’’ہر صبح کو انسان کے تمام اعضاء زبان کے آگے عاجزی کرتے ہیں، کہتے ہیں خدا کےلئے ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔ اگر تو سیدھی ہے تو ہم بھی سیدھے ہیں، اگر تو ٹیڑھی ہے تو ہم بھی ٹیڑھے رہیں گے۔‘‘ ( ترمذی )
EPAPER
Updated: May 16, 2025, 4:46 PM IST | Maulana Muhammad Sani Hasni Nadvi | Mumbai
’’ہر صبح کو انسان کے تمام اعضاء زبان کے آگے عاجزی کرتے ہیں، کہتے ہیں خدا کےلئے ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔ اگر تو سیدھی ہے تو ہم بھی سیدھے ہیں، اگر تو ٹیڑھی ہے تو ہم بھی ٹیڑھے رہیں گے۔‘‘ ( ترمذی )
اللہ تعالیٰ نے جسم انسانی میں کسی عضو کو بے کار نہیں بنایا۔ ہر ایک کے سپرد ایک کام رکھا ہے۔ جس طرح کسی مشین میں کوئی پرزہ بے کار نہیں ہوتا، اس کا کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہے اور اس کی خرابی سے پوری مشین پر اثر پڑتا ہے، اسی طرح جسم انسانی ایک مشین ہے، سر سے لے کر پیر تک ہر عضو اس مشین کا پرزہ ہے جو کار آمد ہے اور جسم انسانی کے لئے ضروری ہے۔ اس کی ذراسی خرابی سے پورے جسم پر اثر پڑتا ہے، ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔ اس وقت ہم اس کی دینی، باطنی اور روحانی حیثیت کو پیش نظر رکھ کر کچھ عرض کریں گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو صرف لذیذ غذائیں کھانے اور من مانی زندگی گزارنے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے:
’’اور میں نے جن و انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری بندگی کریں۔ ‘‘ ( الذاريات )
اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسم کے سارے اعضاء سے وہ کام لیں جس میں اللہ کی رضا اور خوشنودی ہو اور ان کاموں سے بچائیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔
جسمِ انسانی میں چند اعضاء کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں آنکھ، کان، زبان، دل اور دماغ ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بے شک کان، آنکھ اور دل ان سبھی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ‘‘ (بنی اسرائیل)
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: سجدوں میں دعا کرنا، ترکے میں عورتوں کی حصے داری، دوران نماز قرأت میں ترتیب
زبان بڑے کام کی چیز ہے
زبان دیکھنے میں ایک مختصر سا عضو ہے لیکن کام کے لحاظ سے ایک بڑی چیز ہے۔ وہ جسم انسانی کا ایک نہایت اہم عنصر ہے، مادی لحاظ سے دیکھئے تو دُنیا کا لطف بھی اسی سے ہے، کھانے کا انحصار اس پر ہے، زبان کا ذائقہ مشہور ہے، اگر زبان نہیں تو کسی چیز کا مزہ اور کسی کھانے کی لذت معلوم نہیں ہوتی، کلام کی شیرینی، الفاظ کی حلاوت، زبان زد خاص و عام ہے، فلاں شخص بڑا شیریں کلام ہے۔ ایمان لانے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی توحید اور رسالت پر ایمان لائے، یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار کرے، اقرار باللسان کے بغیر ایمان قبول نہیں ہوتا، اسی سے زبان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
زبان سے بڑے بڑے فتنے برپا ہو جاتے ہیں اور بڑے سے بڑے فتنے کا سد باب بھی ہو جاتا ہے۔ ایک بول سے دوست دشمن بھی بن جاتا ہے اور جانی دشمن دوست بھی ہو جاتا ہے۔ خدا نے اس چھوٹی سی زبان کو بڑی طاقت بخشی ہے، اس لئے اس کا صحیح طور پر استعمال کرنا دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے ضروری ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ہر صبح کو انسان کے تمام اعضاء زبان کے آگے عاجزی کرتے ہیں، کہتے ہیں خدا کیلئے ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر۔ اگر تو سیدھی ہے تو ہم بھی سیدھے ہیں، اگر تو ٹیڑھی ہے تو ہم بھی ٹیڑھے رہیں گے۔ ‘‘ ( ترمذی )
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے دین کی بہت سی باتوں کا ذکر فرمایا۔ ان باتوں میں نماز کا پڑھنا، شرک سے بچنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، حج کرنا، صدقہ کرنا اور تہجد پڑھنا شامل تھا۔ ان سب باتوں کے بعد آپؐ نے کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا :
’’میں تم کو دین کا سر اور اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی بتلاؤں ؟ “
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ سلم سے عرض کیا، ’’ یا رسولؐ اللہ ! ارشاد فرمائیے۔ ‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’دین کا سر اسلام ہے کہ بغیر اسلام کے دین کا وجود نہیں کیونکہ سر کے بغیر بدن بے کار ہے اور اس کا ستون نماز ہے، اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ ‘‘
پھر فرمایا :’’کیا میں تم کو ان کی جڑ نہ بتاؤں ؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ ضرور فرمائیے۔ ‘‘
آپؐ نے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑ کر فرمایا : ’’اس کو روکو۔ ‘‘ میں نے عرض کیا ’’یا رسولؐ اللہ ! کیا ہماری گفتگو کا بھی مواخذہ ہوگا؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’معاذ! تعجب ہے تم اتنی بات نہیں سمجھتے۔ لوگوں کو منہ یا ناک کے بل جہنم میں گرانے والی چیز زبان نہیں تو اور کیا ہے۔ ‘‘
زبان کی حفاظت کا حکم دیاگیا ہے
حضورؐ کے ان پاک ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان اعضائے انسانی میں بڑی قوت و تاثیر رکھتی ہے اور اس کی ذرا سی لغزش سے دنیا و آخرت میں بڑا وبال ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے اور اس کا نگراں مقرر فرمایا ہے کہ ایک ایک لفظ محفوظ ہوجائے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’انسان زبان سے کوئی بات نہیں نکالتا مگر اس کے لئے ایک نگراں تیار ہے۔ ‘‘ (سور ہ قٓ)
بے سوچے سمجھے کوئی بات نہیں کہنا چاہئے
ہم بہت سی باتیں بے سوچے سمجھے کہہ جاتے ہیں اور اس کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ کلمہ ہم کو کہاں لے جارہا ہے اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ حضور ؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’ بندہ بعض دفعہ ایسی بات بول جاتا ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوجاتی ہے مگر اس کی اہمیت نہیں معلوم ہوتی۔ اس بات کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کے درجوں کو بلند کردیتا ہے۔ اس کے برخلاف کوئی بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کا غصہ نازل ہوتا ہے، اس کو کچھ خبر نہیں، کوئی کھٹکا نہیں کہ اس کے سبب وہ آگ میں جارہا ہے۔ ‘‘ (بخاری)
زیادہ بولنا دل کو سخت کردیتا ہے
جب ایک کلمہ انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے تو جن لوگوں کو بہت زیادہ بولنے کا مرض ہے ان کا کیا حال بنتا ہوگا؟ اس لئے بسیارگوئی سے بچنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اسی لئے ایک حدیث میں ارشادِ نبویؐ ہے:
’’تم اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بات نہ کیا کرو، زیادہ بولنا دل کو سخت کردیتا ہے اور سخت دل آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے۔ ‘‘ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے زبان میں بہت سی خوبیاں رکھی ہیں اور بہت سے عیوب۔ ہر خوبی اور عیب کی نشاندہی قرآن شریف اور حدیث پاک میں کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ ہمارے لئے ان کا جاننا ضروری ہے اور ان پر عمل بھی۔ اللہ تعالیٰ لکھنے اور پڑھنے والوں کو زبان کی حفاظت توفیق عطا فرمائے۔ آمین