• Sat, 25 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

”اور انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کوشش کی“

Updated: October 24, 2025, 4:29 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

قرآن پاک کی یہ آیت کامیابی کے فلسفے کی ابدی اساس ہے، جو کہتی ہے کہ کامیابی کسی بیرونی فیضان کا نتیجہ نہیں بلکہ اندرونی سعی کا ثمر ہے۔

Success is not the name of an external manifestation or a temporary flash, but a continuous evolutionary process within a person. Photo: INN
کامیابی کسی ظاہری مظہر یا وقتی چمک کا نام نہیں بلکہ انسان کے اندر جاری ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے۔ تصویر: آئی این این

کون کامیاب ہونا نہیں چاہتا؟
یہ سوال دراصل انسانی فطرت کی گہرائی میں پوشیدہ اس اضطراب کا مظہر ہے جو انسان کو مسلسل آگے بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اپنے میدان میں سبقت لے جائے، اپنے فن میں مہارت حاصل کرے، اپنی صلاحیتوں کو نکھارے، اور ایک ایسا نام کمائے جو شہرت، دولت، اور مقام کے ساتھ جڑا ہو۔ چمکتی ہوئی گاڑی، وسیع و عریض بنگلہ، اور دنیاوی آسائشوں کی فراوانی کو وہ اپنی کامیابی کا مترادف سمجھتا ہے۔ مگر ذرا ٹھہریئے! کیا یہی کامیابی ہے؟ یا یہ صرف کامیابی کا ایک فریبِ نظر ہے؟
انسان جب کسی موٹیویشنل مقرر کی تقریر سنتا ہے، جب کسی ورک شاپ میں ”کامیابی کے دس سنہری اصول“ پر نوٹس لیتا ہے، تو لمحاتی طور پر اس کے اندر ایک آتشِ عمل بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب وہ سب کچھ بدل دے گا، اب زندگی کی باگیں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ وہ آگ سرد ہو جاتی ہے۔ یہ کیفیت اُس چولہے کی مانند ہے جو گیس کی تیز آنچ سے فوراً دہک تو اٹھتا ہے، مگر ایندھن نہ ہونے کے سبب کچھ ہی دیر میں بجھ جاتا ہے۔ انسان کی موٹیویشن بھی اگر صرف جذبات سے پیدا ہوئی ہو اور عقل و ارادے سے منسلک نہ ہو تو وہ دیرپا نہیں رہتی، لمحاتی ہوتی ہے۔ 
کامیابی کسی ظاہری مظہر یا وقتی چمک کا نام نہیں بلکہ انسان کے اندر جاری ایک مسلسل ارتقائی عمل ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے، وہ اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں دونوں سے واقف ہو جاتا ہے اور یہی پہچان اسے اپنی حدوں سے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ کامیابی کوئی منزل نہیں، بلکہ ایک مسلسل سفر ہے جس میں انسان روز تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا ہے، بغیر اس کے کہ جذبے کی شدت یا حالات کی تبدیلی اسے روک سکے۔ ہر نتیجے کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور کامیابی کی بنیاد تسلسل ہے۔ جذبے وقتی ہوتے ہیں مگر تسلسل وہ قوت ہے جو وقت کے نشیب و فراز میں بھی اپنی سمت برقرار رکھتی ہے۔ جو روز تھوڑا سا کام کرتا ہے، وہ دراصل اپنی کامیابی کی عمارت آہستہ آہستہ تعمیر کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقی کامیابی اسی شخص کا مقدر بنتی ہے جو اپنی کوشش کو ایک عبادت سمجھ کر خلوص اور استقامت سے جاری رکھتا ہے۔ اس کا سفر شہرت کے لئے نہیں بلکہ حقیقت کے لئے ہوتا ہے۔ جب معمولی عمل کسی اعلیٰ مقصد سے جڑ جائے تو وہ عبادت بن جاتا ہے، جہاں انسان کی زندگی بکھرنے کے بجائے ایک روشن نظم میں ڈھلنے لگتی ہے۔ 
انسان کی کوشش اور کامیابی کا رشتہ تقدیر اور ارادہ کے بیچ ایک نہایت باریک توازن پر قائم ہے۔ کامیابی کا وعدہ صرف اُن کے لئے ہے جو کوشش کو عبادت سمجھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: ”اور انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کوشش کی۔ “ (النجم:۳۹)
یہ آیت کامیابی کے فلسفے کی ابدی اساس ہے۔ یہ کہتی ہے کہ کامیابی کسی بیرونی فیضان کا نتیجہ نہیں بلکہ اندرونی سعی کا ثمر ہے۔ جو انسان مستقل مزاجی سے اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے، وہ اگر بظاہر ناکام بھی ہو جائے، تب بھی وہ اپنی روحانی معراج کو پا لیتا ہے۔ کیونکہ اُس کا سفر اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، شہرت پر نہیں ؛ حقیقت پر، فریب پر نہیں۔ کامیابی وہ نہیں جو دنیا دیکھے، بلکہ وہ ہے جو انسان خود اپنے اندر محسوس کرے سکون، یقین، اور لگن کی صورت میں۔ یہ شور میں نہیں، بلکہ خاموشی میں پروان چڑھتی ہے، جہاں عمل، ارادہ اور یقین مل کر انسان کے اندر ایک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ 
کامیابی کے سفر میں انسان کے اندر دو قوتیں کام کرتی ہیں — ایک ترغیب (Motivation) جو وقتی جذبہ پیدا کرتی ہے اور دوسری استقامت (Discipline)  جو اس جذبے کو دوام بخشتی ہے۔ پہلی قوت اُس کیفیت کی طرح ہے جو باہر کے حالات سے اثر قبول کرتی ہے، لہٰذا جلد ماند پڑ جاتی ہے لیکن دوسری قوت انسان کے باطن میں ایک ایسی پختگی پیدا کرتی ہے جو وقت، حالات اور مزاج کی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتی۔ یہی قوت انسان کی اصل فطرت کا حصہ بن جاتی ہے اور اسے مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ جذبہ عمل کی ابتداء کرتا ہے، مگر تسلسل ہی اسے برقرار رکھتا ہے۔ جو لوگ صرف آغاز کے جوش پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ چند قدم چل کر تھک جاتے ہیں، جبکہ وہ جو مستقل مزاجی کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں، دیر سے سہی مگر منزل ضرور پاتے ہیں۔ انسان کا عمل دراصل تین بنیادوں پر قائم ہے: نیت، کوشش، اور مددِ الٰہی۔ نیت انسان کو سمت دیتی ہے، کوشش اسے جاری رکھتی ہے، اور مددِ الٰہی اس سفر کو کامیابی تک پہنچاتی ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے تحت زندگی کی راہیں روشن ہوتی ہیں جو لگاتار جدوجہد کرتا ہے، اُس کے لئے ہدایت اور کامیابی کے دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ جذبہ آتا ہے اور جاتا ہے، مگر استقامت باقی رہتی ہے اور یہی بقاء کا راز ہے۔ لمحاتی جوش ایک چنگاری ہے، مگر تسلسل ایک چراغ ہے جو عمر بھر جلتا رہتا ہے۔ خواہش خوابوں کو جنم دیتی ہے، مگر عمل اُن خوابوں کو تعبیر دیتا ہے۔ خواہش یعنی ”میں چاہتا ہوں “ اور عمل یعنی ”میں کرتا ہوں “ اور یہی دونوں کے درمیان کا فاصلہ کامیابی کا حقیقی میدان ہے۔ کامیابی اُن کا نصیب بنتی ہے جو جوش کے ساتھ نہیں بلکہ کردار کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ جو اپنے جذبے کے ماند پڑ جانے کے بعد بھی اپنے راستے پر قائم رہتا ہے، وہی دراصل کامیابی کی اس بلند چوٹی تک پہنچتا ہے جہاں تھک کر رکنے والوں کے قدم نہیں پہنچ سکتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK