انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: May 16, 2025, 4:39 PM IST | Salim Shakir | Mumbai
انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔
انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ پس اگر آپ اپنے نفس کی خبر نہ لیں تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اسے ملامت کرتے رہیں گے تو وہ نفسِ لوامہ بن جائے گا، اور راہِ راست پر لانے کی یہ کوشش جاری رہے تو رفتہ رفتہ نفسِ مطمئنہ بن جائے گا اور آپ ان بندگانِ خدا میں شامل ہوجائیں گے جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔
اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ صرف وہی کرسکتا ہے جس میں اپنے نقائص کو جاننے، اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور ساتھ ہی وہ اتنا اصلاح پسند بھی ہو کہ اپنے نقائص کو دُور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی تڑپ بھی رکھتا ہو۔ ایسے ہی شخص سے توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے۔
انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے میں سب سے بنیادی سبب اس کی غفلت ہے۔ انسان کو جب ضروریاتِ زندگی بآسانی اور کثرت سے مل رہی ہوں تو وہ آہستہ آہستہ دنیا میں کھو جاتا ہے اور دین سے غفلت برتنے لگتا ہے اور دنیا کی ہوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی غفلت کے نتیجے میں وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا کر رہا ہے۔ اس غفلت سے انسان کو بیدار کرنے کے لئے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا ناگزیر ہے۔
انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بھی اسی وجہ سے ہے کہ انسان اخلاق کے پیمانے پر اپنے آپ کو پرکھ سکے، اچھے اخلاق اپنا لے اور بُرے اخلاق سے اجتناب کرے۔
بعض لوگوں کی خودپسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے طرزِعمل پر کسی کے ذرا سے جائز اعتراض کو بھی اپنی عزتِ نفس پر حملہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت نفس اور غیرت کا مفہوم یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو اگر زندگی میں اپنی کسی غلطی پر معافی مانگنا پڑ جائے تو ان کے لئے یہ مرحلہ موت سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے دینی اور دنیوی نقصان کو گوارا کرلیں گے مگر معافی مانگنا گوارا نہیں کریں گے۔ وہ اسے اپنی تحقیر یا ذلت تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو غلطیوں سے بالا نہیں سمجھتے اور جھوٹی آن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہاں معاف کرا لینا قیامت میں سزا پا لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی خطا ہوتی ہے تو وہ بآسانی معافی مانگ لیتے ہیں، اور معافی مانگنے کے بعد راحت محسوس کرتے ہیں۔
نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا جائزہ لیا وہ نفع میں رہا، اور جس نے غفلت برتی وہ گھاٹے میں رہا، اور جو اللہ سے ڈرا وہ بے خوف ہوگیا۔ سورئہ شمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔ ‘‘ (الشمس : ۹-۱۰)۔ محاسبۂ نفس کے سلسلے میں ایک اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب انسان یہ عمل شروع کرتا ہے تو اسے کچھ مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ذرا سی بھی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کے بجاے محاسبۂ نفس کے عمل کو صبر کے ساتھ برابر جاری رکھنا چاہیے اور مایوس ہوکر اسے ترک نہیں کرنا چاہئے۔
محاسبۂ نفس کے حوالے سے چند اہم تقاضوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:
کبر اور خود پسندی: انسان کا بدترین عیب کبر و غرور اور خودپسندی ہے جو ایک سراسر شیطانی فعل ہے۔ جو شخص یا گروہ اس بیماری میں مبتلا ہو، وہ اللہ کی تائید سے محروم ہوجاتا ہے۔ نفس کی ایک ذرا سی ڈھیل اور شیطان کی ایک ذرا سی اُکساہٹ اسے تکبر اور خودپسندی میں تبدیل کردیتی ہے۔
تنگ دلی: مزاج کی بے اعتدالی سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری تنگ دلی ہے، جسے قرآن پاک میں شُح نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میں انسان خود جتنا بھی پھیلتا چلا جائے، اسے اپنی جگہ تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتا۔
غصہ اور اشتعال انگیزی:کچھ لوگ غصے میں آکر بے قابو ہوجاتے ہیں اور اشتعال میں آکر ایسی حرکت کربیٹھتے ہیں جس پر انہیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔
وقت کی قدر: عموماً لوگ وقت کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ انسان کے ہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے۔ جس نے وقت کو ضائع کیا، اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔
محاسبۂ نفس کے یہ چند پہلو ہیں جن سے اس کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ محاسبۂ نفس نہ صرف تزکیۂ نفس کے لئے ناگزیر ہے بلکہ ذاتی اصلاح اور خود احتسابی کیلئے بھی ضروری ہے۔