Inquilab Logo

جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج اور ملک کی بدلتی سیاسی فضا

Updated: December 29, 2019, 5:00 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ریاست کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح قبائلی اورمسلم طبقے کے درمیان رشتے قائم ہوئے ہیں، اگر اس سماجی بندھن کو مستحکم کرنے کی جانب قدم آگے بڑھایا جا تا رہا تو جھار کھنڈ میں ایک نیا سماجی معاشرہ بھی تشکیل ہو گا اور اس کے اثرات پڑوسی ریاستوں پر بھی پڑیں گے۔ اسلئے ضروری ہے کہ سماجی سطح پر اس طرح کی کوششوںکا ابھی سے آغاز ہوجائے۔

جے ایم ایم ،کانگریس اور آر جے ڈی لیڈران ۔ تصویر : پی ٹی آئی
جے ایم ایم ،کانگریس اور آر جے ڈی لیڈران ۔ تصویر : پی ٹی آئی

پارلیمانی انتخابات کے بعد جہاں کہیں بھی اسمبلی  انتخابات ہوئے ہیں، وہاں حکمراں جماعت  بی جے پی کو مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ہریانہ میں جوڑ توڑ کی بدولت کھٹر حکومت دو بارہ بن گئی ہے لیکن وہاں بھی وه پہلے کی طرح زعفرانی ایجنڈوں کو پورا کرنے کی حالت میں نہیں ہے کیونکہ اس کی اتحادی جماعت نے نکیل کس رکھی ہے۔مہاراشٹر میں اس کا جو حشر ہوا وه ہم دیکھ رہے ہیں۔اسلئے اب  بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ صرف اور صرف ہندوتوا   ایجنڈوں یعنی فرقہ وارانہ شدت پسندی کو فروغ دے کر ملک کے عوام کو مشتعل کرے اور دیگر بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹا کر اپنا سیاسی مفاد پورا کرے ۔
   ایسے میں جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتیجے نے اس کے ہوش اُڑا دیئےہیں۔ ان نتائج سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اب ملک کے عوام ان کے جھانسے میں نہیں آنے وا لے ہیں اور وہ  ہندوتوا  کے ایجنڈے کو بھی رد کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے تھوڑا پہلے شہریت ترمیمی بل کا شوشہ چھوڑا گیا اور درمیان ہی میں  اسے ایکٹ کی شکل دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی نریندر مودی اور امیت شاہ سے لے یوگی آدتیہ ناتھ تک نے جس طرح فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی، وه جگ ظاہر ہے۔ وزیراعظم نے مسلمانوں کےپوشاک کی طرف اشارہ کیا تو یوگی نے اعلانیہ کہا کہ اگر عرفان انصاری جیت گیا تو مندر کیسے بنے گا؟یہ اور بات ہے کہ عرفان انصاری۳۵؍ ہزار سےزائد ووٹوں سے انتخاب جیت گئے۔
 یہاں یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات کے دوران اس طرح کی فرقہ وارانہ تقریر کی اجازت نہیں ہے لیکن انتخابی کمیشن خاموش تماشائی بنا  رہا۔ اس طرح کی ماحول سازی  اس سے قبل  لوک سبھاالیکشن میں بھی کی گئی تھی اور تب بھی کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی ۔ اُس وقت بھی  اس نےخاموش تماشائی ہی کا رول ادا کیا، جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔یہ رویہ ہماری جمہوریت کیلئے بہت زیادہ خطرناک ہے ۔
 بہر کیف!تمام تر سیاسی شطرنجی چالوںکے باوجود عوام نے  بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور عظیم اتحاد کو عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔اب جھار کھنڈ میں جھار کھنڈ مکتی مورچہ،  کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی حکومت بن گئی ہے۔ یہ اتحاد واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔یہ نتیجہ کئی معنوں میں تاریخی ہے کہ جب سے جھار کھنڈ ریاست کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب جھار کھنڈ مکتی مورچہ کو  تنہا ۳۰؍ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں ۔پہلی مرتبہ۲۰۰۵ء میں پارٹی کو۱۷؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ۲۰۰۹ء میں۱۸؍ اور۲۰۱۴ء میں۱۹؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اُس وقت گرو جی یعنی  شیبو سورین جی کی قیادت تھی لیکن اب کار گزر صدر ہیمنت  شورین نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔اس میں یہ بات خصوصی توجہ دینے کی ہے کہ ریاست کے ۸۱؍ اسمبلی حلقوں میں۲۸؍ سیٹیں درج فہرست قبائل یعنی آدیواسی کیلئے مخصوص ہیں اور ان میں سے۲۶؍ سیٹیں جے ایم ایم کو ملی ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بی جے پی حکومت سے آدیواسی کتنے خفا ہیں؟ بی جے پی کو اس سے بری شکست اور کیا ملے گی کہ اس کے وزیر اعلیٰ رگھوبرداس خود اپنی سیٹ بھی نہیں بچا پائے اور پارٹی کے ریاستی صدر چھٹے درجہ پر رہے ۔
 اس انتخابات میں بھی وه تمام سیاسی حربے استعمال کئے گئے تھے جو  بی جے پی اکثرکرتی رہی ہے۔ مثلاً۸۱؍ سیٹوں پر پانچ مرحلوں میں انتخابات کے عمل کو پورا کرنے کا فیصلہ بھی صرف اسلئے کیا گیا کہ تاکہ وزیر عظم سے لے کر تمام مرکزی وزرا اور آر ایس ایس کو اپنی پوری طاقت لگانے کا  موقع مل جائے۔ اور ایسا ہوا بھی کہ مودی جی  کے ۹؍ انتخابی جلسے ہوئے  جبکہ وزیرداخلہ امیت شاہ  نے۱۵؍ ریلیاں کیں.....لیکن عوام نے اپنے فیصلے سے یہ ثابت کر دیا کہ کاٹھ کی ہانڈی بار بار نہیں چڑھتی۔ عوام کو بہت دنوں تک مذہبی جنون میں پاگل نہیں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ایک انسان کیلئے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بھاشن نہیں راشن چاہئے ۔
 ایک شخص نے بہت اچھی بات کہی کہ بی جے پی مندر بنانے کی بات تو کرتی ہے لیکن بھگوان کو لڈو یعنی مٹھائی کی بات نہیں کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ عوام کو روزگار چاہئے اوراس کے جو بنیادی مسائل ہیں، ان کا حل  چاہئے لیکن بی جے پی اس کے بجائے دوسرے مسائل پر بات کرتی ہے اورچاہتی ہے کہ عوام اسی دُھن پر رقص کریں۔جھار کھنڈ میں ہجومی تشدد کے واردات نے بھی وہاں عوام کو پریشان کر رکھا تھا کیونکہ بی جے پی حکومت سے قبل اس طرح کا وہاں ماحول پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس حکومت کے دوران آدیواسیوں کو بھی جس طرح پریشاں کیا گیا ،اس کی وجہ سے بھی ان میں کافی غم و غصّہ تھا۔
 اس انتخابی نتیجے میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو بھی سبق لینے کا موقع ہے کہ اگر وہ اپنے ووٹ کے انتشار کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو قومی منظر نامہ بدل سکتا ہے۔جھار کھنڈ میں کانگریس کی اچھی کارکردگی رہی ہے کہ اس نے اتحاد قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور دیگر سیاسی جماعتوں کو قریب کیا۔اس دوران  رام ولاس پاسوان نے مسلم ووٹ کو منتشر کرنے کی کافی سازشیں کیں مگر وه اپنے اس ناپاک ارادے میں بری طرح ناکام رہے۔ ریاست میں اس کا کھاتا بھی نہیں کھلا۔
 نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل متحدہ کو بھی صفر ہی ہاتھ آیا ۔اس نتیجے سے یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اب مودی کا طلسم ختم ہو چکا ہے اور سنگھ کی سازشوں کا  زہر بھی ناکام ہوا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی فضا پیدا ہوئی ہے اور نوجوانوںکی تحریک آزادی یعنی تمام غیر جمہوری عمل کے خلاف بندی ہوئی ہے، اس تحریک کو زندہ رکھا جائے کہ ملک کی سالمیت کیلئے یہ قدم لازم ہے۔اس تحریک انصاف نے فرقہ واریت کے زور کو بھی کم کیا ہے کیونکہ نئی نسل کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے ۔ایک عرصے کے بعد اس ملک کا نوجوان بیدار ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ پیغام عام ہورہا ہے کہ  یہ بیداری ملک میں ایک نئی صبح لائے گی ۔
 اس اسمبلی انتخابات میں جس طرح قبائلی طبقے اور اقلیت مسلم طبقے کے درمیان رشتے قائم ہوئے ہیں، اگر اس سماجی بندھن کو مستحکم کرنے کی جانب قدم آگے بڑھایا جا تا رہا تو جھار کھنڈ میں ایک نیا سماجی معاشرہ بھی تشکیل ہو گا اور اس کا اثر پڑوسی ریاستوں پر بھی پڑے گا۔ اسلئے ضروری ہے کہ سماجی سطح پر بھی اس کی کوشش جاری رہے۔ اس کے ساتھ ہی فرقہ پرستوں سے  ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس دوران فرقہ واریت کی چنگاری کو ہوا دینے کی بھی کوشش ہوتی رہے گی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK