیسنڈاکا پہلی مرتبہ انتخاب فروری ۲۰۱۷ء میں اس وقت ہوا جب وہ لیبر پارٹی کے اُمیدوار کی حیثیت سے ماؤنٹ البرٹ حلقے کا الیکشن جیت کر رکن پارلیمان بنی تھیں۔ اگر ۲۰۰۸ء سے گنا جائے تو صرف ۱۲؍ سال اور ۲۰۱۷ء سے جوڑا جائے تو صرف تین سال کے مختصر تجربہ کے باوجود جیسنڈا نے دلوں کو جیتنے کا وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو پچاس پچاس سال عوامی زندگی میں رہنے والے بھی انجام نہیں دے پاتے۔ (دل جیتنے کے بعد الیکشن جیتنا کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتا)۔ یہی وجہ ہے کہ جیسنڈا کے مداحوں کی عالمی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK