• Fri, 06 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سفر ِ حج اورسفر ِ آخرت

Updated: June 07, 2024, 4:11 PM IST | Imam Ghazali Rahmatullah | Mumbai

خوب یاد رکھو کہ بجز خالص کے کوئی ارادہ اور کوئی عمل اس کے ہاں قبول نہیں۔ پس خاص طور پر، جس بات میں ریا ہو اور شہرت کی تلاش ہو، اس کو ترک کر دو۔ اس سے بُری بات کیا ہوسکتی ہے کہ سفر تو بادشاہ سے ملاقات کے لئے ہو، اور مقصود اس کے سوا کچھ اور ہو۔

Pilgrims are fortunate that they got the opportunity to attend, now it is necessary for them to remember the journey to the Hereafter at every step of the Hajj and to collect zada-e-rah for this journey. Photo: INN
حجاج کرام خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں حاضری کا موقع ملا، اب اُن پر لازم ہے کہ حج کے ہر قدم پر سفرِآخرت کو یاد کریں اور اس سفر کے لئے زادِ راہ جمع کریں۔ تصویر : آئی این این

اے دوست! خانہ کعبہ خدائے عزوجل کا گھر ہے، یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کا دربار ہے۔ تم اُس کے دربارِ شاہی میں جا رہے ہو، گویا اسی کی زیارت کو جا رہے ہو۔ بے شک اس دنیا میں تمہاری آنکھ دیدارِ الٰہی کی استعداد نہیں رکھتی لیکن بیت اللہ کا قصد کرنے سے، اس گھر کی زیارت کرنے سے، اُسی کے وعدے کے بموجب، تمہیں آخرت میں رب البیت کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے۔ حج کا یہ سفر بالکل آخرت کے اس سفر کی طرح ہے جس کے بعد اس کا دیدار ہوگا۔ دیکھو! آج کا یہ سفر ضائع نہ ہو، تاکہ آخرت میں مقصود، زیارت، یعنی دیدارِ الٰہی، ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ہر گام سفرِ آخرت کو یاد رکھو، آخرت کی تیاری کرو، تب ہی مقصودِ سفر حاصل ہوگا۔ 
اے دوست! یاد رکھو، اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے۔ جتنی شوق کی آگ تیز ہوگی، اتنی ہی مقصد تک رسائی یقینی ہوگی۔ اللہ سے خوب محبت کرو۔ جس دل میں اللہ سے محبت ہوگی، اس دل میں دیدارِ کعبہ کا شوق بھڑک اُٹھے گا، کہ وہ محبوب کے دیدار کا وسیلہ ہے۔ محبوب سے جس چیز کو بھی نسبت ہوجائے، محبت کرنے والے کو وہ چیز جان و دل سے محبوب ہوجاتی ہے۔ اس کا شہر، اس کی گلی، اس کا گھر، اس کا در۔ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے ’میرا گھر‘ کہا ہے، اگرچہ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی گھر میں رہے۔ جب محبوبِ لامکاں نے ایک مکان کو اپنا گھر بنا لیا ہے، تو کُوئے یار تک پہنچنے کے لئے شوق سے بے تاب دل کی رفاقت سب سے بڑھ کر حصولِ مقصد کی ضامن ہے۔ 
 تم اگر خانہ کعبہ کے مشتاق اس لئے ہو کہ وہ اللہ کا گھر ہے، تو صرف اسی نسبت سے اس کا سفر کرو۔ گویا اپنی نیت اور ارادہ صرف اللہ کیلئے خالص کرلو۔ خوب یاد رکھو کہ بجز خالص کے کوئی ارادہ اور کوئی عمل اس کے ہاں قبول نہیں۔ پس خاص طور پر، جس بات میں ریا ہو اور شہرت کی تلاش ہو، اس کو ترک کر دو۔ اس سے بُری بات کیا ہوسکتی ہے کہ سفر تو بادشاہ سے ملاقات کے لئے ہو، اور مقصود اس کے سوا کچھ اور ہو۔ دل میں بیت اللہ اور رب البیت کا مقام پہچانو گے، اور یاد رکھو گے، تو پھر ارادہ اس سے کسی کم تر چیز کا نہ کرو گے۔ 
سفرِحج بھی، ہر سفر کی طرح، ترکِ علائق سے شروع ہوتا ہے۔ گھر چھوڑتے ہو، گھر والے چھوڑتے ہو، مال و تجارت ترک کرتے ہو، وطن سے جدا ہوتے ہو، مگر اس سفر میں کامیابی کے لئے سب سے پہلے ان حقوق سے تعلق منقطع کرو جو دوسروں کے اپنے ہاتھوں میں دبا رکھے ہیں، اور ایسے سارے حقوق حق داروں کو واپس کر دو۔ یاد رکھو، ذرہ برابر ظلم بھی اگر کسی پر کیا ہے تو وہ تمہارا قرض خواہ ہے۔ وہ تمہارا گریبان پکڑ کر کہتا ہے، تم کہاں جاتے ہو، شرم نہیں آتی کہ جاتے ہو شہنشاہ کے گھر، اور اپنے گھر میں اس کے حکم کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اس کی تعمیل کرو، ڈرتے نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ کہیں وہ تمہیں واپس نہ کردے۔ اس لئے، اگر اپنی زیارت کی قبولیت چاہتے ہو، تو خالص توبہ کر کے ہر گناہ سے تعلق توڑ لو، حقوق جو ظلم سے لئے ہیں واپس کر دو، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جائو۔ 

یہ بھی پڑھئے: آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا

اپنے دل کا علاقہ ماسوا اللہ سے بھی منقطع کرلو، اور جس طرح اپنے سفر کا رُخ اس کے گھر کی طرف کرلیا ہے، اپنے دل کا رُخ بھی اسی کی طرف کرلو۔ وطن سے تعلق اس طرح منقطع کرلو جیسے پھر لوٹ کر نہ آئو گے، اہل و عیال کے لئے وصیت لکھ کر جائو۔ سفر کا سامان کرتے ہو، تو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہو کہ کسی جگہ کمی نہ پڑے۔ یاد رکھو کہ آخرت کا سفر اس سفر کی بہ نسبت کہیں زیادہ طویل اور کٹھن ہے، اور اس سفر کا سامان تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے علاوہ ہر مال و اسباب دغا دے گا، اور موت کے وقت پیچھے رہ جائے گا۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمالِ حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد تمہارا ساتھ نہ دیں، اور اس سفر سے تم سفرِ آخرت کے لئے تقویٰ کا زادِ راہ زیادہ سے زیادہ جمع کرلو۔ 
اے دوست! اہل و عیال اور مال و اسباب سے رخصت ہوکر جب سواری پر سوار ہو، تو اللہ کا شکر ادا کرو جس نے خشکی پر، پانی میں، ہوا میں، ہر قسم کی سواری کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔ حج کی سواری پر نظرپڑے، تو اپنے جنازے کو نگاہوں کے سامنے رکھو، جس پر سوار ہوکر ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا۔ آج حج کی سواری پر سفر اس طرح کرو کہ جنازے پر سفر کرنا آسان ہو۔ کیا معلوم کہ موت، سفرِحج سے بھی زیادہ قریب ہو۔ 
اے دوست! احرام کے لئے چادریں خریدو، تو وہ دن یاد کرو جب تم کفن کی دو بے سلی چادروں میں لپیٹے جائو گے۔ ہوسکتا ہے کہ حج کا سفر پورا نہ ہو اور راستے ہی میں موت آجائے، مگر کفن میں لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات تو یقینی ہے۔ جس طرح اللہ کے گھر کی زیارت روزمرہ کا لباس اُتار کر اس سے مخالف لباس پہنے بغیر نہیں ہوسکتی، اللہ کی زیارت بھی اس کے بغیر نہ ہوگی کہ دنیا کو اُتار کر اس سے مخالف لباس میں ملبوس ہوجائو۔ 
اے دوست! شہر سے نکلتے ہو تو، اہل و عیال اور وطن سے جدا ہوکر، ایسے سفر پر جاتے ہو جو دنیا کے اور سفروں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ سوچنا چاہئے کہ میرا مقصد کیا ہے، میں کہاں جا رہا ہوں اور مجھے کس کی زیارت مطلوب ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اس سفر سے تمہارا مقصود اللہ تعالیٰ ہے، اسی کے گھر جارہے ہو، اسی کی پکار پر، اسی کے شوق دلانے سے، اسی کے حکم سے، سارے تعلقات ترک کرکے، اُس گھر کی طرف جا رہے ہو جس کی شان انتہائی عظیم ہے، جس کی زیارت کے وسیلے سے خود صاحب ِ گھر کی زیارت تمہیں نصیب ہوگی۔ مگر اُمید اپنے اعمال سے نہ رکھو، بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر رکھو، وہ میرے ساتھ ہوگا، میری مدد کرے گا، میری دست گیری و رہنمائی کرے گا، مجھے منزلِ مراد تک پہنچائے گا، یہ کرم اس کا کیا کم ہے کہ اس سفر سے اگر تم خانہ کعبہ نہ بھی پہنچ سکو، اور راستے ہی میں موت آجائے، تو بھی اس سے ملاقات اس حال میں ہوگی کہ تم اس کی طرف سفر میں ہو۔ پھر اس کے سارے وعدے پورے ہوں گے۔ کیا اس نے وعدہ نہیں فرمایا ہے:’’ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسولؐ کی طرف ہجرت کے لئے نکلے، پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا۔ ‘‘ (النساء:۱۰۰)
شہر سے نکل کر میقات تک سفر کرو، تو موت کے بعد جسم سے نکل کر میقاتِ قیامت تک کے سفر کے احوال یاد کرو۔ قبر کی تنہائی، اور عذاب، آگے کے اندیشے اور خطرات، منکر نکیر کے سوالات!
اے دوست! میقات پر لبیک کہو، تو دل خوف و اُمید سے لرز جائے۔ یہ ربِ کائنات کی پکار ہے جس پر تم کہہ رہے ہو کہ میں حاضر ہوں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لا لبیک ولاسعدیک (نہ تم خدمت کے لئے حاضر ہو، نہ ہمارے لئے مستعد)۔ ابوسلیمان دارانی ؒکہتے ہیں، میں نے سنا ہے کہ جو شخص ناجائز مال رکھتے ہوئے حج کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’نہ تیرا لبیک معتبر ہے نہ سعدیک، جب تک تو وہ چیز نہ واپس کردے جو دوسروں کی تیرے قبضے میں ہے۔ ‘‘ مگر انتہائی خوف کے ساتھ، پوری اُمید رکھو کہ وہ جواب قبول فرمائے گا۔ اپنے عمل اور طاقت پر نہ جائو، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر تکیہ رکھو۔ 
اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہو تو وہ وقت بھی یاد رکھو جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اُٹھ کر میدانِ قیامت میں جمع ہوجائیں گے۔ سوچو کہ میں کس صف میں جائوں گا اور میرا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا؟ مقربین میں ؟ اصحاب الیمین میں ؟ یا اصحاب الشمال میں ؟
اے دوست! جو حرم میں داخل ہوجاتا ہے، مامون ہوجاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور آگ کو یاد کرو، اور اس سے پوری اُمید رکھو کہ وہ تمہیں اپنے غضب اور اپنی آگ سے بھی مامون رکھے گا۔ یہ خلش بھی دل میں رہے کہ میں اس قُرب کا اہل نہ ہوا تو کہیں مستحقِ غضب نہ ٹھہروں۔ مگر رحمٰن کے گھر تک پہنچ جانے کے بعد، اس کا مہمان بن جانے کے بعد، اس کے جوار میں بسیرا کر لینے کے بعد، چاہئے کہ ہر جگہ اُمید، خوف پر غالب رہے۔ اس کا کرم عام ہے اور خانہ کعبہ کے شرف و عظمت کی رعایت سے آنے والے کا اکرام ہوتا ہے، اور پناہ مانگنے والے کی حرمت تلف نہیں کی جاتی۔ 
اے دوست! ایسا نہ ہو کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑے، اور نگاہِ دل عظمت ِ کعبہ پر نہ ہو۔ جو ’البیت‘ کو دیکھتا ہے، وہ یہ جانے کہ گویا ’رب البیت‘ کو دیکھتا ہے۔ اس کی تجلی سے ہوش و حواس ٹوٹ پھوٹ جائیں تو بھی کم ہے۔ شکر کرے کہ اس نے اس مقام تک پہنچایا، اس وقت کو یاد کرے جب چہرے اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ کی نعمت سے شادکام ہوں گے، اور اُمید رکھے کہ آج جس طرح اس کا گھر سامنے ہے، کل اسی طرح وہ خود نگاہوں میں ہوگا۔ 
اے دوست! طواف کا قصد کرو تو دل ذوق و شوق، خوف و رجا اور محبت و تعظیم سے بھرا ہوا ہو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ طواف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جسم بیت اللہ کا طواف کرے۔ نہیں، طواف کا برتر و اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ دل رب البیت کا طواف کرے، یاد کا مرکز وہی بن جائے۔ خانہ کعبہ عالمِ ظاہر میں دربارِ الٰہی کانمونہ ہے۔ ان فرشتوں کی طرح طواف کرو جو عرش کا طواف کرتے ہیں۔ 
حجرِاسود کو بوسہ دو تو یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کررہے ہو۔ حجرِاسود، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا داہنا ہاتھ زمین پر ہے، جس سے وہ اپنے بندوں سے اس طرح مصافحہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے (مسلم)۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ یہاں پہنچ گئے، اب اللہ سے وفائے عہد کو پختہ تر کرلو، اور بے وفائی سے بچنے اور اس کے غضب سے ڈرتے رہنے کا عزم تازہ کرلو کہ اس کیلئے یہی مناسب اور موزوں وقت اور لمحہ ہے۔ 
اب خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ لو، گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ رہے ہو۔ ملتزم سے چمٹ جائو، گویا کہ اس سے قریب ہوگئے۔ درِ یار پر سر رکھ دو، جیسے کوئی خطاکار دامن پکڑتا ہے، معافی کیلئے عاجزی کرتاہے۔ یہ وقت اور مقام الحاح و زاری، توبہ واستغفار، ندامت و شوق اور رجا و خوف کا وقت اور مقام ہے جو ضروری نہیں کہ زندگی میں بار بار آئے۔ 
رو رو کر عرض کرو کہ ’’آپ کادامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑ لوں ؟ میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کوئی نہیں۔ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا، آپ کے دَر سے نہ ہٹوں گا، جب تک آپ میری خطائوں کو معاف نہ فرمائیں اور آئندہ امن میں نہ رکھیں۔ آپ کریم ہیں، درِ کریم پر آیا ہوں، بصد عجز و نیاز آیا ہوں، بصد اُمید آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں۔ ‘‘ 
اے دوست! صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، تو ایک خطا و عصیاں کار، عاجز، ذلیل، مسکین و درماندہ غلام کی طرح جو بادشاہی محل کے صحن میں چکر لگائے۔ کبھی خلوص کا اظہار کرو شاید کہ بادشاہ نظرِ رحمت سے سرفراز کرے، کبھی اندیشے سے غمناک ہو کہ نہ معلوم بادشاہ قبول کرے یا نہ کرے اور میرے بارے میں کیا حکم کرے۔ بار بار آئو اور جائو کہ اوّل دفعہ میں رحم نہ کرے، تو دوسری دفعہ میں کردے۔ یہ بھی خیال کرو کہ میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان بھی اسی طرح پھرنا ہوگا، ایک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں خطائیں ہونگی۔ نہ معلوم کون سا جھک جائے، اسی اُمید و بیم میں صفا اور مروہ کے درمیان چلتے رہو۔ 
اے دوست! عرفات کے میدان میں قدم رکھو تو میدانِ قیامت کا منظر یاد کرو۔ یہاں، لوگوں کا اژدہام، آوازوں کا بلند ہونا، زبانوں کااختلاف، رنگوں کا اختلاف۔ وہاں، قیامت کے دن اوّل و آخرسب جمع ہوں گے، سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سب کے چہروں کے رنگ مختلف ہوں گے، سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ یاد رکھو یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان رحمتوں کو ان صالحین کے قلوب جذب کرلیتے ہیں جو ایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑاتے ہیں، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رحمت ِ الٰہی کے نزول کے لئے کوئی طریقہ اس کے برابر نہیں کہ صالحین کی ہمتیں مجتمع ہوجائیں، اور ایک وقت میں ایک زمین پر صالحین کے قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ گمان نہ کرنا کہ ان کی اُمیدیں پوری نہ ہوں گی، یہ محروم رہیں گے اور ان کی کوششیں بے کار جائیں گی۔ نہیں، ان پر وہ رحمت نازل ہوگی جو سب کو ڈھانپ لے گی۔ یہ وہ مقام ہے کہ قبولیت کی اُمید ِکامل ہی قبولیت کی نشانی ہے۔ بس ٹوٹ کر گریہ وزاری کرو، اور حق تعالیٰ سے مانگو۔ 
اے دوست! کنکریاں مارنے میں نہ تو نفس کو کوئی مزہ ہے نہ عقل کو۔ اپنے نفس کو اور اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر نگوں کر دو۔ غلامی اور بندگی میں نفس و عقل کے لئے لذت بس تعمیل ِ ارشاد میں ہوتی ہے۔ تعمیل ِ ارشاد ہی سے دل میں رب العالمین کی یاد قائم ہوتی ہے۔ اقامت ِ ذکر اللہ ہی کے لئے طواف ہے، سعی ہے، رمی جمار ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی بروایت عائشہؓ)
قربانی بھی اطاعت امر کا اظہار ہے، اسی لئے باعث ِ تقرب ہے۔ اللہ سے اُمید رکھو کہ قربانی کے ہر جز کے بدلے تمہارے ہر جز کو آگ سے آزاد کردے گا۔ 
پس اے دوست! سنو! حج کے ہر قدم پر سفرِآخرت کو یاد کرو، اور اس سفر کے لئے زادِ راہ جمع کرو، تاکہ کل تم ربِ کعبہ کے انعامات سے سرفراز ہو، اور اس کی زیارت سے شادکام! (احیاء العلوم، جلداول سے ماخوذ: خرم مرادؒ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK