قرآن پاک کی یہ آیت جہاں کائنات کے راز پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے وہیں ہمیں یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ ہر چیز فطری طور پر ایک ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے، اسی طرح شرعی اعتبار سے بھی انسان کو ایک قانون اور ضابطہ کا پابند ہونا چاہئے۔
EPAPER
Updated: May 16, 2025, 3:01 PM IST | Maulana Anisur Rahman Nadvi | Mumbai
قرآن پاک کی یہ آیت جہاں کائنات کے راز پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے وہیں ہمیں یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ ہر چیز فطری طور پر ایک ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے، اسی طرح شرعی اعتبار سے بھی انسان کو ایک قانون اور ضابطہ کا پابند ہونا چاہئے۔
قرآن مجید نے آج سے ۱۴۵۰؍ سال پہلے ہماری کائنات کے متعلق ایک ایسا اصول بیان کیا ہے جو آج ایک کائناتی مسلمہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کائناتی مسلمہ طبیعیات، فلکیات، کونیات اور حیاتیات کا ایک اہم اصول شمار کیا جاتا ہے اور بلامبالغہ طبیعی دنیا کا سب سے بڑا قانون فطرت ہے۔ یہ عظیم کائناتی راز قرآن مجید کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:
’’(اللہ) وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کئے، ہر ایک ایک محور میں تیر رہا ہے۔ ‘‘(الانبیاء: ۳۳)
اس آیت کریمہ میں یہ بتایا جارہاہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن اور سورج اور چاند کی تخلیق کی۔ اس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ’’ہر ایک اپنے محور میں تیررہا ہے۔ ‘‘ قرآن مجید کا یہ بیان ہماری کائنات کا ایک ایسا راز ہے جسے دریافت کرتے کرتے انسان کو تقریباً چودہ صدیاں لگ گئیں۔ یہ ایک ایسا راز ہے جو ہماری کائنات اور طبیعی دنیا کا سب سے عظیم اور ہمہ گیر قانون ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کائناتی مسلمہ خدا کی وحدت، اس کی عظمت اورکبریائی کا بھی ایک شاہکار ہے۔ آئیے ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی یہ وسیع و عریض کائنات نہایت نظم و ضبط کے ساتھ چل رہی ہے۔ اگر ہم کائنات کا گہرائی سے مشاہدہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کائنات کی ہر شے حرکت میں ہے، اور خاص طور پر ایک مدار کے گرد ’’گردش کرنا‘‘ یعنی ’’چکر کاٹنا‘‘ ہر شے کی فطرت میں شامل ہے۔ کائناتی اشیاء کی یہ گردش ہمیں ہر سطح پر موجود نظر آتی ہے۔ فلکیاتی سطح پر، ایٹمی سطح پر، حیاتیاتی سطح پر اور یہاں تک کہ کیمیائی اور موسمیاتی نظاموں میں بھی۔ لہٰذا کہکشائیں، سیارے، ستارے، چاند حتیٰ کہ ایٹم کے اندر موجود ذرات بھی مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔ یہ گردش کائنات کی بنیادی خاصیتوں میں سے ایک ہے اور طبیعیات کے کئی اہم اصولوں پر مبنی ہے۔
اس سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ کائناتی اشیاء کی یہ گردش یا تو خوردبینی ہے یا دوربینی۔ اسی وجہ سے ایک عام انسان انہیں محسوس نہیں کرسکتا۔ خوردبینی گردش ذرات یعنی ایٹمی سطح کی گردش ہے، اور دور بینی گردش اجرام سماوی کی سطح کی گردش ہے۔
ذرّات (ایٹمی سطح ) کی گردش
سب سے پہلے ہم خوردبینی گردش یعنی ایٹمی سطح کی گردش کو سمجھتے ہیں۔ ہماری کائنات میں موجود مادہ کی بنیادی اکائی یعنی building blocks ایٹم ہے۔ یعنی ہماری کائنات کا تمام مادہ ایٹموں سے بنا ہوا ہے۔ اگر ہم خوردبین کے ذریعے کائناتی مادے کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات یعنی ایٹموں کو دیکھیں، تو وہاں ہمیں گردش نظر آتی ہے۔ الیکٹران ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے گرد گردش کر رہے ہیں۔
ایک الیکٹران اس کے نیوکلیس کے گرد ایک سکینڈ میں تقریبا دس ہزار کھرب مرتبہ چکر لگاتا ہے۔ ایٹم کے اندر الیکڑانس کی یہ گردش توانائی کی منتقلی کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ الیکٹران جو ایٹم کے مرکزے کے گرد اتنی تیزی سے گھومتے ہیں، وہ اپنے محور پر بھی گھوم رہے ہیں، جسے اسپن کہا جاتا ہے۔ یہ گھومنا کوانٹم میکانکس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
زمین اور دیگر سیاروں کی حرکت
اب ہم دور بینی گردش یا اجرام سماوی کی گردش کی طرف آتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے نظامِ شمسی پر نظر ڈالیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے علاوہ چاند، سیارے، شہابیہ اور دمدار ستارے وغیرہ موجود ہیں۔ یہ تمام اجرام سورج کے گرد گردش کررہے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سیارے جو تعداد میں آٹھ ہیں ، سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ سیاروں کے علاوہ اجرام کی دوسری قسم چاند ہیں جو سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں اب تک کل ۹۲۳؍ چاند دریافت ہوچکے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کے مختلف چھوٹے بڑے سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چاند اپنے محور کے گرد بھی گھومتے ہیں اور اپنے سیاروں کے ساتھ مل کر سورج کے گرد بھی گھوم رہے ہیں۔ اس طرح چاندوں کی گردش تین طرفہ ہے۔
ستاروں کی گردش
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج ساکن ہے اور صرف سیارے اس کے گرد گردش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورج خود بھی ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ کے مرکز کے گرد ایک بہت بڑے مدار میں گردش کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی اس گردش میں سورج اکیلا نہیں ، بلکہ اس کا پورا نظام شمسی جس میں ہماری زمین سمیت آٹھ بڑے سیارے، پانچ چھوٹے سیارے، ۹۲۳ چاند، بے شمار دمدار ستارے comets، اور دیگر اجرام کا دیو ہیکل قافلہ بھی سورج کے ساتھ محو گردش ہے۔
یہی نہیں ہماری کہکشاں یعنی ’ملکی وے‘ میں ہمارے سورج جیسے ۱۰۰ ؍ارب تا ۴۰۰ ؍ ارب سورج پائے جاتے ہیں جن میں سے بہت سوں کے اپنے نظام شمسی بھی ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کی طرح۔ یہ تمام ستارے اپنے اپنے شمسی نظاموں سمیت ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ کے محور کے گرد گردش کررہے ہیں۔ اور ان کی یہ حرکت ایک عظیم الشان، منظم اور مسلسل جاری ’’کہکشانی نظم و ضبط‘ کا حصہ ہے۔ ملکی وے کہکشاں کا مرکز ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کے گرد یہ تمام ستارے اور ان کے ستاروی نظام گردش کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے سورج کے گرد گردش کرتے ہیں۔
کہکشاؤں کی گردش
ہماری کہکشاں یعنی ملکی وے جس میں ۱۰۰ ارب تا ۴۰۰ ارب سورج یا نظام شمسی پائے جاتے ہیں وہ بھی مسلسل حرکت کررہی ہے۔ نہ صرف یہ کہکشاں خود گھوم رہی ہے بلکہ اس کے اندر موجود تمام ستارے بھی اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ گویا کہ پوری کہکشاں کے اندر ایک ایسا عظیم و عمیق رقص چل رہا ہے، جسے نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور نہ ذہن مکمل طور پر سمجھ سکتا ہے۔ یہ گردش کششِ ثقل کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے، جو تمام اجسام کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔ کہکشاؤں کا یہ گھومنا کائنات کی ساخت اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گردش کی حکمت
اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری کائنات میں ان قسم ہا قسم کی گردشوں کا کیا مقصد ہے اور اس کی کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائناتی نظام کو گردش پر قائم رکھا تاکہ کائنات کا توازن برقرار رہے، اگر یہ گردشیں نہ ہوتیں تو کائناتی نظام درہم برہم ہوجاتا۔ مثلا اگر زمین اپنے محور کے گرد گردش نہ کرے تو رات اور دن نہیں آئیں گے؛ اور اگر زمین سورج کے گرد نہ گھومے تو زمین پر موسم نہیں بدلیں گے، ان دونوں صورتوں میں زمین پر زندگی کا تسلسل رک جائے۔ یہی گردش ہمیں وقت کے بہاؤ کا احساس دلاتی ہے، اور یہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ٹھہراؤ موت ہے، اور حرکت زندگی۔
انسانی زندگی کی گردش
قارئین، اس سے ذرا ہٹ کر اگر ہم انسانی زندگی کو دیکھیں، تو وہ بھی ایک طرح کی ’’گردش‘‘ کا نمونہ ہے۔ دن اور رات کا آنا جانا، مہینوں اور سالوں کا چکر، انسان کی پیدائش، جوانی، بڑھاپا اور موت، پھر ایک نئی نسل کا آغاز، یہ سب ایک دائرے کی صورت میں جاری ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی عبادات میں بھی یہ گردش نظر آتی ہے۔ مثلاً نماز میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا خانہ کعبہ کو مرکز و محور بنا کر نماز ادا کرنا، حج وعمرہ میں طوافِ کعبہ کے وقت خانہ کعبہ کے گرد گھومنا، گویا کہ ایک مرکز کے گرد پوری امت محو ِ گردش ہے۔
اس طرح فطری اور شرعی دونوں اعتبارات سے گردش انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اور وہ خالق کائنات کے انتہائی گہرے رازوں میں سے ایک راز معلوم ہوتی ہے۔
قرآن کا اعجاز
اس بحث سے معلوم ہوا کہ اس کائنات کی ہر چیز کا ایک مدار میں گھومنا ایک ایسا کائناتی مسلمہ ہے جس سے نہ صرف کائنات کا نظم ونسق جڑا ہوا ہے بلکہ اس سے کائناتی اشیاء کا وجود اور بقاء بھی وابستہ ہے، جس کے بغیر یہ کائنات قائم نہیں رہ سکتی بلکہ وہ فنا ہوجائے گی۔ لہٰذا اس کائناتی مسلمہ کے متعلق قرآن مجید کا مذکورہ بیان اس کا ایک بہت بڑا علمی اعجاز ہے۔ جو ظاہر ہے اسی ہستی کا ہوسکتا ہے جو ہماری کائنات کا حقیقی خالق اور منتظم ہو۔
یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ بات اُس دور میں کہی جارہی ہے جب ابھی سائنس نے ترقی نہیں کی تھی۔ انسان اس وقت مادے کی حقیقت سے واقف نہیں تھا۔ یعنی کہ وہ یہ جانتا تک نہ تھا کہ دنیا کا تمام مادہ ایٹموں سے تشکیل پایا ہے اور نہ وہ ایٹم کے ذیلی ذرات سے واقف تھا۔ دوسری طرف اس دور میں ہماری کائنات کے متعلق انسان کا علم ہماری زمین کے علاوہ صرف پانچ سیاروں ہی تک محدود تھا جن کے متعلق انسان یہ گمان کرتا تھا کہ وہ زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ باقی ستاروں کے متعلق انسان یہ تصور کرتا تھا کہ وہ آسمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس دور میں انسان کی کل کائنات تھی۔
اشیاء کی گردش اور توحید باری تعالیٰ
اس کائناتی کلیہ پر ہماری اس پوری بحث سے سب سے اہم جو چیز کھل کر جو سامنے آتی ہے وہ ہے اس میں چھپا توحید خداوندی کا سبق۔ کائنات کی تمام اشیاء کا ایک قانون کا پابند ہوکر اپنے مرکز کے گرد گھومنا اور پوری کائنات میں اسی ایک قانون کی بالادستی کا رائج ہونا ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ ہماری کائنات میں وحدت کی نغمہ سنجی پائی جاتی ہے اور تمام کائناتی قوانین ایک خالق اور Creator کے بنائے ہوئے نظام کے پابند ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک نظام شمسی میں ایک قانون ہو اور دوسرے نظام شمسی میں دوسرا قانون ہو؛ یا یہ کہ ایک کہکشاں میں ایک قسم کے طبیعی قوانین ہوں اور دوسری کہکشاں دوسرے قوانین رائج ہوں بلکہ کائنات کی ہرچیز ایک ذرہ سے لے کر ایک کہکشاں تک ایک ہی قانون کی پابند ہے، اور جو ہستی ہمیں اس نظام کے وجود کی غیبی اطلاع دے رہی ہے دراصل وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کائناتی قانون سے جو دوسرا سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر شے کی گردش اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت اور قدرت کی نشانی ہے جوہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر چیز فطری طور پر ایک ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے، اسی طرح شرعی اعتبار سے بھی انسان کو ایک قانون اور ضابطہ کا پابند ہونا چاہئے کیونکہ اس عظیم اور منظم کائنات میں اگر کوئی شے خلل پیدا کرسکتی ہے تو وہ انسان ہے۔
(مضمون نگار فرقانیہ اکیڈمی وقف، بنگلور کے جنرل سکریٹری اور مجلہ تعمیر فکر کے مدیر ہیں )