Inquilab Logo

’’تمہارے پاس قبیلہ ٔعبد القیس کا وفد آرہا ہے، یہ اہل مشرق کے بہترین لوگ ہیں‘‘

Updated: March 08, 2024, 1:16 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں بارگاہِ نبویؐ میں مختلف وفود کی آمد کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں کئی وفود کی آمد کی تفصیل پڑھئے جس میں آپؐ کے قبیلے کے لوگ بھی تھے اور دوردراز کے علاقوں والے بھی۔ آپؐ نے ہر وفد کی بہترین تواضع فرمائی اور انہیں تحائف سے نوازا ۔ کئی وفود نے آپؐ سے قحط سالی کے خاتمے اور بارش کیلئے دعا کی درخواست کی ، آپؐ نے ان کیلئے دعائیں کیں ، یہ معجزۂ نبویؐ بھی ملاحظہ کیجئے جب تھوڑی سی کھجور سب کیلئے کافی ہو گئی۔

The presence of pilgrims and pilgrims in the shrine of the Prophet (PBUH) and the flow of blessings from here will continue till the Day of Resurrection. Photo: INN
بارگاہِ نبویؐ میں زائرین اور معتمرین کی حاضری اور یہاں سے فیضیاب ہونے کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ تصویر : آئی این این

بارگاہِ نبویؐ میں کچھ اور وفود
سیرت کی کتابوں میں کچھ اور وفود کا تذکرہ بھی ملتا ہے، مثال کے طور پر قبیلۂ بنی عبد القیس کا وفد فتح مکہ سے کچھ قبل سن آٹھ ہجری میں حاضر ہوا، ان کی آمد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس قبیلۂ عبد القیس کا وفد آرہا ہے، یہ اہل مشرق کے بہترین لوگ ہیں، نہ عہد شکن ہیں، نہ بدلنے والے ہیں اور نہ شک میں پڑنے والے ہیں۔ سن پانچ ہجری میں مُضَر کی شاخ مُزَینہ کا وفد حاضر ہوا تھا، اس وفد میں چار سو افراد تھے، واپسی کے وقت ان لوگوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ زاد راہ عنایت کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ انہیں زاد راہ دو۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میرے پاس تھوڑی سی کھجوریں ہیں، اتنے لوگوں کے لئے کافی نہیں ہوں گی، آپ نے فرمایا: جاؤ، انہیں دے دو، حضرت عمرؓ انہیں لے کر بالا خانے پر پہنچے، دیکھا تو اونٹ کے وزن کے برابر کھجوروں کا ڈھیر موجود ہے، وفد کے تمام اراکین نے اپنے تھیلے بھر لئے، حضرت نعمان، جو وفد میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ میں لینے والوں میں بالکل آخری فرد تھا، میں نے دیکھا کہ سب نے کھجوریں حاصل کرلیں اور کھجور کا ڈھیر جوں کا توں موجود رہا۔ علامہ زرقانیؒ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو معجزے ظاہر ہوئے، ایک تو یہ کہ تھوڑی کھجوریں ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگئیں، دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ سب نے ضرورت کے مطابق کھجوریں لیں مگر اس ڈھیر میں سے ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہم اسلام کی رسّی سے بندھے ہوئے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی ندامت نہیں ہے

سن نو ہجری کی ابتدا میں بنو اسد کا وفد حاضر خدمت ہوا جو دس افراد پر مشتمل تھا، ابن عامر نے عرض کیا کہ ہم آپؐ کے پاس قحط کے سال، انتہائی تاریک راتوں میں سفر کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حالاں کہ آپؐ نے ہمارے پاس کوئی نمائندہ بھی نہیں بھیجا تھا، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی:’’یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ فرما دیجئے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اﷲ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے۔ ‘‘ (الحجرات:۱۷) 
یمامہ کے رہنے والے بنو عَبْس کے نو افراد بھی حاضر خدمت ہوئے تھے، ان کا شمار اوّلین مہاجرین میں ہوتا ہے، یہ حضرات مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپؐ نے ان کے لئے دعائِ خیر فرمائی اور یہ ارشاد فرمایا کہ تم ایک اور شخص تلاش کرو تاکہ تم تعداد میں دس ہوجاؤ اور میں تمہیں ایک جھنڈا دے دوں۔ اتنے میں حضرت طلحہ بن عبد اللہؓ تشریف لے آئے، آپؐ نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا اور ان کا نشان عشرہ (دس) متعین فرمایا۔ تبوک سے واپسی کے بعد بنو فزارہ کا وفد بھی حاضر خدمت ہوا، اس میں دس افراد شامل تھے، خارجہ بن حصن ان کی قیادت کررہے تھے، یہ لوگ دبلی پتلی اور کم زور اونٹنیوں پر سوار ہوکر تشریف لائے تھے، ان تمام لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ ہمارے لئے دُعا فرمادیں، ہم خشک سالی اور قحط کی زد میں ہیں، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے ہیں، کھیتیاں خشک اور ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دُعا فرمائی ’’اے اللہ! اپنے شہروں اور چوپایوں کو سیراب فرما، اپنی رحمت عام فرما، اپنے مردہ شہر وں کو زندگی عطا فرما، اے اللہ! ہمیں جلد از جلد سیراب کرنے والی، خوش گوار، تازگی بخش، وسیع اور ہمہ گیر بارش عطا فرما، جو فائدہ بخش ہو، نقصان پہنچانے والی نہ ہو، اے اللہ! ہمیں رحمت کی بارش عطا فرما، جو عذاب الٰہی کا سبب نہ ہو، جس سے مکانات نہ گریں، جو لوگوں کو غرق کرنے والی اور فنا کرنے والی نہ ہو، دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔ ‘‘ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی اس دعا کے بعد اس قدر بارش ہوئی کہ چھ دن تک آسمان نظر نہیں آیا، جب وادیاں جل تھل ہوگئیں تب آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اور آپؐ نے یہ دُعا فرمائی: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش ہو، ہم پر نہ ہو، ٹیلوں، پہاڑیوں، وادیوں اور جنگلوں میں بارش ہو‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا بھی قبول فرمائی اور مدینہ طیبہ سے ابر اس طرح ہٹ گیا جس طرح کپڑا کسی چیز پر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ 
بنو مرہ کا تیرہ نفری وفد بھی غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے سردار حارث بن عوف بھی اس وفد میں شامل تھے، ان تمام لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا، انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم آپؐ کی قوم اور قبیلے سے رکھتے ہیں، ہم لؤی بن غالب کی اولاد ہیں۔ آپؐ یہ بات سن کر مسکرائے اور ان کے اہل وعیال کے متعلق دریافت فرمایا کہ ان کو کہاں اور کس حال میں چھوڑا ہے، انہوں نے عرض کیا ہمارے اہل وعیال سلاح اوراس کے قرب وجوار میں رہتے ہیں، آج کل ہم لوگ خشک سالی کا شکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی اور حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ سب کو ہدیہ دیں، چناں چہ انہوں نے وفد کے تمام افراد کو دس دس اوقیہ (چارسو درہم کے بہ قدر) چاندی دی۔ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بارش کی دُعا کی تھی اسی روز بارش ہوگئی۔ 
سن آٹھ ہجری میں قبیلۂ ثعلبہ کے چار افراد حاضر خدمت ہوئے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنی قوم کے نمائندے ہیں، ہم اور ہماری قوم کے افراد اسلام لاچکے ہیں۔ آپؐ نے ان کی ضیافت کا حکم دیا۔ چند روز قیام کرنے کے بعد وہ لوگ واپس چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں کو بھی دو دو سو درہم کے بہ قدر چاندی عنایت فرمائی۔ قبیلہ ٔ محارب کا وفد بھی دس ہجری میں حاضر ہوا، اس میں دس افراد تھے، انہیں رملہ بنت حارث کے گھر ٹھہرایا گیا۔ حضرت بلالؓ کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ان لوگوں کو صبح وشام کھانا پہنچائیں۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھے، ان میں سے ایک شخص کو آپؐ نے پہچان لیا۔ اس نے عرض کیا: میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس وقت تک زندہ رکھا کہ میں آپؐ پر ایمان لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام قلوب اللہ تعالیٰ کے دست تصرف میں ہیں۔ آپؐ نے حضرت خزیمہ بن سواءؓ کے چہرے پرد ست شفقت پھیرا، وہ روشن اور چمک دار ہوگیا۔ 
بنو کلب کا ایک وفد سن نو ہجری میں بار گاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوا، ان میں لبید ابن رہن ربیعہ اور جبار ابن سلمی تھے۔ آپؐ نے انہیں بھی رملہ بنت حارث کے گھر پر ٹھہرایا، حضرت جبار حضرت کعب بن مالک کے دوست تھے، وہ اپنے دوست کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، سلام پیش کیا اور عرض کیا یارسولؐ اللہ! ضحاک بن سفیان ہمارے پاس آپؐ کا نمائندہ بن کر تشریف لائے، انہوں نے ہمارے سامنے اللہ کی کتاب اور آپؐ کی سنت پیش کی، ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے حکم کی تعمیل میں مسلمان ہوگئے، انہوں نے ہمارے مال داروں سے صدقہ لیا اور ہمارے غریبوں میں تقسیم کردیا۔ 
بنو عقیل بن مالک کا وفد بھی آیا، اس وفد میں یہ حضرات تھے: ربیع بن معاویہ، مطرف ابن عبد اللہ اور انس بن قیس، ان حضرات نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو عقیل کا علاقہ؛ عقیق عطا فرمایا۔ یہ وہ مقام تھا جس میں کھجوروں کے باغات اور چشمے بہ کثرت تھے۔ رسول اللہ ﷺنے انہیں ایک تحریر بھی عطا فرمائی، جس میں لکھا تھا کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ نے ربیع، مطرف اور انس کو مقام عقیق عطا فرمایا ہے جب تک وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں، احکام سنیں اور ان کی اطاعت کریں، انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا گیا۔ 
قبیلۂ بنو البکّاء کا ایک وفد سن نو ہجری میں حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی اچھی طرح مہمان نوازی کی جائے۔ آپؐ نے بوقت ِرخصت ان حضرات کو عطیات سے بھی نوازا۔ وفد کے ایک رکن حضرت معاویہ ابن ثور ۱۰۰؍ (سوَ) برس کے تھے، انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں بوڑھا ہوچکا ہوں، میرے اس بیٹے نے میری بڑی خدمت کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپؐ اس کے سر اور چہرے پر دست شفقت پھیر دیں۔ آپؐ نے اپنا دست مبارک اس کے چہرے اور سر پر پھیرا، اور انہیں چند بکریاں عنایت فرمائیں۔ حضرت سعد بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات پورا قبیلہ خشک سالی میں مبتلا ہوجاتا تھا لیکن حضرت معاویہ ابن ثورؓ کا گھرانہ اس سے ذرا بھی متاثر نہ ہوتا تھا۔ 
تبوک کی طرف روانگی کی تیاری تھی کہ حضرت واثلہ بن اثقعؓ مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، اور آپؐ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی سعادت حاصل کی، آپؐ نے فرمایا: تم کون ہو، اور کس غرض سے یہاں آئے ہو۔ انہوں نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! میں قبیلہ ٔ بنی کنانہ سے تعلق رکھتا ہوں اور آپؐ پر ایمان لانے کے مقصد سے حاضر ہوا ہوں، آپؐ نے ان کو بیعت فرمایا، اور شریعت کے احکام بتلائے۔ واثلہؓ ایمان لانے کے بعد واپس چلے گئے۔ 
یہاں صرف چند وفود کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کے علاوہ بھی نو اور دس ہجری میں بے شمار وفود آئے، ان میں بنو عبدابن عیدی، قبیلۂ اشجع، قبیلۂ باہلہ، بنو سُلیم، بنو ہلال ابن عامر، بنو ثقیف، بنو بکر بن وائل، بنو تغلب، بنو شیبان، بنو تجیب، بنو خولان، بنو جعفی، بنو صُداء، بنو صَدَف، بنو خُشَین، بنو سعد، ھُذیم، بنو بلّی، بنو بہرا، بنو عذرہ، بنو سلامان، قبیلۂ جہنیہ، بنو کَلب، بنو جرم، قبیلۂ غسّان، بنو بَحَیْلہ، قبیلۂ اشعریین، حضرت موت، اذعمان، غافق، بارق، دوس، ثُمالہ، حُدّان، بنو خشمعم، قبیلۂ اسلم، قبیلہ ٔمرہ، قبیلۂ جیشان وغیرہ قبائل کے وفود بھی مدینہ طیبہ پہنچے، اور رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کی زیارت و ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔ ان قبائل کے وفود نے اسلام بھی قبول کیا، اور سمع وطاعت کا عہد بھی کیا۔ آپؐ نے تمام وفود کو اچھے سے اچھے گھروں میں ٹھہرایا، ان کے کھانے پینے کے بہتر سے بہتر انتظامات کئے، تمام وفود مسلمان ہوکر واپس گئے اور اپنی اپنی قوموں کے اسلام لانے کا ذریعہ بنے۔ ان وفود کی آمد سے اسلام پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گیا، اور چند نفوس کا جو قافلہ دس سال قبل مکہ مکرمہ سے نکل کر یثرب کی جانب خفیہ طور پر رواں ہوا تھا وہ اس عرصے میں لاکھوں افراد کے کارواں میں تبدیل ہوگیا۔ اسلام تمام لوگوں کا پسندیدہ مذہب بن گیا، مشرکین، یہود اور نصاریٰ کے بڑے بڑے گروہ اللہ کی وحدانیت اور رسولؐ اکرم کی رسالت کے آگے سرنگوں ہوتے نظر آئے۔ سن ۱۰؍ ہجری میں مسلمانوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ، منی، عرفات اور مزدلفہ کی وادیوں میں انسانی سروں کا سمندر اس حیرت انگیز اور برق رفتار اضافے کا ایسا ثبوت پیش کرتا ہے جس پر پوری دنیائے انسانیت آج تک انگشت بہ دنداں ہے۔ (مضمون: ’’بار گاہِ رسالت میں حاضر ہونے والے وفود‘‘ ماہنامہ نقوش سیرت نمبر: ۷/۶۹۴، ۷۲۰، بحوالہ طبقات ابن سعد) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK