صراط مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ آدمی سمع و بصر و فواد کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے زندگی گزار رہا ہو۔ یہ سمع و بصر و فواد کیا ہیں؟ یہ وہی چیزیں ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔
EPAPER
Updated: September 06, 2024, 4:23 PM IST | Maulana Wahiduddin Khan | Mumbai
صراط مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ آدمی سمع و بصر و فواد کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے زندگی گزار رہا ہو۔ یہ سمع و بصر و فواد کیا ہیں؟ یہ وہی چیزیں ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔
صراط مستقیم کیا ہے؟
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کیلئے ایک محکم راستہ مقرر کردیا ہے۔ ہر چیز نہایت درجہ پابندی کے ساتھ اسی مقرر راستہ پر چلی جارہی ہے (حٰم السجدہ:۱۱) حتیٰ کہ شہد کی مکھی بھی (نحل: ۶۸۔ ۶۹)۔ جس طرح کائنات کی دوسری چیزوں کی صحیح کارکردگی کیلئے ضروری ہے کہ وہ سبیل اللہ پر بالکل ذلول (نرم مزاج، حلیم الطبع، تابعدار، فرماں بردار) بن کر چلتی رہیں اسی طرح انسان کی کامیابی کا راز بھی اسی میں ہے۔ البتہ انسان چونکہ حالت ِ امتحان میں ہے اس لئے اس کو صرف بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے اور اس کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارادے سے خواہ اس کو پکڑ لے یا اس سے انحراف کرے (دہر: ۳)۔ جب خدا نے خو د یہ بتادیا ہے کہ سبیل اللہ کیا ہے تو انسان کو چاہئے کہ اس پر اعتماد کرے اور اس یقین کے ساتھ اس کو اختیار کرلے کہ یہی واحد راستہ ہے جو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے (ابراہیم: ۱۲)۔ اگر آدمی کسی وقتی سبب سے متاثر ہوکر کسی اور راستہ کی طرف جھکا تو سبیل اللہ اس سے چھوٹ جائے گی اور جس سے سبیل اللہ چھوٹ جائے اس کیلئے دنیا میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ (انعام:۱۵۳)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی انسان انسان ہے جو صراط مستقیم پر ہو، جو صراط مستقیم سے ہٹ جائے وہ گویا مقامِ انسانیت سے گر گیا:
’’کیا وہ شخص جو (جانور کی طرح) اوندھے منہ چلتا ہو، راہ یافتہ ہے یا وہ شخص جو (انسان کی طرح) سیدھا صراط مستقیم پر چل رہا ہو۔ کہہ دو، خدا ہی نے تم کو پیدا کیا، اور تم کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے مگر تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔ ‘‘
(ملک: ۲۳۔ ۲۲)
معلوم ہوا کہ صراط مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ آدمی سمع و بصر و فواد کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے زندگی گزار رہا ہو۔ یہ سمع و بصر و فواد کیا ہیں ؟ یہ وہی چیزیں ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں، جو ایک ’’جاندار‘‘ کو محض جاندار کے مقام سے اٹھا کر انسان کے مقام پر کھڑا کرتی ہیں۔ اس کے برعکس حیوانوں کی مثال ہے، جو اگرچہ چلتے پھرتے ہیں مگر سمع و بصر و فواد کی ان صلاحیتوں سے محروم ہیں جو مخصوص طور پر انسانوں کو دی گئی ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جو لوگ انسانی صلاحیتوں کا مالک ہوتے ہوئے ان سے کام نہ لیں تو انہوں نے گویا اپنے کو مقام انسانیت سے گرا کر مقام حیوانیت پر ڈال دیا چنانچہ ان کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ وہ کتے کے مانند ہیں (اعراف: ۱۷۶)، وہ گدھے کے مانند ہیں (جمعہ: ۵)، وہ چوپایہ کے مانند ہیں (فرقان: ۴۴) حتیٰ کہ ان کی بگڑی ہوئی قسموں کو بندر اور سور (مائدہ:۶۰) تک قرار دیا گیا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’بیشک اللہ کے نزدیک جانداروں میں سب سے بدتر وہی بہرے، گونگے ہیں جو (نہ حق سنتے ہیں، نہ حق کہتے ہیں اور حق کو حق) سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ ‘‘ (انفال:۲۲)
ایک بات جو عقل کے استعمال سے بخوبی سمجھی جاسکتی ہو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا گویا مخاطب کے پاس عقل ہی نہیں، اللہ کی نظر میں آدمی کو اندھا بہرا بنادیتا ہے۔
قرآن پاک کی سورہ التین میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا۔ پھر اس کو بدترین پستی میں ڈال دیا، اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ اول الذکر سے مراد مقام انسانیت اور ثانی الذکر سے مراد مقام حیوانیت ہے۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مقام انسانیت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو مقام حیوانیت میں ڈال دیا۔ اب اس کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پستی سے اٹھا کر بلندی کی طرف لے جائے:
’’اگر ہم چاہتے تو اپنی نشانیوں کی بدولت اس کو بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ زمین سے لگ گیا اور اپنی خواہش کی پیروی کی۔ ‘‘ (اعراف: ۱۷۶)
اس قسم کی آیتوں میں جن لوگوں کو اندھا، بہرا اور بے عقل کہا گیا ہے وہ عضویاتی معنوں میں اندھے بہرے نہیں ہوگئے تھے، نہ پاگلوں کی طرح فی الواقع کسی گڑھے میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے وقت میں علم اور دانش کے امام سمجھے جاتے تھے۔ وہ عالیشان مکانات اور قلعے بناتے تھے۔ تجارت، زراعت اور باغبانی کے ماہر تھے۔ وہ قوموں اور ملکوں کی قیادت کررہے تھے۔ سورہ اعراف کی مذکورہ بالا آیت (۱۷۶) کے سلسلے میں شانِ نزول کی جو روایتیں ہیں ان میں عرب کے امیہ بن ابی الصلت کا نام آتا ہے جو نہ صرف اپنی امارت اور فیاضی کیلئے بلکہ شاعری اور حکمت کیلئے بھی مشہور تھا۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کے آخر زمانہ کے ایک شخص بلعام ابن بعور کا نام آیا ہے جوعالم اور زاہد کی حیثیت سے اس وقت کے عراق کا ممتاز ترین آدمی تھا۔ عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ وہ قریش کے سرداروں کو اس کا مصداق سمجھتے تھے جو کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے پورے عرب کے لیڈر بنے ہوئے تھے۔ (البحرالمحیط)
پھر اندھے بہرے ہونے کا مطلب کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے انسان اور حیوان کے فرق پر غور کیجئے۔ حیوان میں بظاہر وہ ساری چیزیں ہوتی ہیں جو انسان کے اندر ہیں۔ وہ چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، دیکھتا سنتا ہے، دکھ درد کا احساس کرتا ہے۔ پھر وہ کیا چیز ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے؟ ماہرین حیاتیات بتاتے ہیں کہ وہ فرق یہ ہے کہ انسان تصوری فکر کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی Conceptual Thought۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سوچ کر کسی بات کو ماننا بغیر اس کے کہ وہ چیز ایک مادی حقیقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کیلئے سامنے موجود ہو۔ حیوانات اس قسم کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
اسی سے مقام انسانیت اور مقام حیوانیت کے فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مقام حیوانیت یہ ہے کہ آدمی کو مادی حقائق اور مفاد و مضار کے سوا کوئی اور چیز متحرک نہ کرسکے۔ اس کے برعکس مقام انسانیت یہ ہے کہ ذہنی طور پر کسی چیز کی سچائی ثابت ہوجانے کے بعد اس کو مان لیا جائے اور اس کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے۔ ‘‘ (بقرہ:۲)
قرآن میں ہدایت ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کا حال یہ ہو کہ صرف مادی حقائق کا زور یا نفع و نقصان کا اندیشہ ہی انہیں متاثر کرسکتا ہو۔ اس کتاب سے وہ لوگ ہدایت پاتے ہیں جو ایسی صداقتوں کو ماننے کے لئے تیار ہوں جن کی اہمیت تمام تر ذہنوں میں ہوتی ہے۔ خارجی حقائق کا زور جن کو منوانے کے لئے دنیا میں موجود نہیں ہوتا۔ گویا ایمان بالشہود مقام حیوانیت ہے اور ایمان بالغیر مقام انسانیت۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کی بابت نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی، اس کو کچھ نہ کچھ جھجک اور تردد اور فکر ضرور ہوا، سوائے ابوبکرؓ کے۔ جب میں نے ان کو اسلام کے متعلق بتایا تو انہوں نے کسی تردد اور تامل کے بغیر فوراً اسلام قبول کرلیا۔ ‘‘ (البدایہ والنہایہ، ج۳، ص۲۷)۔ یہ مقام انسانیت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے جو ابوبکر صدیقؓ کو حاصل تھا۔ وہ خالص جوہر ذاتی کی بنیاد پر کسی چیز کی قدر وقیمت کو سمجھ سکتے تھے۔
کوئی شخص پیغمبر اسلام کی اعلیٰ شخصیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوا، کوئی معجزات سے، کوئی قرآن کے مافوق ادب سے، کوئی فتح مکہ سے، کوئی اسلام کی مادی برکات سے، مگر ابوبکر صدیقؓ اتنے بلند فکری مقام پر تھے کہ مجرد حسن و قبح کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول یا رد کرسکتے تھے۔ اسی طرح جب حضرت ابوبکرؓ نے مرض وفات کے وقت حضرت عمرفاروقؓ کے حق میں خلافت کی وصیت فرمائی تو لوگوں میں عام بے چینی پیدا ہوگئی:
طلحہ بن عبیداللہ ؓ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ لوگوں نے مجھے اپنا قاصد بنا کر آپ کے پاس بھیجا ہے۔ وہ کہہ ر ہے ہیں کہ ہم لوگوں پر حضرت عمرؓ کی سختی آپ نے اپنی زندگی ہی میں دیکھ لی ہے، پھر اپنے بعد جب ہمارے کام آپ ان کے حوالے کردیں گے تو کیا حال ہوگا اور اللہ آپ سے ان کے بارے میں سوال کرے گا پھر آپ اس وقت کیا جواب دیں گے؟
مگر جو لوگ مقام انسانیت کے اعلیٰ درجہ پر تھے وہ ظاہر سے گزر کر باطن کو دیکھ رہے تھے، انہیں نظر آرہا تھا کہ حضرت عمرؓ کی سختی اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دین کے لئے ہوتی ہے اور ان کے سینہ کے اندر جو قلب خاشع ہے وہ ان کے حق پر قائم رہنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ ان کے ظاہر پر نہ جاؤ، کیونکہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے۔ یہی بات خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے بھی دوسرے الفاظ میں فرمائی تھی۔
جو شخص صراط مستقیم پر ہو اس کے اندر اعتراف کا اعلیٰ ترین مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ قریش نے آپؐ کی زبان سے قرآن کو سنا تو بول اٹھے ’’یہ تو شاعر کا کلام ہے‘‘۔ شاعر کا لفظ ان کے یہاں کوئی برا لفظ نہ تھا مگر اللہ کے نزدیک وہ ’’ایمان قلیل‘‘ تھا، ایمان کلی نہیں تھا ’’اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ مگر تم لوگ بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔ ‘‘(حاقہ:۴۱) وہ اس کو شاعر کا کلام بتا کر یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یہ بس ایک ادبی کارنامہ ہے۔ اس میں ملت ابراہیمی کی قدیم تعلیمات کو اچھوتے انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ اس طرح کتاب ِ الٰہی کی یہ حیثیت ہوجاتی تھی کہ ایک ادبی اعتراف اس کا حق ادا کرنے کے لئے کافی ہے۔ حالانکہ قرآن کا اصلی حق یہ تھا کہ اس کو صداقت ِ اعلیٰ کا اظہار سمجھا جائے اور اس کو ’’حق الیقین‘‘ کے ساتھ پکڑ لیا جائے۔
متفرق اور منحرف راستوں کے درمیان اللہ کا سیدھا راستہ کیا ہے؟ اس کو قرآن میں نہایت وضاحت کے ساتھ بتادیا گیا ہے۔ انفرادی زندگی کے بارے میں بھی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں بھی۔
قرآن کی چھٹی سورہ میں فرمایا گیا:
’’کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو، اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور خدا کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور دیگر راستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) خدا کے راستے سے الگ ہو جاؤ گے ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ ‘‘ (انعام:۱۵۱؍تا ۱۵۳)
یہ انفرادی زندگی کی صراط مستقیم ہے اور اس کا خلاصہ ہے: توحید، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، خدا پر اعتماد، برائی سے بچنا، جان کا احترام کرنا، ظالمانہ رویہ سے پرہیز، لین دین میں دیانتداری، ہر حال میں انصاف پر قائم رہنا، خدا کے ساتھ عہد بندگی کو پورا کرنا اور ہر معاملہ میں تقویٰ کی روش ہی کو اختیار کرنا۔
جو لوگ صراط مستقیم پر ہوں وہ اللہ کے انعام یافتہ گروہ ہیں (فاتحہ)، ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لایا گیا ہے (ابراہیم)، ان کو خدا کی رحمت اور فضل سے خصوصی حصہ ملا ہے (نساء) حتیٰ کہ ان پر خدا کی نعمتوں کا اتمام کردیا گیا ہے (فتح)۔ اسے پڑھئے اور بار بار پڑھئے تو انداز ہ ہوگا کہ جو لوگ ان خصوصیات کے حامل ہوں گے ان کی زندگیاں عام انسانوں جیسی ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔