یہ نہیں کیا گیا تو اخلاق باختگی کے اِس دورمیں عجب نہیں کہ دل کی دنیا تباہ و برباد ہوجائے۔ یہ ایسا طوفان ہے جو ایمان کے شجر طوبیٰ کو اکھاڑ پھینکتا ہے، اور اخلاق و کردار کی دنیا کو ویران کردیتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 16, 2025, 4:55 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
یہ نہیں کیا گیا تو اخلاق باختگی کے اِس دورمیں عجب نہیں کہ دل کی دنیا تباہ و برباد ہوجائے۔ یہ ایسا طوفان ہے جو ایمان کے شجر طوبیٰ کو اکھاڑ پھینکتا ہے، اور اخلاق و کردار کی دنیا کو ویران کردیتا ہے۔
اگر کسی آبادی میں سیلاب آجائے تو آبادی کا ہر شخص فکر مند اور بے قرار نظر آتا ہے، کبھی کبھی یہ تباہی و بربادی پورے ملک کے لوگوں کو اس کے نقصانات کے تدارک کیلئے بے چین کردیتی ہے، خدا نخواستہ کسی شہر میں زلزلہ آگیا تو ہلاک، زخمی اور بے گھر ہونے والوں کے لئے پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ریلیف کی تقسیم عمل میں آتی ہے، اور اگر کہیں تباہ کن طوفان آگیا تو پوری دنیا کے ذارئع ابلاغ جاگ اٹھتے ہیں اور اسی کی داستانیں نوکِ زبان ہوتی ہیں، سونامی کی ظالم موجوں نے کسی خطہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو تو برسہابرس وہ اخبارات و رسائل کا موضوع بنے رہتے ہیں ؛ لیکن ایک سیلاب ان سیلابوں سے بڑھ کر، ایک زلزلہ ان زلزلوں سے زیادہ ہیبت ناک، ایک طوفان ہواؤں کے طوفان سے زیادہ خطرناک اور ایک سونامی سمندر کی سرکش موجوں سے پیداہونے والی سونامیوں سے بھی زیادہ جان لیوا ہے ؛ لیکن انسان ان سے غافل، بے پروا اور ان کے بارے میں تساہل کا شکار ہے۔
یہ وہ سیلاب ہے، جو درختوں اور کھیتوں کو بہا نہیں لے جاتا ؛ بلکہ اخلاق کو بہالے جاتا ہے، یہ وہ زلزلہ ہے، جس میں زمین کے اندر چھپی ہوئی چٹانیں متزلزل نہیں ہوتیں ؛ بلکہ انسان کے سینوں میں موجود دلوں کی دنیا تباہ و برباد ہوجاتی ہے، یہ وہ طوفان نہیں، جو درختوں کو اٹھاکر پھینک دے اور گھروں کو تہ و بالا کردے ؛ بلکہ یہ وہ طوفان ہے، جو ایمان کے شجر طوبیٰ کو اکھاڑ پھینکتا ہے، یہ وہ سونامی نہیں، جس سے آبادیاں ویران ہوجاتی ہیں ؛ بلکہ یہ وہ سونامی ہے، جس سے اخلاق و کردار کی دنیا ویران ہوجاتی ہے، یہ ہے برائیوں کا سیلاب، یہ ہے اخلاق و کردار کی تباہی اور یہ ہے ایمان و یقین کی غارت گری، یہ وہ سیلاب ہے، جو دبے پاؤں ہمارے معاشرہ میں داخل ہورہا ہے، اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی ؛ بلکہ اکثر اوقات اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یہ انسانی آبادیوں میں اس طرح داخل ہوتا ہے کہ نہ ہواؤں کا شور، نہ پانی کا زور، نہ زلزلہ کی گھڑ گھڑاہٹ اور نہ سونامی کی دل دہلا دینے والی متلاطم موجوں کی اکھاڑ و پچھاڑ، سارا ماحول معتدل، خطرہ کے احساس سے عاری اور ان کے سد باب کی فکر سے خالی ؛ لیکن اس کی تباہیاں مادی اور ظاہری تباہیوں سے کہیں بڑھ کر ہیں، وہ آسمان کی بلندی پر پہنچی ہوئی قوموں کو ذلت و رسوائی کے گہرے غار میں پہنچادیتی ہیں اور بعض اوقات انسان کے مزاج کو اس طرح بدل دیتی ہیں کہ کردار و عمل کے اعتبار سے جانور بھی ان سے بہتر لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:زبان کا صحیح استعمال دینی اور دُنیاوی دونوں لحاظ سے ضروری ہے
اس وقت ہماری نئی نسل، اسی اَن دیکھے اور غیر محسوس حملہ سے دوچار ہے، انسان کی اصلاح اور اس کے بگاڑ، نیز شخصیت کی تعمیر و تخریب میں تین چیزوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، ذرائع ابلاغ، ماحول اور تعلیم… ذرائع ابلاغ پر اس وقت عملاً مغرب کا قبضہ ہے، مغربی تہذیب ایسے نظام زندگی سے عبارت ہے، جس میں کسی اخلاقی رکاوٹ کو قبول نہیں کیا جائے اور انسان کے لئے اس کی ہوس کو پوری کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے ؛ چنانچہ اس وقت ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات و جرائد، جوا بلاغ کے اہم اور مؤثر ذرائع ہیں، کی صورت حال ہمارے سامنے ہے، ٹی وی میں مخرب اخلاق پروگرام کا غلبہ ہے اور کوئی شریف انسان اپنے بزرگ یا عزیز کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا، کھیل اور خبروں کا حالاں کہ نیم عریاں لباس سے کوئی تعلق نہیں ؛ لیکن مغرب کی بے لباس تہذیب نے ان پروگراموں کو بھی عریانیت اور بے حیائی کے مناظر سے آلودہ کردیا ہے، خواتین کو ٹی وی اسکرین پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا لباس ان کے لئے بہت بڑا بوجھ ہے، انٹرنیٹ میں فحاشی اپنی آخری حدوں تک پہنچ چکی ہے، ترقی یافتہ ممالک انسانی جان کو تلف کرنے اور آبادیوں کو ویران کرنے کے لئے تو دن و رات کوشاں ہیں اور اس کے لئے سائنسی تحقیق تسلسل کے ساتھ شب و روز جاری ہے؛ مگر انٹرنیٹ کے بے حیائی پر مبنی پروگراموں کو روکا جائے، اس کی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی ؛ کیوں کہ یہ ان شیطانی مقاصد کو پورا کررہے ہیں، جن کی مغرب تبلیغ کرتا ہے۔
’’ماحول ‘‘ کے بنانے اور بگاڑ نے میں اس وقت ذرائع ابلاغ کا سب سے زیادہ موثر رول ہے ؛ چنانچہ پچھلے دس سالوں میں اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے ماحول میں اخلاقی اعتبار سے تباہ کن بدلاؤ آیا ہے، مشرقی قدریں اب دقیانوسیت سمجھی جاتی ہیں، گرہست بوڑھی خواتین میں جو حیا باقی ہے، نوخیز اور نوجوان لڑکیوں میں اس کا تصور دشوار ہے، مسلم معاشرہ میں بھی اوڑھنیاں گلوبند بنتی جارہی ہیں، چہرہ چھپانے کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، نقاب یا تو استعمال نہیں کیاجاتا ہے، یا ایسے نقاب استعمال کئے جاتے ہیں، جن کا مقصد اپنے آپ کو چھپانا نہیں ہے، نمایاں کرناہے، بیوٹی پارلر کی کثرت اور نئے نئے فیشنوں کی بہتات ہے، ’’ یوم عاشقاں ‘‘ اس اہتمام سے منایا جانے لگا کہ گویا یہ بھی کوئی تہوار ہو، یہ وہ ماحول ہے، جس نے نوجوان نسل کو اخلاقی بندھنوں سے آزاد ؛ بلکہ ان کا باغی بنا دیا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو مُلاّاور ’’مسجد کا لوٹا ‘‘کہا جاتاہے۔
’’ تعلیم ‘‘ انسان کے دماغ اور اس کی فکر کو متاثر کرنے والا طاقتور ہتھیار ہے، ماحول سے تو عام لوگ متاثر ہوتے ہیں ؛ لیکن تعلیم کی پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن پر حکمرانی ہوتی ہے، ایک زمانہ میں تعلیمی مواد میں اخلاقیات بھی شامل ہواکرتی تھی، مسلمانوں کے زیر انتظام اداروں میں اسلامیات کی تعلیم بھی ہواکرتی تھی، لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے بجائے جداگانہ تعلیم کو ترجیح دی جاتی تھی، اساتذہ کے لئے اچھے اخلاق کے حامل ہونے کو ضروری خیال کیاجاتا تھا، مختلف مذاہب کی عبرت آمیز باتیں اور کہانیاں بھی نصاب میں شامل ہوتی تھیں، اس سے طلبہ میں مثبت سوچ جنم لیتی تھی، اگر به تقاضۂ عمر اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف سے غفلت بھی ہو تو بہر حال ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی تھی کہ حیا، تواضع، دوسروں کی جان و مال او رعزت و ناموس کی حفاظت، بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت اعلیٰ قدریں ہیں، اور یہی انسان کی شرافت کے لئے معیار ہیں ؛ لیکن اب ہمارے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی، اسکولوں میں جنسیات کی تعلیم نے رہی سہی اخلاقی قدروں کو بھی تباہ کردیا ہے، جداگانہ تعلیمی نظام کے بجائے مخلوط تعلیمی نظام کا نہ صرف غلبہ ہوگیا ؛ بلکہ اس کو قابل فخر شمار کیا جانے لگا، اسکولوں کے اشتہارات میں بھی خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا ہے، افسوس کہ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والی اکثر درسگاہیں بھی اسی طرزپر چل رہی ہیں، کلچرل پروگرام کے نام پر ڈانس سکھائے جاتے اور ڈانس پروگرام رکھے جاتے ہیں ۔
غرض کہ انسان کے افکار و اعمال پر اثر انداز ہونے والے یہ تین مؤثر ترین ذرائع … ابلاغ، ماحول، تعلیم… اس وقت برائی، بے حیائی اور مادہ پرستی کے نقیب بنے ہوئے ہیں اور بحیثیت مجموعی ان کی وجہ سے نئی نسل اخلاقی تباہی و بربادی کے آخری کنارے پر کھڑی ہوئی ہے، ان حالات میں ہر انسان اور خصوصاً ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہو اورانہیں اس تباہی سے بچانے کی کوشش کرے، صورت حال یہ ہے کہ بے دینوں کا تو کیا پوچھنا ؟ جو لوگ بظاہر دین دار ہیں، ان کے بچے بھی مغرب کی حیا سوز قدروں کے دل دادہ ہیں اوردین و اخلاق کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں، یہ صورت حال فرقہ وارانہ فسادات، معاشی پسماندگی اور تعلیمی پچھڑاپن سے بھی زیادہ قابل توجہ اور قابل فکر ہے، تعلیم گاہوں کا نظام کچھ ایسا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو اسکول پہنچادیا جاتا ہے، اسکولوں کے تعلیمی اوقات اور کبھی لوگوں کے مقام رہائش سے ان کا فاصلہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ انہیں صبح میں جلد سے جلد گھر سے روانہ ہوجانا پڑتا ہے، پھر نصاب اتنا بھاری بھر کم ہے کہ اکثر بچوں کو ٹیوشن بھی کرنا پڑتا ہے ؛ چنانچہ گھر واپس ہونے کے بعد ٹیوشن پڑھتے ہیں، پھر ہوم ورک اتنا زیادہ ہوتاہے کہ اس کے بعد وہ اس میں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو پڑھنے لکھنے کے درمیان ہی چھوٹے بچوں کو نیند آجاتی ہے، یہ وہ صورت حال ہے، جس میں بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے، انہیں جوانوں سے بھی بڑھ کر کام کرنا ہوتاہے، اس کا اثر صحت پر تو پڑتاہی ہے، ساتھ ہی ساتھ ان کے پاس روزانہ دینی تعلیم کے لئے کوئی وقت باقی نہیں رہتا، ہفتہ میں ایک دن اتوار کو چھٹی ہوئی تو ماں باپ اور بچے دونوں اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اس دن کو ایک ساتھ تفریح میں گزاراجائے، اس طرح روز مرہ کے معمول میں دینی و اخلاقی تعلیم کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی۔
موسم گرما میں اسکولوں اور کالجوں میں جو تعطیل دی جاتی ہے، یہی ایک ایسا موقع ہے، جسے ہم اپنے نو نہالوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں، یہ تعطیل کم و بیش پچاس دن کی ہوتی ہے، اگر اس میں سے چالیس دن بھی ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نکالیں اور روزانہ چھ گھنٹے ان کو تعلیم دلائیں تو دو سو چالیس گھنٹے ہوتے ہیں، عام طور پر تعلیم گاہوں میں سال میں دو سو دنوں تک تعلیم ہوتی ہے، گویا سال کے لحاظ سے روزانہ ایک گھنٹہ سے زیادہ تعلیم کا اوسط ہوا، اگر ان اوقات کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے، تو یہ کم نہیں ہیں، ان اوقات میں بچوں کی استعداد اور ان کی عمر کے لحاظ سے قرآن مجید کا ناظرہ، کچھ سورتوں کا حفظ، ضروری دینی مسائل، سیرت نبویؐ، اردو پڑھائی و لکھائی، وضوء و نماز کی عملی مشق، جیسے اہم موضوعات سے طلباء و طالبات کو آشنا کیا جاسکتا ہے، اور چند سالوں میں ان کو معتدبہ تعلیم دی جاسکتی ہے، اس مقصد کے لئے دینی اداروں اور تنظیموں کو گرمائی کلاسس کھولنے چاہئیں اور جو ادارے ان کلاسوں کا نظم کر رہے ہیں، طلبہ کو ان سے استفادہ کرنا چاہئے، گھروں میں اچھے اساتذہ کے ذریعہ ٹیوشن پڑھوانا چاہئے، دینی جماعتیں اگر کوئی تعلیمی و تربیتی پروگرام چلاتی ہوں تو ان سے استفادہ کرنا چاہئے، میرے تجربہ میں نوجوان اگر کچھ عرصہ تبلیغی جماعت میں نکل جائیں تو انہیں بڑا دینی نفع پہنچتا ہے، کم وقت میں وہ نماز وغیرہ کے ضروری مسائل سے واقف ہوجاتے ہیں ؛ اس لئے اگر سر پرست حضرات اپنے بچوں کو اس سے وابستہ کریں تو ان شاء اللہ بہت مفید ہوگا، دینی جماعتوں سے نوجوانوں کے وابستہ ہونے کا ایک بڑا نفع یہ ہے کہ ان کو اچھے دوستوں کا حلقہ مل جاتا ہے۔
بہر حال سرپرستوں کو چاہئے کہ گرمائی تعطیل کی اس مہلت کو اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور انہیں اخلاق اور بہتر اعمال سے آراستہ کرنے میں استعمال کریں کہ اس سے بڑھ کر ان کے حق میں کوئی اور بھلائی نہیں ہوسکتی۔