Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: مساجد میں لاوڈاسپیکر: کارروائیوں سے بچنے کیلئے کیا کریں؟مستقل حل کیا؟

Updated: July 08, 2025, 11:55 AM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Find a way to broadcast the call to prayer through mobile apps and modern technology to minimize the dependence on loudspeakers for the call to prayer. Photo: INN.
اذان کو موبائل ایپ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نشر کرنے کا طریقہ تلاش کریں تاکہ اذان کیلئے لاؤڈ اسپیکر پر انحصارکم سے کم رہ جائے۔ تصویر: آئی این این۔

مسلمانوں میں ڈر کا ماحول پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے 


 ۲۰۱۴ء کے بعد سے ملک ہندوستان پر ایک خاص فکر کے لوگوں کی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے وہ کسی نہ کسی بہانے سے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے تئیں تعصبی ماحول تیار کر رہی ہے۔ اس سے ملک کا ماحول پراگندہ ہوتا جارہا ہے اور اب عدالتی حکم کا حوالہ دے کر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کو اتروانے میں پولیس محکمے کو آگے کرکے مسلمانوں میں ڈر کا ماحول پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زمینی کاغذات کی کمی بھی کہیں نہ کہیں ہمیں شک کے دائرے میں لاکھڑا کرتی ہے، اس لئے ہمیں اپنے دینی مراکز کے کاغذات کا صحیح اندراج حکومتی محکمے میں کرکے اسے حفاظتی نقطہ نظر سے محفوظ کر لینا چاہئے۔ عدالتی حکم کے مطابق آواز کی سطح کو قائم کرکے تنازعات سے خود کو بچاناچاہئے۔ مساجد ہوں یا مدارس لاؤڈ اسپیکر کے غیر ضروری استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اکثر دینی مجالس میں عدالتی حکم کی اندیکھی مشکلات کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے پولیس محکمہ اور حکومت کو مسلمانوں کو تنگ کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ نماز اور اذان کی مناسبت ہی سے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا چاہئے۔ علاقے میں موجود تمام مساجد کے ذمہ داران کو اتحاد و اتفاق قائم رکھتے ہوئے اور قانونی ماہرین کے مشورہ پر عمل آوری کرکے مِلّت کو درپیش مسائل کا حل نکالنا چاہئے، تاکہ حکومت اور پولیس محکمہ مساجد کے منتظمین کو پریشان نہ کرسکیں ۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
مسلمانوں نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی ہے


 ہندوستان کی تاریخ میں آج تک کسی حکومت کو لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن جس طرح مسجد اقصیٰ سے تمام اسپیکرز کی تاریں کاٹ کر اذان مبارک کا لاؤڈ اسپیکر سے رابطہ بند کر دیا گیا، ٹھیک اسی طرح موجودہ حکومت وہی پیٹرن ہندوستان کی مساجدوں میں نافذ کرنا چاہتی ہے، اس لئے جب تک یہ حکومت اقتدار سے بے دخل نہیں ہو جاتی تب تک راوی مسلمانوں کے لئے چین نہیں لکھتا لیکن چونکہ ہم مسلمانوں نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی ہے اسلئے ہمیں اب بھی صوتی آلودگی کے قوانین کی تعمیل کرنی ہوگی۔ اسکے علاوہ ہم ڈیجیٹل متبادلات کو فروغ دیتے ہوئے اذان کو خاموشی سے اسٹریم کرنے کے لئے آن لائن اذان جیسے اپیس کی بھی مدد لے سکتے ہیں چونکہ یہ حکومت صوتی آلودگی کے نام پر مساجد سے لاؤڈ اسپیکرز ہٹوانا چاہتی ہے اسلئے ضروری ہے کے ہم تمام مذہبی مقامات پر اس قانون کا مساوی اطلاق کی وکالت کریں۔ اسی طرح ہمیں یکساں شور کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نیز ثقافتی طریقوں اور صحت عامہ کا احترام کرتے ہوئے کمیونٹی کے مباحثے کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے، اس طرح ہم لاؤڈ اسپیکرز کے معاملے میں مذہبی آزادی کے ساتھ صوتی آلودگی کے خدشات کو متوازن رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی( کوسہ ممبرا)
 قانونی ہتھیار ہی کا سہارا لینا چاہئے


 سب سے پہلے تو مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کے عدالت کے فیصلے کو کوئی وزیر یا کوئی بھی سیاسی لیڈر نہیں بدل سکتا، اگر کوئی بدل سکتا ہے تو وہ عدالت ہی بدل سکتی ہے، مسلمانوں کو قانون کی لڑائی لڑنے کے لئے قانونی ہتھیار ہی کا سہارا لینا چاہئے۔ سیاسی لیڈران اور وزیروں کے دفتروں کا چکر لگانےسے کچھ نہیں ہونے والا۔ ایسے لیڈر صرف فوٹو اور خبروں کی سیاست کریں  گے اور پھر بعد میں آپ کو عدالت جانے کا مشورہ دیں گے۔ بہتر یہ ہو گا کہ کان گھما کر پکڑنے کے بجائے سیدھا پکڑا جائے۔ ہائی کورٹ جاؤ، اس کے فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ جاؤ۔ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو تابوت میں آخری کیل نہ سمجھو۔ سپریم کورٹ کی بڑی بنچ بھی ہے۔ اب تک بہت سے ایسے فیصلے ہیں جن کو بدلا گیا، بس اپنی بات مضبوط دلیل کے ساتھ رکھنی ہوگی۔ جھاڑو سے مکڑی کا جالا صاف کرنا چھوڑو، سیدھا مکڑی کو مارو۔ 
مبین اظہر(مولانا آزاد روڈ، ممبئی)
  جو احکامات جاری کئے گئے ہیں، ان پر سختی سے عمل کریں  


 مساجد میں لاؤڈ اِسپیکر کے خلاف پولیس کی کاروائیوں سے بچنے کے لئے مساجد کے ٹرسٹیان عدلیہ کی جانب سے لاؤڈ اِسپیکر کے استعمال کے تعلق سے جو احکا مات جاری کئے گئے ہیں، اُن پر سختی سے عمل کریں۔ کسی معاملے میں متعلقہ محکمہ کے احکا مات پر سختی سے عمل کر کے اُن حکام کو شکایت کا موقع نہ دینا مذہب اِسلام میں یہ بنیا دی تعلیم ہے۔ تہواروں کے موقع پر ۴۵؍ڈسیبل تک لاؤڈاسپیکر کی آواز رکھنے کی اِجازت دی گئی ہے اور مذکورہ مقصد پر عمل کر نے کے لئے مقامی پولیس اِسٹیشن سے اِجازت لینا ضروری ہے۔ عام طور پر اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کے لئے ۲۵ ؍سے ۳۰ ؍ڈسیبل تک آواز رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اِسلئے اِس کا مستقل حل یہ ہے کہ پولیس محکمہ کے ذریعے بنائے ہوئے قوانین پر سختی سے عمل کریں۔ اُنہیں اپنے خلاف قانونی کارروائی کر نے کا موقع نہ دیں۔ اِس عمل سے اللہ رب العزت بھی خوش ہو تا ہےاور اللہ تعالی کی خوشنودی ہی میں ہم سب کے لئے عافیت ہے۔  
پرنسپل (ڈاکٹر)محمد سہیل لو کھنڈوالا (سابق ایم ایل اے)
 مسجدوں میں لائوڈاسپیکر کا استعمال صحیح ہونا چاہئے


 ریاست مہاراشٹر میں گزشتہ مہینوں سے مساجد سے لائوڈاسپیکر اتروانے کامعاملہ حکومت کے دباؤ میں زور پکڑ رہا ہے۔ بی جے پی حکومت عروس البلادممبئی کا ماحول خراب کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ دنوں مسلم اکثریتی علاقےمدنپورہ کی مسجد میں بڑی تعداد میں پولیس جاکر مسجد سے لائوڈاسپیکر اتروانے کے لئے مسجد کے ٹرسٹیوں کو مجبور کرتی ہے۔ یہ دراصل قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جب کورٹ کی جانب سے عبادت گاہوں میں لاؤڈاسپیکر استعمال کرنے کی اجازت ہے تو صرف مسجدوں سے لائوڈاسپیکر کیوں اتارنے پر مجبورکیا جارہاہے ؟ اگر صوتی آلودگی کا مسئلہ ہے تو بات چیت کرکے اس کاحل نکالا جا سکتاہے۔ یہ معاملہ، لائوڈاسپیکر اتارنے کا کوئی جواز نہیں رکھتا۔ دن رات ۲۴؍ گھنٹوں میں ۵؍ وقت کی اذان کےلئے صرف ۲۰؍ منٹ لائوڈاسپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے کسی کو بھی تکلیف نہیں ہوتی مگر نفرت کی سیاست خوامخواہ ایسے مسئلے کھڑے کرکے ماحول خراب کرنا چاہتی ہے۔ قانون ہر مذہب کےلئے یکساں ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ اذان کے سوائے کسی اور وقت لائوڈاسپیکر کا استعمال غلط ہے۔ نہ عقل اس کی اجازت دیتی ہے۔ ہمارے بڑے شہروں میں جہاں غیرمسلم آباد ہیں وہاں لائوڈاسپیکر پر خطبہ، تقریر، تراویح اور وعظ کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ اسی سے صوتی آلودگی کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ یہ بے مقصد شور، ذہنی سکون برباد کر سکتا ہے۔ ہماری عبادت سے دوسروں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے لہٰذا خطیب کی آواز مقرر کی ہے، اس کے مطابق مائیک اور لائوڈاسپیکر کا استعمال ضروری ہے۔ 
 اقبال احمد خان دیشمکھ( مہاڈ، رائےگڑھ)
اصل مسئلہ برسراقتدار پارٹی کی ذہنیت اور ان کے ایجنڈہ کاہے 


 اصل مسئلہ لاؤڈا سپیکر اور پولیس کا نہیں اصل مسئلہ اس وقت مرکز میں برسراقتدار پارٹی کی ذہنیت و ان کے ایجنڈہ کاہے اور ریاست میں ان ہی کا اقتدار ہے اور بہت ساری ریاستوں میں بھی ان ہی کا اقتدار ہے، اس لئے پولیس کی کارروائیوں میں شدت بڑھ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ مسلمان اور حزب اختلاف بہت ہی کمزور ہو چکی ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کمزور کر دی گئی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حزب اختلاف کے بڑے بڑے لیڈر ڈر اور خوف یا اپنے اپنے مفادات کی خاطر پارٹی چھوڑ کر برسر اقتدار پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ۔ ان کا وہاں زبردست استقبال ہو رہا ہے کل تک جن پر بڑے بڑے فراڈ اور گھوٹالے کے الزام لگائے گئے، ان کی ذاتی زندگیوں پر حملے کئے گئے آج وہ مختلف وزارتوں پر قابض ہو کر مزےسے گھوم رہے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اخلاق، صحیح غلط کی تمیز، اصول پسندی یا اپنی پارٹی سے وفاداری وغیرہ تقریباً ختم ہو چکی ہے اب صرف اپنا اپنا مفاد یا جیل جانے سے بچنے کی فکر سب سے اہم ہے۔ اس درمیان آر ایس ایس اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ وہ ایجنڈہ یہ ہے کہ خصوصی طور پر اقلیتوں کو غیر محفوظ کیا جائے مستقل حل تو یہی ہے کہ برسر اقتدار حکومت کو جلد از جلد اقتدار سے بے دخل کیا جائے۔ انہیں جتنا زیادہ وقت ملے گا ملک کا اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔ عارضی طور پر یہ کیا جا سکتا ہے کہ برادران وطن اور وکلاء کو ساتھ لے کر عوام کی ذہن سازی کی جائے اور ان کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ مذکورہ قسم کی زیادتی اور غیر ضروری کارروائیوں کو روکا جائے۔ 
 ابو حنظلہ (پونے)
 پولیس کی سختی سے مسلمان اور ٹرسٹیان پریشان ہیں  


 اذان کیلئے لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنے کی پولیس کی سختی سے مسلمان اور ٹرسٹیان پریشان ہیں۔ واضح ہو کہ کریٹ سومیا کے ذریعے اس تعلق سے جو شوشہ چھوڑا گیا تھا، اس کا اثر اب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ الگ الگ علاقوں سے یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ پولیس کی جانب سے سختی بڑھتی جارہی ہے اور کچھ جگہوں پر تو باقاعدہ کارروائی کرتے ہوئے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ ایسے میں مسلمان اور سبھی مساجد کے ٹرسٹیان باہمی اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں اور سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن پر طے شدہ ڈیسیبل کے مطابق آواز کم رکھیں مگر لاؤڈ اسپیکر کو نہ اتاریں۔ امن وامان قائم رکھیں ۔ شرپسندوں کو ملک کی فضا بگاڑنے کا کوئی بھی موقع نہ دیں۔ مضبوطی سے آپسی اتحادواتفاق باقی رکھیں ۔ ہر حال میں ایمان پر قائم ودائم رہیں۔ پانچوں وقت کی نماز مسجدوں میں پڑھنے کی کوشش کریں۔ ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور کامیابی حاصل ہوگی۔ 
 ایم پرویز عالم نورمحمد ( رفیع گنج، بہار)
ہر روز نت نئے مسائل میں جان بو جھ کر الجھا یا جا ر ہا ہے


  ہمارے ملک میں مسلمانوں کو ہر روز نت نئے مسائل میں جان بو جھ کر الجھا یا جا ر ہا ہے۔ مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ یہ طبقہ پریشا ن رہے۔ ہمیشہ مسائل سے گھرا رہے۔ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر وں پر بندش ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندسازش ہے۔ اس طبقے کی مذہبی آزادی پرقد غن لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ صوتی آلودگی کا جواز پیش کرکے مقامی پولیس اسٹیشن کے ا ہلکارر زبردستی مساجد میں داخل ہوکر لاؤڈ اسپیکر اتار ر ہے ہیں۔ 
 ز بیر احمد بوٹکے( نالا سوپارہ مغرب)
 حکومت مسلمانوں کو پریشان کرنا جانتی ہے


 صوتی آلودگی اگر لاؤڈ اسپیکر سے ہو رہی ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی پابندی لگانی ہے تو ہندوستان میں موجو دتمام مذاہب پر جہاں جہاں مذہبی تقریبات لاؤڈ اسپیکر کے ذیعے انجام دی جاتی ہیں، اُن تمام مذہبی تقریبات پر پابندی عائد کردینی ہوگی۔ اگر صرف مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کے لئے قانون بنانا اور قانونی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری اور اہم قرار دیا جارہا تو یہ نا انصافی کی بات ہے۔ جو جمہوریت کا قتل کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر پابندی لگانا اچھی بات ہے تو پھر بازاروں میں اور گاڑیوں میں بجنے والے ہارن اور موسیقی پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔ خاص طور پر سڑکوں پر ٹریفک جب جام ہوجاتا ہے اُس وقت گاڑیو ں کے ہارن مسلسل بجتے رہتے ہیں اُس سے بھی صوتی آلود گی ہوتی ہے اُس کا کیا کروگے؟ حکومت بس مسلمانوں کو پریشان کرنا جانتی ہے۔ یہ بہت افسوس کا مقام ہے۔ سیاسی پروگرا مو ں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرکے مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہے؟اُس کے لئے کونسا قانون بنا ہے یا بنایا گیا ہے؟ اُنہیں بھی اجازت نامہ حاصل کرنے کیلئے کہو۔ اگر آج لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان پر پابندیا ں عائد کی جارہی ہیں تو اس کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانا ہو تو اجازت نامہ حاصل کرنا فرض ہو جائے گا۔ اُس وقت مسلمان کیا کریں گے؟ جس طرح کے حالات آج اپنے ملک میں ہیں، اس سے اس طرح کے سوالات اُٹھنا یقینی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے حالات مزید بد سے بدتر ہوتے جائیں  گے۔ 
ش شکیل، چھترپتی سمبھاجی نگر(اورنگ آباد)
لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم مذہبی معاملات میں مداخلت 


 یو پی، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات اور خصوص طور سے مہاراشٹر میں مسجد، اذان اور لاؤڈ اسپیکر کی ’راج نیتی‘ سے اصل مدعے مہنگائی اور بےروزگاری سے عوامی توجہ کو ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے لاؤڈ اسپیکر پر اذان پر کافی چراغ پا اور بار بار الٹی میٹم دیتے رہے ہیں کہ مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹائے جائیں ۔ ٹھاکرے کو دقت اور پریشانی مسلمانوں اور اذان سے ہے۔ ہندتوا اور ہندو راشٹر کا دم بھرنے والے بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے کا نفرتی بھاشن اور مسجد میں گھس کر مارنے کا فقرہ کافی سرخیوں میں رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند مہینوں سے کچھ شہروں خصوصی طور سے مالیگاؤں، بھیونڈی، ناندیڑ، بلڈانہ اور ممبئی وغیرہ میں بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم اور پولیس میں شکایت درج کرائی ہے جس سے ممبئی پولیس کافی متحرک اور مستعد ہو گئی ہے۔ اس نے ٹرسٹیان کو لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی ہدایت دے رکھی ہے جس سے ٹرسٹیان نے وکیلوں کی رہنمائی میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور مساجد کے دورے کر کے، مساجد، درگاہوں اور مدارس کے ذمہ داران، ٹرسٹیان، علماء اور ائمہ کرام کو آئینی حقوق سے باخبر کیا ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے لیڈران اس نکتے کو پیش نظر رکھیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی مہم مذہبی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس طرح کی سیاست اور راج نیتی آئندہ ہونے والے بی ایم سی الیکشن کو کافی متاثر کرے گی۔ چونکہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان ایک مذہبی معاملہ ہے لہٰذا اس ضمن میں ٹرسٹیان اور ذمہ داران ہائی کورٹ کے احکام پر عمل پیرا ہوں ۔ آواز اور والیوم سے متعلق بتائے گئے اصولوں پر کاربند رہیں ۔ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ بھڑکاؤ اور نفرتی بھاشن پر جذباتی نہ ہوں اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ نظم و ضبط اور ڈسپلن کو ہر جگہ اور ہر مقام پر برقرار رکھنے کی کوشش کریں ۔ 
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان)
حکومت سے باتیں جاری رکھیں  


  جب سے فرقہ پرستی بڑھی ہے تب سے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی مخالفت زور پکڑ رہی ہے۔ اب اسپیکر زبر دستی اتروائے جارہے ہیں ۔ پولیس ایسا کیوں اور کس کے کہنے پر کر رہی ہے؟ آج سبھی کو پتہ ہے۔ اس لئے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کیخلاف پولیس کی کاروائیوں سے بچنے کے لئے اپنے لاؤڈ اسپیکر کا والیوم کم رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ حکومت سے باتیں بھی جاری رکھیں۔ اب اس کا مستقل حل یہی ہو سکتا ہے کہ پرانے زمانے کے جیسا اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر اذان دی جائے، آج کل سبھی کو نماز کے وقت کا پتہ ہے پہنچ جایا کریں۔ اذان تو نماز ادا کرنے کیلئے بلاوے کیلئے دی جاتی ہے۔ پچھلے ہفتے انقلاب میں یہ خبر آئی تھی کہ ماہم میں مخدوم شاہ بابا درگاہ کے ٹرسٹیوں نے شاید حیدرآباد کی کسی کمپنی سے مل کر ایک ایپ بنایا ہے اور ٹرسٹ نے بارکوڈ دیا ہے جس کی مدد سے نمازی ایپ  ڈاؤن لوڈ کر کے اذان سن سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر میرا روڈ کے سبھی مسلک کی مساجد کے ذمہ دار کسی ایک کمپنی سے مل کر ایپ لانچ کر سکتے ہیں ۔ (ان سے معمولی چارج لے سکتے ہیں )۔ ایپ کو ڈاؤن لوڈ کر کے اذان سن سکتے ہیں۔ اس طرح گھر گھر یہ جدید سسٹم پہنچ سکتا ہے۔ حالات کے مد نظر ہمیں حکمت سے کام لینا چاہئے۔ جیسا کہ مخدوم شاہ بابا درگاہ کے ٹرسٹیوں نے حکمت عملی سے کام لیا ہے۔ 
مرتضیٰ خان ( نیا نگر، میرا روڈ)
 تمام ضروری کاغذات محفوظ رکھے جائیں  


 مساجد کو چاہئے کہ وہ اپنے لاؤڈ اسپیکر کیلئے مقامی تھانے یا میونسپل ادارے سے لائسنس حاصل کریں۔ اگر اجازت پہلے سے موجود ہے تو اس کی تجدید وقت پر کرائی جائے۔ تمام ضروری کاغذات محفوظ رکھے جائیں تاکہ کسی بھی وقت پولیس کارروائی کی صورت میں پیش کئے جا سکیں۔ اذان اسلام کا اہم جزو ہے اور اسے لاؤڈ اسپیکر پر دینا ایک عام روایت ہے لیکن آواز کی حد ایسی ہونی چاہئے کہ وہ قریبی علاقے تک محدود رہے اور کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کوئی غیر مسلم علاقہ قریب ہے تو وہاں کے عوام کے جذبات کا خیال رکھنا بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ مساجد کو پولیس کارروائیوں سے بچانے کے لئے ہمیں قانون، رواداری اور اسلامی اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن اور مستقل حل اپنانا ہوگا۔ اگر ہم قانون کی پاسداری کریں، دوسروں کا خیال رکھیں اور اپنی ذمہ داریاں سمجھداری سے نبھائیں تو نہ صرف مسائل سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اسلام کے خوبصورت پیغام کو بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہی وقت کی ضرورت اور دانشمندی کا تقاضا ہے۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن (ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
 مسجد یں  آباد کرنے کی فکر 
 اگر حکومت چاہتی کم آواز ہو تو کوئی حرج بھی نہیں اس سے نہ تو اذان روکنے والی ہے نہ نماز۔ مسجدیں آباد کیسے کریں ؟اس کی ہمیں فکر کرنی چاہئے۔ 
کاغذی عاقل یوسف( بھیونڈی)

مسلمان جذبات سے کام نہ لیں 


مسلمانوں کو جذباتی ہونےکے بجائے پُرامن رہ کر قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ پہلے آئینی حقوق، مذہبی آزادی اور عدالتی فیصلوں کا مطالعہ کریں۔ صبر و دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کریں۔ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف مسلمان نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی کرتے ہیں، اسلئے اگر کسی ایک مذہب کو نشانہ بنایا جائے تو یہ امتیازی سلوک ہوگا۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ مسلمان قانونی راستے اختیار کریں جیسے کہ عدالت میں پٹیشن، انسانی حقوق کمیشن سے رجوع یا انتظامیہ سے بات چیت۔ ساتھ ہی علماء کرام، سماجی قائدین اور قانون دانوں کی ایک کمیٹی قائم ہو جومسلمانوں کی ایک آواز بنے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے آئینی حقوق کا تحفظ قانونی انداز سے کریں تاکہ سماجی ہم آہنگی بھی قائم رہے اور مذہبی آزادی بھی محفوظ رہے۔ 
رضوان ہمنوا سر ( ہاشمیہ ہائی سکول ممبئی)
معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے


مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پولیس کی کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو قانون کا احترام کرنا چاہئے اور حکومتی ہدایات کے مطابق لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا چاہئے، خاص طور پر نماز کےمقررہ اوقات میں۔ عبادات کی ادائیگی میں توازن اور آس پاس کے لوگوں کے آرام کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، تاکہ کسی کوکوئی تكليف نہ ہو۔ اگر کسی خاص موقع پر لاؤڈ اسپیکر کی زیادہ ضرورت ہو، تو متعلقہ اداروں سے پیشگی اجازت حاصل کرنی چاہئے۔ پولیس یا حکام سے تصادم کے بجائے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ اس کے مستقل حل کیلئے ضروری ہے کہ علمائے کرام، مسجد کمیٹیاں اور سرکاری ادارے آپس میں مشورے سے ایک ایسا ضابطہ بنائیں جو قانون، عبادات اورمذہبی و سماجی ہم آہنگی کو یکجا کرے، تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل نہ پیدا ہوں۔ 
عبید انصاری ہدوی( بھیونڈی)
متحد ہوکر عدالت سے رجوع ہوں 


مساجد میں لاوڈاسپیکر کے استعمال کے تعلق سے ملک کی کئی عدالتوں نے احکامات جاری کئے ہیں مگر سیاسی دباؤکےتحت آج پولیس مساجدسے لاوڈاسپیکر اُتارنے پربضد ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ انتخابی دنوں میں مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنےوالے لیڈران گوشہ نشین ہوچکےہیں۔ ایسے میں مساجدکے ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ حکمت عملی اور سوجھ بوجھ سے کام لیں اور مساجد میں کم آواز کا اسپیکر لگالیں تو بہتر ہے تاکہ فرقہ پرست جماعتوں کو ملک کےامن وامان، بھائی چارگی اورقومی ایکتا کو ختم کرنےکا موقع نہ مل سکے۔ اس کے ساتھ ہی بلا لحاظ مسلک و مکتب تمام مساجدکے ذمہ داران متحد ہوکر عدالت سے رجوع ہوں۔ اس بات کاخیال رکھیں کہ مذہبی جذبات سے کام لینےسے فرقہ پرستوں کو فائدہ ہوگا اور مسئلہ حل ہونےکےبجائے، اس میں اوراضافہ ہی ہوگا۔ 
ڈاکٹرشیخ نصیراحمد (پال گھر)
مسلمانوں کو قانونی سہارا لینا چاہئے


لاوڈ اسپیکر کے نام پرپولیس کی کارروائیوں سےمسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ صوتی آلودگی کے نام پر پولیس آواز کی سطح چیک کرتی ہے اور ذمہ داران سے طرح طرح کے سوالات کرتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اشتعال انگیزی سے بچنے کی کوشش کے ساتھ ہی قانونی سہارا بھی لینا چاہئے۔ ایڈوکیٹ یوسف مچھالا کی سربراہی میں رٹ پٹیشن بامبےہائی کورٹ میں داخل کی جا چکی ہے۔ اسی طرح کی رٹ پٹیشنز دیگر ریاستوں میں بھی داخل کی جانی چاہئے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء جیسی بڑی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے ملک کے نامور وکلاء (مثلاً دُشینت دوے، ابھیشیک منو سنگھوی، اندرا جے سنگھ اور کپل سبل وغيره) کی مدد سے ہائی کورٹس کے علاوہ سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کی جانی چاہئے۔ اس مسئلے کیلئے عدالتی/قانونی چارہ جوئی ہی مستقل حل ہو سکتا ہے۔ 
افتخار احمد اعظمی((سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
اس مسئلے کو صرف دفاعی نہیں بلکہ اصلاحی پہلو سے دیکھیں 


موجودہ حالات میں مسلمانوں کو جذبات کے بجائے شعور، اشتعال کے بجائے استحکام اور شکایت کے بجائے حکمت عملی کے ساتھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مسلمان اپنی عبادات اور دینی شعائر کی حفاظت کیلئے قانون کا سہارا لیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کیلئے باقاعدہ اجازت نامے حاصل کئے جائیں، آواز کی سطح کو قانون کے مطابق محدود رکھا جائے اور غیر ضروری اعلانات کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اس کےساتھ ہی ضروری ہے کہ مسلمان اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ مساجد کی انتظامی کمیٹیاں وقتی اور جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ علاقے کی تمام مساجد کے ذمہ داران باہمی مشورے سے متحدہ لائحۂ عمل طے کریں۔ ایسے علمائے کرام اور سماجی رہنما آگے آئیں جو انتظامیہ سے باوقار انداز میں بات چیت کر سکیں اور ہر ممکن حد تک کشیدگی سے بچیں۔ یہ بھی ایک اہم موقع ہے کہ مساجد میں صرف اسپیکر کی آواز کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نمازوں کی باجماعت ادائیگی اور صف بندی پر توجہ دی جائے۔ اگر پانچ وقت کی نماز میں زیادہ صفیں آباد ہوں، نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو تو مسجد کی اہمیت خود بخود اجاگر ہوگی۔ بیشک اذان سننا ایک فضیلت ہے مگر اذان پر لبیک کہنا اصل کامیابی ہے۔ مستقبل کا حل صرف قانونی چارہ جوئی یا وقتی احتجاج نہیں بلکہ منصوبہ بند، متحد اور باشعور حکمت عملی ہے۔ مسلم تنظیمیں، ائمہ کرام اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس مسئلے کو صرف دفاعی نہیں بلکہ اصلاحی پہلو سے دیکھیں۔ اذان صرف آواز کا نام نہیں، وہ ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو پائیدار رکھنے کیلئے کردار، اتحاد اور شعور کی ضرورت ہے نہ کہ صرف ردعمل اور شور کی۔ 
آصف جلیل احمد(چونابھٹّی، مالیگاؤں )
مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم قانون کا راستہ اختیار کریں 


مہاراشٹر میں خاص طور سے ان دنوں بی جےپی لیڈر مساجد سے لاوڈ اسپیکر ہٹانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس مہم میں کریٹ سومیا پیش پیش ہیں۔ لاوڈ اسپیکر یا صوتی آواز کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے بہت پہلے حکم دیا ہے کہ اسپیکر صبح ۶؍ بجے کے بعد اور رات ۱۰؍ بجے سے پہلے استعمال کریں اورمتعینہ سطح(ڈیسی بل) کی آواز کو برقرار رکھیں۔ اس فیصلے میں کہیں بھی لاوڈ اسپیکر کو ہٹانا نہیں کہا گیا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے کی اہم بات کہ’ہم وقت کی پابندی کریں اور نماز کا وقت ذہن میں رہے۔ ‘ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم قانون کا راستہ اختیار کریں۔ 
شاہد ہنگائی پوری علیگ(سکون ہائٹس، ممبرا)
تمام مذہبی اداروں کی پراپرٹی کے کاغذات درست کریں 


اس سلسلے میں ہمارا پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم مساجد، مکاتیب اور اپنے تمام مذہبی اداروں کی پراپرٹی کے کاغذات درست کریں۔ اگر وقف بورڈ میں سالانہ آڈٹ رپورٹ، چینج، پراپرٹی ٹيکس اور دیگر رپورٹ داخل کروانا باقی ہو تو اسے ترجیحی بنیادی پر مکمل کریں۔ اپنے اپنے علاقے کے پولیس اسٹیشن سے اجازت نامہ حاصل کر لیں۔ وقت بر وقت اسے رینیول کریں۔ علاقے کی بااثر غیرمسلم شخصیات سے مساجد کا تعارف کرائیں۔ نماز اور اذان کی اسلامی اہمیت و ضرورت سمجھائیں تاکہ ان کے دلوں میں بیٹھی غلط فہمی دور ہو۔ آج بھی دور دراز کے علاقوں میں غیرمسلم افراد فجرکی اذان پر اُٹھتے، مغرب میں کھانا کھاتے اور عشاء کے وقت سوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے گھروں میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی شفا یابی کیلئے مساجد کے باہر پانی لئے کھڑے رہتے ہیں اور نمازیوں سے اس پر دَم کراتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنے اپنے علاقے کے ایم ایل اے، ایم پی، وزیراور وزیراعلیٰ پر سیاسی طور پر دباؤ ڈالیں۔ ایک جانب جہاں یہ سب کریں وہیں دوسری جانب اسکول، کالج اوردواخانے جیسے سائلینٹ زون کے علاقوں میں لاؤڈ سپیکروں کی آواز کم رکھیں۔ اذان کو موبائل ایپ اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نشر کرنے کا طریقہ تلاش کریں۔ لاؤڈ اسپیکر کی اذان پرکم سے کم انحصار ہو۔ یہ لاؤڈ اسپیکر سے چھٹکارا پانے کا مستقل حل ہو سکتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم قانون کی پاسداری کریں اور اپنے حقوق کیلئے وہ تمام کام کریں جس کا حق ہمیں آئین نے دیا ہے۔ 
اسماعیل سلیمان(کرہاڈ خرد، پاچورہ، جلگاؤں )
پُر امن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے


لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہمیں قانون کے مطابق کرنا چاہئے۔ اگر اس کے بعدبھی حکومت کی جانب سے زیادتی ہوتی ہے تو پھر ہمیں پُر امن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رہے کہ ہمیں یہ کام علماء کرام اور ملی تنظیموں کی نگرانی میں رہ کر ہی کرنا چاہئے۔ بات احتجاج کی ہو یا پھر انتظامیہ سے مفاہمت، ہمیں اپنی مرضی سے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے کہ بعد میں علماء کرام اور ملی تنظیموں کو نقصان اٹھانا پڑے۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق(شاہو نگر جلگاؤں )
جذباتی نہیں بلکہ دانشمندانہ انداز میں معاملہ حل کریں 


سپریم کورٹ اور دیگر ریاستی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً لاوڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق گائیڈ لائنز جاری کی ہیں۔ ان میں شور کی سطح، وقت کی پابندی (جیسے رات۱۰؍ بجے سے صبح ۶؍ بجے تک ) اور اجازت نامہ جیسے نکات شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ قانون تمام مذاہب کیلئے برابر ہے، لیکن صرف مساجد کو نشانہ بنانا یا پولیس کا سخت اور غیر شائستہ رویہ مسلمانوں میں احساسِ محرومی پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں مسجد کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ لاوڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق انتظامیہ سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کریں اور وقت وقت پر اس کی تجدید بھی کراتے رہیں۔ 
اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معزز افراد، علما اور سوشل ورکرز انتظامیہ اور پولیس سے ملاقات کر کے مساجد کی اہمیت اور آداب بتائیں اوراس کے بعد بھی اگر کوئی شکایت ہو تو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنےکی کوشش کریں۔ اسی کے ساتھ مقامی جماعتوں، علما بورڈ اور ملی و سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ ریاستی سطح پر پالیسی بنائیں، قانونی مدد کیلئے وکلاء کی ٹیم تیار رکھیں اور غیر ضروری کارروائیوں کو چیلنج کریں۔ خیال رہے کہ اذان ایک اہم عبادت ہےجس کا احترام واجب ہے، لیکن دیگر اعلانات، بیانات اور خطبات وغیرہ کے وقت آواز کی سطح پر کنٹرول بھی ضروری ہے تاکہ ہمسایوں اور غیر مسلم شہریوں کو پریشانی نہ ہو۔ مسئلے کا حل قانون شکنی یا احتجاج نہیں بلکہ بیداری، تدبر، مفاہمت اور قانونی دائرے میں رہ کر جدوجہد ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس حساس مسئلے کو جذباتی نہیں بلکہ دانشمندانہ انداز میں سنبھالیں اور اپنے کردار اور اخلاق سےپیغام دیں کہ مسلمان امن کے داعی ہیں۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(ایجوکیشنل اینڈ کریئر کونسلر، صمدیہ ہائی اسکول، بھیونڈی)
ترجیحات طے کرنا اور قانون کی پاسداری ضروری ہے


ہم جانتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے معاملے پر اب اتنی سیاست کیوں گرمانے لگی؟ سیاسی فضا میں تبدیلی سے بہت کچھ بدلتا ہے اور جو تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کرتا ہے، وہ ہر مسئلے کا مناسب حل تلاش کر ہی لیتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں ہمیں اسی طرح کی مصلحت اختیار کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے آواز کی ایک حد طے کی ہے۔ صبح۶؍ تا رات۱۰؍ بجے رہائشی علاقوں میں یہ حد ۵۵؍ ڈیسیبل اور رات۱۰؍ کے بعد۴۵؍ ڈیسیبل ہونی چاہئے۔ اسی طرح کمرشیل اور انڈسٹریل علاقوں میں آواز کی حد الگ ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں فی الوقت ہمارا بڑا مسئلہ اذان کا ہے۔ فجر کی نماز کے علاوہ دیگر نمازوں کے وقت یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں اگر مقررہ حدود میں اسپیکر کا استعمال کیا جائے۔ نماز، تقاریر یا دیگر تقریبات کیلئے بھی ہمیں از خود اس کی پابندی کرنی چاہئے۔ ہم شاہد ہیں کہ الگ الگ موقعوں پر تیز آواز سے ڈی جے، مائک پرتقریر اور راستوں میں منعقد جلسوں میں چلنے والے اسپیکر س عوام الناس کیلئے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ کوئی دوسرا غلط کررہا ہے اسلئے ہمارا غلط کرنا جائز ہے، اس تصور سے باہر آنا ضروری ہے۔ ہمیں قانون کی پاسداری کو یقینی بناناہوگا۔ ٹیکنالوجی نے چیزوں کو انتہائی آسان کردیا ہے۔ کئی مثالیں مل جائیں گی جہاں جمعہ کا خطبہ اب یوٹیوب پر لائیو نشر کیا جاتا ہے، محلوں میں دینی ریڈیو چینل کے ذریعہ آسانی پیدا کرلی گئی ہے۔ موبائیل اپلی کیشن کے ذریعے مختلف مساجد کی نمازوں کے اوقات یا اذان کی لائیو نشریات کا نظم قائم کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اب لاؤڈ اسپیکر ہی واحد ذریعہ نہیں ہے۔ 
مومن فہیم احمد عبدالباری (لیکچرر صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے
ملک میں مسلمانوں کو پریشان کرنے کا ایک سلسلہ بن چکا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہم اورآپ روزانہ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ لاؤڈ اسپیکرکے استعمال میں شریعت اور قانون دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ ایسے معاملات میں جذبات سے نہیں بلکہ سمجھ بوجھ سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ مساجد میں ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے جس کے ذریعے اذان کیلئے جدیدساؤنڈ سسٹم کا استعمال کیا جائے۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق وطن عزیز کے رہائشی علاقوں میں مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کیلئے آواز کی سطح دن میں ۵۵؍ اور رات میں ۴۵؍ ڈیسی بل ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اسپیکر کو صرف اذان اور اہم اعلانات تک محدود رکھا جائے۔ 
قریشہ بیگم ( بھیونڈی)
مقررہ حد سے زیادہ آواز نہ رکھیں 


مسجدکے ذمہ داران کو چاہئے کہ لاوڈ اسپیکر سے متعلق کاغذی کارروائی اور اجازت نامہ ضرور حاصل کریں اور ہر تین ماہ بعد اس کی تجدید بھی کرائیں۔ عدالت کے ذریعے طے کردہ آواز کی مقررہ حد سے زیادہ آواز نہ رکھیں۔ اس کے بعد بھی پولیس اگر کارروائی کے نام پر پریشان کرے تو فوراً متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افسران سے رجوع کریں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جدیدتکنیکی آلات جیسے آن لائن اذان، ایپ یا پھر بلیو ٹوتھ اسپیکر سے بھی مسجد کے اطراف اور محلہ میں اذان ہر گھر تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ 
عارف محمد خان(جلگاؤں )

اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے بہار کے الیکٹورل افسر کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس کے مطابق بہار کے ووٹر لسٹ کی باریک بینی سے جانچ ہوگی اور اس جانچ کے بعد جو فہرست ترتیب دی جائے گی، وہی لوگ اسمبلی انتخابات میں ووٹ دے سکیں گے۔ اس تعلق سے اپوزیشن اور عوام میں کافی ناراضگی پائی جارہی ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ: 
بہار میں انتخابی فہرست کی جانچ کے اعلان پر عوام میں کس طرح کے خدشات ہیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۱۳؍ جولائی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK