Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں کے خلاف یہود کے جارحانہ رویے کی طویل تاریخ ہے

Updated: October 20, 2023, 12:59 PM IST | Ibtisam Elahi Zaheer | Mumbai

فلسطین کے مسلمان ایک عرصے سے یہود کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہود نے کئی عشروں کے دوران ایک منظم سارش کے تحت دنیا بھر کے علاقوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں اپنی سیاسی اور عددی قوت کو مرتکز کیا اور وہاں کے بسنے والے باشندوں کی اکثریت کو حکمرانی کے حق سے محروم کیا۔

The oppressed Muslims living in the land of Palestine have been struggling according to their ability to get out of the oppression of the Jews for a long time. Photo: INN
ارضِ فلسطین میں بسنے والے مظلوم مسلمان عرصہ دراز سے یہود کے پنجۂ ستم سے نکلنے کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد کر رہے ہیں ۔ تصویر:آئی این این

فلسطین کے مسلمان ایک عرصے سے یہود کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہود نے کئی عشروں کے دوران ایک منظم سارش کے تحت دنیا بھر کے علاقوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں اپنی سیاسی اور عددی قوت کو مرتکز کیا اور وہاں کے بسنے والے باشندوں کی اکثریت کو حکمرانی کے حق سے محروم کیا۔ مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری غلبے کو برقرار رکھنے کیلئے ۱۹۶۷ء میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل پر قابض یہودیوں کے ساتھ جنگ کی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو ایمان، تنظیم، اتحاد اور داخلی کمزوریوں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سقوطِ بیت المقدس کا سانحہ رونما ہونے کے بعد سے لے کر اب تک یہودی ارضِ فلسطین پر مسلسل مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔
یہود کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویے اور طرزِ عمل کی درحقیقت ایک لمبی تاریخ ہے۔ یہود کی کج روی اور سرکشی سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام میں مسلمانوں کو بھرپور طریقے سے آگاہ کیا ہے۔
نبی کریمﷺ جس وقت ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں یہودی قبیلے درحقیقت نبی آخر الزماں کی آمد کے منتظر تھے لیکن جب اُنہوں نےاس بات کو جانا کہ آپﷺ کا تعلق آلِ اسحق کے بجائے آلِ اسماعیل سے ہے تو اُنہوں نے نبوت کی علامات اور نشانیاں دیکھنے کے باوجود دین ِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نبی کریم ﷺ اور اہلِ اسلام کی عداوت میں ہر حد عبور کرنے والے اِن یہودیوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بہت سی باتوں کو واضح کیا اور نبیؐ کریم پر وحی نازل فرمائی کہ :
’’اِن سے کہہ دیجئے کہ جو کوئی جبریلؑ سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریلؑ نے اللہ کے اِذن سے یہ قرآن آپؐکے قلب پر نازل کیا ہے، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے (اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے، تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں ، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے ۔‘‘ (البقرہ:۹۷۔۹۸)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر اس حقیقت کا بھی نزول فرمایا کہ یہود نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بڑی اذیتیں دیں اور اُن کے فرامین کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے۔ اِنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس پلٹے تو اس بات پر انتہائی ناراض ہوئے۔ ( سورۃ الاعراف:۱۵۲)
اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا کرتے تھے: ’’یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھار ہے ہیں ۔‘‘ (سورۃ التوبہ: ۳۰)
حضرت عزیر ؑ کو اللہ کا بیٹا کہنے کے ساتھ ساتھ نسلی تفاخر کا شکار یہود ی اپنے آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیٹا اور محبوب بھی قرار دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۱۸؍ میں کچھ اس انداز میں فرمایا ہے:
’’یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ان سے پوچھو، پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے زمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی مِلک ہیں ، اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے ۔‘‘
یہود نے جہاں وحدانیت کے حوالے سے منفی تصورات پیش کئے وہیں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی وسعت اور اس کے کائنات کے پالنہار ہونے پر بھی طعن کیا اور خزانوں کی وسعت کے باوجود اللہ تعالیٰ کو (معاذ اللہ) تنگ دست قرار دیتے رہے۔ اُن کی ہرزہ سرائی کو سورۃ المائدہ، آیت نمبر ۶۴؍ میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: 
’’یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، باندھے گئے ان کے ہاتھ، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘ یہود کی سرکشی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں اس بات کو بھی واضح کیا کہ یہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے اور حق بات کہنے والوں کو شہید کیا کرتے تھے:
’’آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے ۔‘‘ (سورۃ البقرہ:۶۱)
یہود پر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بہت سی نعمتوں کا نزول فرمایا لیکن اس کے باوجود وہ سرکشیاں کرتے رہے اور ناشکری کے راستے پر چلتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن پر بادلوں کو سایہ فگن کیا اور آسمان سے اُن کی خوراک کے لئے من و سلویٰ کا نزول فرمایا لیکن وہ من و سلویٰ جیسی نعمت پر بھی راضی نہ ہوئے اور زمین کی ترکاریوں کا مطالبہ کرنے لگے۔
 یہود کی سرکشی اور کج روی کے حوالے سے تاریخ کا وہ دور انتہائی اہم ہے جب انہوں نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی شقاوت، بدبختی اور عداوت کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی سازشوں کو کلی طور پر ناکام کر دیا۔ خندق کی جنگ میں یہود نے ایک بڑے لشکر جرار کے مقابلے میں مسلمانوں سے غداری کی اور معاہدے کے باوجود اہل اسلام کو جنگ میں تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اُن کی بیخ کنی کا فیصلہ کیا گیا اور ان کے ساتھ باقاعدہ طور پر جنگ کی نوبت آ پہنچی۔ خیبر میں یہود کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے اُن کا بڑا سردار مرحب قتل ہوا اور اہلِ اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود پر غلبہ عطا فرما دیا۔
قرونِ اولیٰ کے دور سے لے کر آج تک یہود مسلمانوں کے بدترین دشمن رہے اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۸۲؍ میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا:’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کیلئے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پا ؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اِس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور اُن میں غرور نفس نہیں ہے۔‘‘
 یہود اہلِ اسلام کو سیاسی اور معاشی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے ہمیشہ کمر بستہ رہے، بالخصوص مظلوم فلسطینی عرصۂ دراز سے مسلسل اُن کی سازشوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ ارضِ فلسطین میں بسنے والے مظلوم مسلمان عرصہ دراز سے یہود کے پنجۂ ستم سے نکلنے کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں لیکن اُن کو اس سلسلے میں واضح کامیابی نہیں ملی اور ہنوز یہ کامیابی دور معلوم ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اُمت مسلمہ اپنی ترجیحات کا درست تعین نہیں کر سکی۔ ا س نے قبلہ اول کی بازیابی کی سنجیدہ اور مسلسل کوشش نہیں کی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے اور سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور مادی اعتبار سے اہلِ فلسطین کی بھرپور مدد کرنی چاہئے تاکہ اُن کی آئینی حیثیت کو بحال کرایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK