’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 3:45 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
مسلمان جذبات سے کام نہ لیں
مسلمانوں کو جذباتی ہونےکے بجائے پُرامن رہ کر قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ پہلے آئینی حقوق، مذہبی آزادی اور عدالتی فیصلوں کا مطالعہ کریں۔ صبر و دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کریں۔ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف مسلمان نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی کرتے ہیں، اسلئے اگر کسی ایک مذہب کو نشانہ بنایا جائے تو یہ امتیازی سلوک ہوگا۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ مسلمان قانونی راستے اختیار کریں جیسے کہ عدالت میں پٹیشن، انسانی حقوق کمیشن سے رجوع یا انتظامیہ سے بات چیت۔ ساتھ ہی علماء کرام، سماجی قائدین اور قانون دانوں کی ایک کمیٹی قائم ہو جومسلمانوں کی ایک آواز بنے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے آئینی حقوق کا تحفظ قانونی انداز سے کریں تاکہ سماجی ہم آہنگی بھی قائم رہے اور مذہبی آزادی بھی محفوظ رہے۔
رضوان ہمنوا سر ( ہاشمیہ ہائی سکول ممبئی)
معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے
مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پولیس کی کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو قانون کا احترام کرنا چاہئے اور حکومتی ہدایات کے مطابق لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا چاہئے، خاص طور پر نماز کےمقررہ اوقات میں۔ عبادات کی ادائیگی میں توازن اور آس پاس کے لوگوں کے آرام کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، تاکہ کسی کوکوئی تكليف نہ ہو۔ اگر کسی خاص موقع پر لاؤڈ اسپیکر کی زیادہ ضرورت ہو، تو متعلقہ اداروں سے پیشگی اجازت حاصل کرنی چاہئے۔ پولیس یا حکام سے تصادم کے بجائے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ اس کے مستقل حل کیلئے ضروری ہے کہ علمائے کرام، مسجد کمیٹیاں اور سرکاری ادارے آپس میں مشورے سے ایک ایسا ضابطہ بنائیں جو قانون، عبادات اورمذہبی و سماجی ہم آہنگی کو یکجا کرے، تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل نہ پیدا ہوں۔
عبید انصاری ہدوی( بھیونڈی)
متحد ہوکر عدالت سے رجوع ہوں
مساجد میں لاوڈاسپیکر کے استعمال کے تعلق سے ملک کی کئی عدالتوں نے احکامات جاری کئے ہیں مگر سیاسی دباؤکےتحت آج پولیس مساجدسے لاوڈاسپیکر اُتارنے پربضد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ انتخابی دنوں میں مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنےوالے لیڈران گوشہ نشین ہوچکےہیں۔ ایسے میں مساجدکے ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ حکمت عملی اور سوجھ بوجھ سے کام لیں اور مساجد میں کم آواز کا اسپیکر لگالیں تو بہتر ہے تاکہ فرقہ پرست جماعتوں کو ملک کےامن وامان، بھائی چارگی اورقومی ایکتا کو ختم کرنےکا موقع نہ مل سکے۔ اس کے ساتھ ہی بلا لحاظ مسلک و مکتب تمام مساجدکے ذمہ داران متحد ہوکر عدالت سے رجوع ہوں۔ اس بات کاخیال رکھیں کہ مذہبی جذبات سے کام لینےسے فرقہ پرستوں کو فائدہ ہوگا اور مسئلہ حل ہونےکےبجائے، اس میں اوراضافہ ہی ہوگا۔
ڈاکٹرشیخ نصیراحمد (پال گھر)
مسلمانوں کو قانونی سہارا لینا چاہئے
لاوڈ اسپیکر کے نام پرپولیس کی کارروائیوں سےمسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ صوتی آلودگی کے نام پر پولیس آواز کی سطح چیک کرتی ہے اور ذمہ داران سے طرح طرح کے سوالات کرتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اشتعال انگیزی سے بچنے کی کوشش کے ساتھ ہی قانونی سہارا بھی لینا چاہئے۔ ایڈوکیٹ یوسف مچھالا کی سربراہی میں رٹ پٹیشن بامبےہائی کورٹ میں داخل کی جا چکی ہے۔ اسی طرح کی رٹ پٹیشنز دیگر ریاستوں میں بھی داخل کی جانی چاہئے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء جیسی بڑی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے ملک کے نامور وکلاء (مثلاً دُشینت دوے، ابھیشیک منو سنگھوی، اندرا جے سنگھ اور کپل سبل وغيره) کی مدد سے ہائی کورٹس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کی جانی چاہئے۔ اس مسئلے کیلئے عدالتی/قانونی چارہ جوئی ہی مستقل حل ہو سکتا ہے۔
افتخار احمد اعظمی((سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
اس مسئلے کو صرف دفاعی نہیں بلکہ اصلاحی پہلو سے دیکھیں
موجودہ حالات میں مسلمانوں کو جذبات کے بجائے شعور، اشتعال کے بجائے استحکام اور شکایت کے بجائے حکمت عملی کے ساتھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مسلمان اپنی عبادات اور دینی شعائر کی حفاظت کیلئے قانون کا سہارا لیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کیلئے باقاعدہ اجازت نامے حاصل کئے جائیں، آواز کی سطح کو قانون کے مطابق محدود رکھا جائے اور غیر ضروری اعلانات کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اس کےساتھ ہی ضروری ہے کہ مسلمان اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ مساجد کی انتظامی کمیٹیاں وقتی اور جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ علاقے کی تمام مساجد کے ذمہ داران باہمی مشورے سے متحدہ لائحۂ عمل طے کریں۔ ایسے علمائے کرام اور سماجی رہنما آگے آئیں جو انتظامیہ سے باوقار انداز میں بات چیت کر سکیں اور ہر ممکن حد تک کشیدگی سے بچیں۔ یہ بھی ایک اہم موقع ہے کہ مساجد میں صرف اسپیکر کی آواز کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نمازوں کی باجماعت ادائیگی اور صف بندی پر توجہ دی جائے۔ اگر پانچ وقت کی نماز میں زیادہ صفیں آباد ہوں، نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو تو مسجد کی اہمیت خود بخود اجاگر ہوگی۔ بیشک اذان سننا ایک فضیلت ہے مگر اذان پر لبیک کہنا اصل کامیابی ہے۔ مستقبل کا حل صرف قانونی چارہ جوئی یا وقتی احتجاج نہیں بلکہ منصوبہ بند، متحد اور باشعور حکمت عملی ہے۔ مسلم تنظیمیں، ائمہ کرام اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس مسئلے کو صرف دفاعی نہیں بلکہ اصلاحی پہلو سے دیکھیں۔ اذان صرف آواز کا نام نہیں، وہ ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو پائیدار رکھنے کیلئے کردار، اتحاد اور شعور کی ضرورت ہے نہ کہ صرف ردعمل اور شور کی۔
آصف جلیل احمد(چونابھٹّی، مالیگاؤں )
مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم قانون کا راستہ اختیار کریں
مہاراشٹر میں خاص طور سے ان دنوں بی جےپی لیڈر مساجد سے لاوڈ اسپیکر ہٹانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس مہم میں کریٹ سومیا پیش پیش ہیں۔ لاوڈ اسپیکر یا صوتی آواز کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے بہت پہلے حکم دیا ہے کہ اسپیکر صبح ۶؍ بجے کے بعد اور رات ۱۰؍ بجے سے پہلے استعمال کریں اورمتعینہ سطح(ڈیسی بل) کی آواز کو برقرار رکھیں۔ اس فیصلے میں کہیں بھی لاوڈ اسپیکر کو ہٹانا نہیں کہا گیا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے کی اہم بات کہ’ہم وقت کی پابندی کریں اور نماز کا وقت ذہن میں رہے۔ ‘ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم قانون کا راستہ اختیار کریں۔
شاہد ہنگائی پوری علیگ(سکون ہائٹس، ممبرا)
تمام مذہبی اداروں کی پراپرٹی کے کاغذات درست کریں
اس سلسلے میں ہمارا پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم مساجد، مکاتیب اور اپنے تمام مذہبی اداروں کی پراپرٹی کے کاغذات درست کریں۔ اگر وقف بورڈ میں سالانہ آڈٹ رپورٹ، چینج، پراپرٹی ٹيکس اور دیگر رپورٹ داخل کروانا باقی ہو تو اسے ترجیحی بنیادی پر مکمل کریں۔ اپنے اپنے علاقے کے پولیس اسٹیشن سے اجازت نامہ حاصل کر لیں۔ وقت بر وقت اسے رینیول کریں۔ علاقے کی بااثر غیرمسلم شخصیات سے مساجد کا تعارف کرائیں۔ نماز اور اذان کی اسلامی اہمیت و ضرورت سمجھائیں تاکہ ان کے دلوں میں بیٹھی غلط فہمی دور ہو۔ آج بھی دور دراز کے علاقوں میں غیرمسلم افراد فجرکی اذان پر اُٹھتے، مغرب میں کھانا کھاتے اور عشاء کے وقت سوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے گھروں میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی شفا یابی کیلئے مساجد کے باہر پانی لئے کھڑے رہتے ہیں اور نمازیوں سے اس پر دَم کراتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اپنے علاقے کے ایم ایل اے، ایم پی، وزیراور وزیراعلیٰ پر سیاسی طور پر دباؤ ڈالیں۔ ایک جانب جہاں یہ سب کریں وہیں دوسری جانب اسکول، کالج اوردواخانے جیسے سائلینٹ زون کے علاقوں میں لاؤڈ سپیکروں کی آواز کم رکھیں۔ اذان کو موبائل ایپ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نشر کرنے کا طریقہ تلاش کریں۔ لاؤڈ اسپیکر کی اذان پرکم سے کم انحصار ہو۔ یہ لاؤڈ اسپیکر سے چھٹکارا پانے کا مستقل حل ہو سکتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم قانون کی پاسداری کریں اور اپنے حقوق کیلئے وہ تمام کام کریں جس کا حق ہمیں آئین نے دیا ہے۔
اسماعیل سلیمان(کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
پُر امن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے
لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہمیں قانون کے مطابق کرنا چاہئے۔ اگر اس کے بعدبھی حکومت کی جانب سے زیادتی ہوتی ہے تو پھر ہمیں پُر امن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رہے کہ ہمیں یہ کام علماء کرام اور ملی تنظیموں کی نگرانی میں رہ کر ہی کرنا چاہئے۔ بات احتجاج کی ہو یا پھر انتظامیہ سے مفاہمت، ہمیں اپنی مرضی سے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے کہ بعد میں علماء کرام اور ملی تنظیموں کو نقصان اٹھانا پڑے۔
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
جذباتی نہیں بلکہ دانشمندانہ انداز میں معاملہ حل کریں
سپریم کورٹ اور دیگر ریاستی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً لاوڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔ ان میں شور کی سطح، وقت کی پابندی (جیسے رات۱۰؍ بجے سے صبح ۶؍ بجے تک ) اور اجازت نامہ جیسے نکات شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ قانون تمام مذاہب کیلئے برابر ہے، لیکن صرف مساجد کو نشانہ بنانا یا پولیس کا سخت اور غیر شائستہ رویہ مسلمانوں میں احساسِ محرومی پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں مسجد کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ لاوڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق انتظامیہ سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کریں اور وقت وقت پر اس کی تجدید بھی کراتے رہیں۔
اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معزز افراد، علما اور سوشل ورکرز انتظامیہ اور پولیس سے ملاقات کر کے مساجد کی اہمیت اور آداب بتائیں اوراس کے بعد بھی اگر کوئی شکایت ہو تو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنےکی کوشش کریں۔ اسی کے ساتھ مقامی جماعتوں، علما بورڈ اور ملی و سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ریاستی سطح پر پالیسی بنائیں، قانونی مدد کیلئے وکلاء کی ٹیم تیار رکھیں اور غیر ضروری کارروائیوں کو چیلنج کریں۔ خیال رہے کہ اذان ایک اہم عبادت ہےجس کا احترام واجب ہے، لیکن دیگر اعلانات، بیانات اور خطبات وغیرہ کے وقت آواز کی سطح پر کنٹرول بھی ضروری ہے تاکہ ہمسایوں اور غیر مسلم شہریوں کو پریشانی نہ ہو۔ مسئلے کا حل قانون شکنی یا احتجاج نہیں بلکہ بیداری، تدبر، مفاہمت اور قانونی دائرے میں رہ کر جدوجہد ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس حساس مسئلے کو جذباتی نہیں بلکہ دانشمندانہ انداز میں سنبھالیں اور اپنے کردار اور اخلاق سےپیغام دیں کہ مسلمان امن کے داعی ہیں۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول، بھیونڈی)
ترجیحات طے کرنا اور قانون کی پاسداری ضروری ہے
ہم جانتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے معاملے پر اب اتنی سیاست کیوں گرمانے لگی؟ سیاسی فضا میں تبدیلی سے بہت کچھ بدلتا ہے اور جو تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کرتا ہے، وہ ہر مسئلے کا مناسب حل تلاش کر ہی لیتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں ہمیں اسی طرح کی مصلحت اختیار کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے آواز کی ایک حد طے کی ہے۔ صبح۶؍ تا رات۱۰؍ بجے رہائشی علاقوں میں یہ حد ۵۵؍ ڈیسیبل اور رات۱۰؍ کے بعد۴۵؍ ڈیسیبل ہونی چاہئے۔ اسی طرح کمرشیل اور انڈسٹریل علاقوں میں آواز کی حد الگ ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں فی الوقت ہمارا بڑا مسئلہ اذان کا ہے۔ فجر کی نماز کے علاوہ دیگر نمازوں کے وقت یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں اگر مقررہ حدود میں اسپیکر کا استعمال کیا جائے۔ نماز، تقاریر یا دیگر تقریبات کیلئے بھی ہمیں از خود اس کی پابندی کرنی چاہئے۔ ہم شاہد ہیں کہ الگ الگ موقعوں پر تیز آواز سے ڈی جے، مائک پرتقریر اور راستوں میں منعقد جلسوں میں چلنے والے اسپیکر س عوام الناس کیلئے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ کوئی دوسرا غلط کررہا ہے اسلئے ہمارا غلط کرنا جائز ہے، اس تصور سے باہر آنا ضروری ہے۔ ہمیں قانون کی پاسداری کو یقینی بناناہوگا۔ ٹیکنالوجی نے چیزوں کو انتہائی آسان کردیا ہے۔ کئی مثالیں مل جائیں گی جہاں جمعہ کا خطبہ اب یوٹیوب پر لائیو نشر کیا جاتا ہے، محلوں میں دینی ریڈیو چینل کے ذریعہ آسانی پیدا کرلی گئی ہے۔ موبائیل اپلی کیشن کے ذریعے مختلف مساجد کی نمازوں کے اوقات یا اذان کی لائیو نشریات کا نظم قائم کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اب لاؤڈ اسپیکر ہی واحد ذریعہ نہیں ہے۔
مومن فہیم احمد عبدالباری (لیکچرر صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے
ملک میں مسلمانوں کو پریشان کرنے کا ایک سلسلہ بن چکا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہم اورآپ روزانہ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ لاؤڈ اسپیکرکے استعمال میں شریعت اور قانون دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ ایسے معاملات میں جذبات سے نہیں بلکہ سمجھ بوجھ سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ مساجد میں ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے جس کے ذریعے اذان کیلئے جدیدساؤنڈ سسٹم کا استعمال کیا جائے۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق وطن عزیز کے رہائشی علاقوں میں مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کیلئے آواز کی سطح دن میں ۵۵؍ اور رات میں ۴۵؍ ڈیسی بل ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اسپیکر کو صرف اذان اور اہم اعلانات تک محدود رکھا جائے۔
قریشہ بیگم ( بھیونڈی)
مقررہ حد سے زیادہ آواز نہ رکھیں
مسجدکے ذمہ داران کو چاہئے کہ لاوڈ اسپیکر سے متعلق کاغذی کارروائی اور اجازت نامہ ضرور حاصل کریں اور ہر تین ماہ بعد اس کی تجدید بھی کرائیں۔ عدالت کے ذریعے طے کردہ آواز کی مقررہ حد سے زیادہ آواز نہ رکھیں۔ اس کے بعد بھی پولیس اگر کارروائی کے نام پر پریشان کرے تو فوراً متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افسران سے رجوع کریں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جدیدتکنیکی آلات جیسے آن لائن اذان، ایپ یا پھر بلیو ٹوتھ اسپیکر سے بھی مسجد کے اطراف اور محلہ میں اذان ہر گھر تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
عارف محمد خان(جلگاؤں )
اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے بہار کے الیکٹورل افسر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس کے مطابق بہار کے ووٹر لسٹ کی باریک بینی سے جانچ ہوگی اور اس جانچ کے بعد جو فہرست ترتیب دی جائے گی، وہی لوگ اسمبلی انتخابات میں ووٹ دے سکیں گے۔ اس تعلق سے اپوزیشن اور عوام میں کافی ناراضگی پائی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ:
بہار میں انتخابی فہرست کی جانچ کے اعلان پر عوام میں کس طرح کے خدشات ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۳؍ جولائی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔