Inquilab Logo

جبریل امینؑ نے آپ ؐؐ کو امام حسین ؓ کی شہادت اورکربلاکے واقعات کی اطلاع دی تھی

Updated: August 09, 2022, 12:22 PM IST | Mufti Muhammad Mujahid Hussain Habibi | Mumbai

ہاں حسینؓ! جو نواسہ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، علی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور حسن مجتبیٰ کے پیارے ہیں ،جو سید شہداء اور میدانِ کربلا میں اپنا سب کچھ دین اسلام پر قربان کرنے والے ہیں،جنہوں نے صبح قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو حق پر مر مٹنے کا جذبہ دیا جن کا جینا اور قربان ہونا سب اسلام ہی کے لیے تھا۔ آئیے اس حسینؓ ابن علیؓ کے حالات زندگی کے چند گوشے ملاحظہ کریں ۔

 Pilgrims are engaged in prayers in a mosque adjacent to Imam Hussain`s grave in Iraq..Picture:Agency
عراق میں روضہ امام حسین ؓ سے متصل مسجد میں زائرین دعاؤں میں مصروف ہیں۔ ۔ تصویر:ایجنسی

ہاں حسینؓ! جو نواسہ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، علی کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور حسن مجتبیٰ  کے پیارے ہیں ،جو سید شہداء اور میدانِ کربلا میں اپنا سب کچھ دین اسلام پر قربان کرنے والے ہیں،جنہوں نے صبح قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو حق پر مر مٹنے کا جذبہ دیا  جن کا جینا اور قربان ہونا سب اسلام ہی کے لیے تھا۔ آئیے اس حسینؓ ابن علیؓ کے حالات زندگی کے چند گوشے ملاحظہ کریں ۔
ولادت : ۵؍شعبان المعظم ۴؍ہجری  پیر کے دن مدینہ منورہ میں آپؓ کی ولادت ہوئی۔ نام نامی:حضور اکرمؐ نے آپ کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت فرمائی پھر وحی الٰہی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کے نام پر شبیر یعنی حسینؓ رکھا۔ ساتویں روز دو مینڈھوں کو ذبح کرکے عقیقہ کیا اور سر کے بال اترواکر بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی۔
جبرئیل امین کا بارگاہ رسول خدا میں مبارک باد اور تعزیت کے لئے آنا: جب سیدنا امام حسینؓ پیداہوئے تو بعض روایتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو حکم دیا کہ وہ حضور اقدسؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مبارک بادی پیش کریں ساتھ ہی تعزیت بھی کریں۔ چنانچہ جبرئیل امین اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حاضر بارگاہ ہوئے اور مبارک بادی پیش کرنے کے بعد کلمات تعزیت کہنے لگے۔ اس پر امام الانبیا ؐ نے جبرئیل سے فرمایا اس موقع پر مبارک باد پیش کرنا تو صحیح ہے مگر تعزیت کی وجہ کیا ہے؟ جبرئیل امین نے عرض کیا :یا رسولؐ اللہ آپؐ کی امت آپ کے بعد حسین کو ظلم و جفاکاشکار بناکر شہید کرے گی پھر کربلا میں رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کیا جسے سن کر آپؐ  آب دیدہ ہوگئے۔ 
شہادت کی خبر اور قربان گاہ کا پتہ بتانا: حضرت امام حسینؓ کی ولادت کے ساتھ ہی ان کی شہادت کی خبربھی مشہور ہوچکی تھی۔ چنانچہ حضرت ام فضل فرماتی ہیں کہ ایک دن میں حضور اقدسؐکی بارگاہ میں حضرت حسینؓ کو لے کر حاضر ہوئی اور حسینؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا ۔کیا دیکھتی ہوں کہ حضور کی آنکھوں سے اشک رواں ہیں ۔حضرت ام فضل نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ، آپ اشک بار کیوں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ’’میرے پاس جبرئیل آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے بیٹے حسینؓ کو قتل کردے گی اور مجھے اس جگہ کی کچھ سرخ مٹی لاکردی۔ ‘‘(خصائص الکبریٰ)
  ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اقدسؐ نے مجھے وہ سرخ مٹی دیتے ہوئے فرمایا ’’اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین شہید ہوگیا ہے۔ حضرت ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک شیشی میں رکھ لیا۔‘‘ (خصائص الکبریٰ) 
 ان کے علاوہ بھی کئی ایک روایات سے معلوم ہو تاہے کہ ولادت امام حسینؓ کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر بھی عام ہو چکی تھی مگر جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰؐ نے اس واقعہ کے ٹلنے کی دعانہ کی جب کہ امام الانبیا کو اللہ تعالیٰ نے یہ منصب دے رکھا تھا کہ آپ چاہیں تو چاند کا سینہ چرجائے، ڈوبا ہوا سورج نکل آئے، انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ جائیں، تمام اختیارات کے باوجود آپؐ اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ نے اس آزمائش سے خلاصی کی دعا نہیں مانگی بلکہ اس بات کی دعا کی کہ مولیٰ میرے حسین کو آزمائش و امتحان میں صابر و شاکر رکھنا۔ کیونکہ ان کے پیش نظر قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تھی...ترجمہ :’’کیا لوگ اس وہم میں ہیں کہ یہ کہہ دینے پر انہیں چھوڑ دیا جائے گاکہ ہم ایمان والے ہیں اور ان کی آزمائش نہیںہوگی۔‘‘ (سورہ عنکبوت) ۔ 
مقام امام حسینؓ : سیدالشہدا حضرت امام حسینؓ کو حضور اقدسؐ کی بارگاہ میں کیا حیثیت حاصل تھی اسے ان احادیث سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اسے محبوب رکھے گا جو حسین سے محبت کرے گا، (مشکوٰۃ )۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا :حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ (مشکوٰۃ ) ایک اور حدیث میںہے کہ رسولؐاللہ  نے ارشاد فرمایا:  بے شک حسن اور حسین دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔(مشکوٰۃ ) 
نواسے پر بیٹا قربان فرمادیا: ایک دن حضورؐ اپنے نواسہ حضرت حسینؓ کو دائیں بازو میں اور لخت جگر حضرت ابراہیم کو بائیںبازو میں لیے ہوئے تھے کہ جبریل امینؑ حاضر بارگاہ ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو آپ کے پاس یکجا رہنے نہیں دے گا۔ ا ن میں سے ایک کو واپس بلالے گااس لیے آپ جسے چاہیں پسند فرمالیں۔ آپؐ  نے فرمایا: اگر حسین جدا ہوجائیں گے تو اس کا صدمہ فاطمہؓ و علیؓ اور مجھے بھی ہوگا جب کہ ابراہیمؓ اگر رخصت ہوئے تو اس کا رنج صرف مجھ ہی کوہوگا اس لیے مجھے یہ پسند ہے کہ فاطمہ و علی کی جگہ میں ہی لخت جگر ابراہیم کی جدائی کا غم سہوں۔ اس واقعہ کے تین دنوں کے بعد حضرت ابراہیمؓ وصال فرماگئے۔ ۔ (شواہد النبوۃ) 
سخاوت : ایک مرتبہ ایک ضرورت مند  امام حسین ؓ  کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں غریب آدمی ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو بھوکے ہیں۔ آپؓ نے اس ضرورت مند سے فرمایا بیٹھ جائو تھوڑی دیر میں میرے پاس رقم آنے والی ہے، چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت امیر معاویہؓ کا فرستادہ آپ کے پاس پانچ تھیلیاں لے کر آیا جن میں سے ہر ایک میں ایک ایک ہزار درہم تھے۔ آپ نے اس ضرورت مند سے فرمایا : پانچوں تھیلیوں کو اٹھالو پھر معذرت چاہی کی اس حقیر سی رقم کیلئے میں نے تمہیں کافی دیر بٹھا رکھا تھا۔ (کشف المحجوب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK