Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ پر ایمان اور قیامت کا یقین نیکی کی بنیاد

Updated: May 10, 2025, 3:45 PM IST | Maulana Abul Lais Islahi Nadvi | Mumbai

قیامت یا آخرت کے الفاظ آپ نے بارہا سنے ہوں گے اور ممکن ہے کہ تم اپنی ماں یا دادی کے بتانے سے یا کسی اور سے سن کر یہ بھی جانتے ہو کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری ہے لیکن معلوم نہیں تم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے یا نہیں کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی سے کیا تعلق ہے۔

The purpose of human life is to serve Allah. Photo: INN
انسان کی زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی کرنا ہے۔ تصویر: آئی این این

قیامت یا آخرت کے الفاظ آپ نے بارہا سنے ہوں گے اور ممکن ہے کہ تم اپنی ماں یا دادی کے بتانے سے یا کسی اور سے سن کر یہ بھی جانتے ہو کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری ہے لیکن معلوم نہیں تم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے یا نہیں کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی سے کیا تعلق ہے۔ آیا قیامت کے ماننے کا فائدہ یا غرض بس اتنی ہی ہے کہ ہمارے علم میں ایک نئی بات آجاتی ہے، یا یہ کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی پر بھی کچھ اثر پڑتا ہے۔ 
اس زمانے میں لوگ عام طور سے مذہب کی باتوں پر زیادہ غور وفکر نہیں کرتے، اس لئے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی بنا پریہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے جن باتوں کے ماننے پر زور دیا ہے، وہ سب مان لینے کی باتیں ہیں، ان کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر تم غور کرو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ ان کا یہ سمجھنا بالکل غلط ہے۔ مذہب نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان کے ماننے یہ نہ ماننے سے ہماری اس دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر پورا اثر پڑتا ہے اور یہی حال اس عقیدئہ قیامت کا بھی ہے کہ اگر اس کو مان کر زندگی بسر کی جائے تو ہمارے اخلاق و معاملات، اور ہماری زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوگا۔ اور اگر اس کو کوئی تسلیم نہ کرکے زندگی گزرے تو اس کے معاملات و اخلاق کا طرز کچھ اور ہوگا۔ آؤ کچھ دیر کے لئے اس مسئلے پر غور کریں۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید ہی کو سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ قرآن مجید نے صرف یہی نہیں بتایا ہے کہ قیامت کو ماننا ضروری ہے اور کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے سے زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، لیکن قرآن مجید نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ ایک صحبت میں کسی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا، اس لئے قرآن مجید کی رو سے عقیدئہ قیامت کے جو اثرات انسان کی زندگی پر پڑتے ہیں، ان کا صرف ایک پہلو آج آپ کے سامنے رکھنا ہے، وہ یہ کہ انسان کے نیک و بد ہونے میں اس عقیدے کو کیا دخل ہے۔ 
اس بارے میں قرآن مجید نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کا دار و مدار صرف دو باتوں پر ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھے کہ اس دنیا میں اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ خود بخود پیدا ہوا ہے، اور وہ اس کے لئے آزاد ہے کہ جو اس کے جی میں آئے کرے، جس کو جی چاہے مارے، جس کا مال چاہے ہڑپ کرے اور جس پر جی چاہے ظلم کر بیٹھے۔ بلکہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے، اور اس کے پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے اور اس کے پیدا کرنے والے نے اسے آزادی تو یقیناً دے دی ہے کہ ایک خاص دائرے سے جو کچھ چاہے کرسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اسے وہ پسند بھی کرتا ہے بلکہ انسان کو بری یا بھلی باتیں بتادی ہیں اور وہ اچھی باتوں کو پسند اور بری باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ہر انسان سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی ٹھہرائی ہوئی پسندیدہ باتوں کو احتیار کرے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچے۔ قرآن کہتا ہے جو لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں اور ہر کام میں اللہ کی خوشی یا ناخوشی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں ان کا حال دنیا میں ان لوگو ں سے مختلف ہوتا ہے جو اپنے کو کسی کا پیدا کردہ نہیں سمجھتے یا خود اپنے نفس کواپنا بادشاہ سمجھتے ہیں، اور جو جی میں آتا ہے، کرتے رہتے ہیں۔ 
 پہلی طرح کے لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے ا س کے ان پر حقوق ہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ اس کے فرماں بردار بن کر زندگی گزاریں، جن باتو ں کا اس نے حکم دیا ہے اس کے خلاف نہ چلیں۔ یہاں تک کہ بہت سے ایسے کام بھی جن کو یہ لوگ آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں، محض اس لئے نہیں کرتے کہ ان کا کرنا پیدا کرنے والے کی خوشی کے خلاف ہوتا ہے۔ 
 گویا ان کے پیدا کرنے والے نے ہر طرح کے کام کرنے کی جو قوت اور آزادی ان کو دی ہے، اس سے وہ از خود یہ سمجھ کر دستبردار ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علاوہ اور احسانوں کے ان کو جو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ وہ دنیا کی اور مخلوقات کی طرح مجبور نہیں ہیں بلکہ ان کو ان سے ممتاز کرنے کے لئے ایک طرح کی آزادی بھی دے دی ہے، تو خود اس نعمت کی شکر گزاری کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے اس حق کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کریں، اور درحقیقت ان کا یہ سمجھنا صحیح بھی ہے۔ عقل بھی یہی چاہتی ہے اور انسان کی فطرت بھی اسی کا مطالبہ کرتی ہے کہ انسان اپنے منعم و محسن کی شکر گزاری کرے، چنانچہ اسی بنا پر جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کو عام طور سے برا کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ہمارا سب سے بڑا منعم و محسن ہے، اسی نے ہم کو پیدا کیا، ہمارے زندہ رہنے کے لئے ہر طرح کے سامان فراہم کئے، ہمیں عقل دی، فہم عطا فرمائی، اور ان سب سے بڑھ کر ہمارا درجہ اپنی بے شمار مخلوقات سے بہت اونچا اور بلند بنایا، تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور اس کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں ؟ اس کا جواب ایک ہی ہوسکتا ہے کہ بلاشبہ یہی ہمارا فرض ہونا چاہئے۔ چناں چہ خود قرآن مجید بھی اسی بنیاد پر انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے:
’’میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں ان سے ذرا بھی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کو رزق دینے والا ہے، قوت والا ہے، زبردست ہے۔ ‘‘ ( سورۃ الذاریات: ۵۶ تا ۵۸)
 اسی بنا پر جو لوگ نیک اور سمجھ دار ہوتے ہیں، وہ دنیا میں اپنا فرض یہی سمجھتے ہیں۔ حضرت لقمانؑ خدا کے ایک نہایت ہی نیک بندے گزرے ہیں، ان کا دل بھی خدا کے انعامات کے تصور سے اس کے آگے جھکا ہوا تھا، چناں چہ وہ خود بھی خدا کی اطاعت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اپنی اولاد سے بھی وہ یہی چاہتے تھے، چناں چہ انھوں نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے پیارے بیٹے اللہ سے شرک نہ کر، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ‘‘ 
(سورۃ لقمان: ۱۳)
ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے چہیتے بندے تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور شوکت و حشمت بہت کچھ دے رکھا تھا۔ لیکن وہ یہ نعمتیں پاکر اترائے نہیں تھے اور نہ خدا سے غافل ہوگئے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جتنا بھی اپنے فضل سے نوازا تھا اتنا ہی ان کا دل خدا کے حضور میں جھکا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک وادی میں ان کا گزر ہوا تو وہاں چیونٹیوں نے آپس میں گفتگو کی جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سن لیا۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل ہوا تھا، اس لئے اس کا تصور کرکے وہ خدا کے حضور میں جھک گئے اور اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعاکی:
’’اے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو بخشیں اور مجھے ایسی توفیق دے کہ میں ایسے نیک کام کروں جنھیں تو پسند فرمائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما۔ ‘‘( سورۃ النمل: ۱۹)
اس آیت میں دیکھو کہ خدا کے فضل و انعام کا تصور آنے سے ان کے دل میں کس طرح شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوا اور اس جذبے نے کس طرح ان کے دل میں نیک بننے کا جذبہ پیدا کردیا۔ قرآن شریف میں اور ایسے اور بھی کئی بندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا طریقہ یہی تھا کہ خدا کے انعامات و احسانات کے تصور سے ہمیشہ اس کے سامنے جھکے ہوئے رہتے تھے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے کیلئے کسی حال میں آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اب اس کے برعکس جو لوگ نہ اپنے لئے کسی خالق کا تصور رکھتے ہیں اور نہ وہ اپنے اوپر اپنے نفس کے علاوہ کسی کا حق سمجھتے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہتے ہیں بے جھجک ہوکر کرتے ہیں۔ 
 بہرحال، اس دنیا میں انسان کے نیک بننے اور نیک بنے رہنے کے لئے دو باتوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک بات تو یہی ہے کہ اس کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا اور اس کے ساتھ وہ آپ سے آپ پیدا نہیں ہوگیا بلکہ اس پوری کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور وہ اس کے ہر اچھے یا برے کام کا نگراں ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان کی زندگی بس اتنی ہی نہیں کہ وہ اس چند روزہ دنیا میں رہ کر ختم ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام کچھ جو اس نے اس دنیا میں کیا ہے ختم ہوجائے گا، اس پر اس کو کوئی جزا یا سزا نہیں ملے گی۔ بلکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہمارے ہر اچھے اور برے کاموں کا ہمیں بدلہ ملے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے ہونے پر جو دلیلیں دی ہیں ان میں ایک ایسی بھی ہے کہ وہ اس کو اپنی رحمت و حکمت کا صریح تقاضا قرار دیتا ہے:’’ اس نے اپنی ذات پر رحمت لازم فرمالی ہے، وہ تمہیں روزِ قیامت، جس میں کوئی شک نہیں ضرور جمع فرمائے گا۔ ‘‘ ( سورۃ الانعام: ۱۲)
 یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورہ میں اللہ کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ربوبیت اور رحمت بیان کرنے کے بعد اس کے مالک یوم الدین ہونے کا اظہار کیا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی صفتوں کے تسلیم کرلینے کے بعد یہ مانے بغیر چارہ نہیں رہ جاتا کہ ایک دن جزا وسزا ضرور ہونا چاہئے، چناں چہ اسی بنیاد پر قرآن میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ کائنات کی حقیقتوں پر غور کرتے ہیں وہ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ دنیا بے غرض و بے مقصد نہیں پیدا کی گئی ہے اور پھر اس سے اس کا ذہن خود بخود اس طرف مڑجاتا ہے، کہ پھر ہم جو کچھ یہاں کرتے ہیں اور جس کا بسا اوقات اس دنیا میں نتیجہ نہیں ملتا اس کاانجام ہمارے سامنے ضرور آئے گا:
’’زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے آنے جانے میں بلاشبہ ان عقل مندوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں یاد کرتے ہیں، اور زمین و آسمان کی پیدائش کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے مالک یہ سب تو نے بیکار نہیں پیدا کیا ہے۔ تیری ذات اس سے پاک ہے کہ تو کوئی بیکار کام کرے (اور جب ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن تو اپنی مخلوقات کا حساب بھی لے گا۔ ) اس حساب کے دن تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچانا۔ ‘‘ ( سورۃ آل عمران ۱۹۰۔۱۹۱) غرض اللہ پر ایمان اور قیامت کا یقین ہی نیکی کی بنیادیں ہیں۔ جب تک یہ دل میں پیدا نہیں ہوں گی، آدمی بے ایمانی، دغا بازی، رشوت، فریب اور جھوٹ وغیرہ سے بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK