انسان کی بے فکری تو اس کے مزاج کا خاصہ ہے ہی، لیکن اس کی آنکھیں کھولنے اور اس کو عبرت کا درس سکھانے کے لئے اللہ عزوجل کی مشیت سے اس دنیا میں بے شمار امور پیش آتے ہیں۔ ان میں سے ایک موسمِ گرما ہے۔ دنیاوی گرمی کی شدت اور تمازت کو دیکھیں تو جہنم کی آگ کا خوف بھی ذہن میں رہنا چاہئے۔
اِن دنوں گرمی کی شدت سے ہر شخص پریشان تو ہے ہی مگر یہی گرمی غوروفکر کا ایک زاویہ بھی عطا کرتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔
اللہ عزوجل نے ہر جاندار کے اندر یہ عادت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ اپنی جان کو بچانے کے تئیں نہایت فکرمند اور متحرک ہوتا ہے۔ کوئی چیونٹی ہو یا مچھر، بکری ہو یا ہاتھی یا پھر انسان غرضیکہ جس مخلوق میں جان ہے، وہ اپنی جان بچانے کے لئے ہمیشہ فکرمند، چوکنا اور مستعد رہتا ہے۔ اور اپنی جان کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو فوری طور پر تدابیر اختیار کرنے والا بن جاتا ہے۔ اپنی جان بچانے کی یہ فکر دیگر مخلوقات میں تو سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی زندگی فقط اس دُنیا کی حدتک ہی ہے اور ان کو قیامت کےدن مٹی ہوجانا ہے لیکن انسان کی اس عجیب سی عادت پر حیرت ہوتی ہے کہ جس جان کو ایک دن جانا ہی ہے، اس کو بچانے کے لئے بڑا فکرمند رہتا ہے لیکن اس عذاب کو جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے یعنی جہنم کا عذاب اس سے خود کو بچانے کے لئے اس قدر لاپروائی برتتا ہے کہ بعض اوقات اس صورت حال پر کوفت ہوتی ہے۔
انسان کی یہ بے فکری تو اس کے مزاج کا خاصہ ہے ہی، لیکن اس کی آنکھیں کھولنے کے لئے، اس کو عبرت کا درس سکھانے کے لئے اللہ عزوجل کی مشیت سے اس دنیا میں بے شمار ایسے امور پیش آتے رہتے ہیں جو انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں اور جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ ہم انہیں آسمان و زمین کی وسعتوں میں اور خود ان کی ذاتوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کیلئے بالکل واضح ہو جائے گاکہ بے شک وہ ہی حق ہے ‘‘ (الفصلت: ۵۳) ویسے تو ان نشانیوں کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، اور ان کی تعداد بھی لامحدود بیان کی گئی ہےاس لئے کہ ان کا دائرۂ کار انسان کی ذہنی وسعت کے مطابق بہت وسیع ہوسکتا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم عبرت کے لئے حالیہ موسم کی بے تحاشہ گرمی کو ہی دیکھ لیں کہ جس نے ہر ذی روح کو بے چین کردیا ہے اور جس کے سبب پورے ملک میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے اور ہر جگہ لوگ اس سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ یقیناً اس موسم گرما میں بھی انسانوں کے لئے عبرت کی بہت بڑی نشانی موجود ہے۔ اس لئے کہ اس دنیا کی گرمی کا پھر بھی کوئی توڑ موجود ہے۔ کبھی کسی دور میں ہاتھ کے پنکھے جھلے جاتے تھے، پھر بجلی پر چلنے والے پنکھے، کولر اور اے سی جیسے انتظامات آگئے، اس کے باوجود موسم کی اس تمازت سے ہر ذی روح بے چین ہی رہتا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ گرمی وقتی ہوتی ہے۔ جون کے مہینے میں باران رحمت کے نزول کے ساتھ ہی اس میں افاقہ ہوجاتا ہے جبکہ جہنم کی گرمی کا موسم کبھی ختم نہ ہوگا، اور اس کی شدت کبھی کم نہ ہوگی بلکہ اس میں مستقل اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
صدحیف ہےانسان کی سوچ پر، اس کی بے فکری پر، اس کی لاپروائی پر، اس کی بے اعتنائی پر اور اس کی بے توجہی پر کہ وہ اس جزوقتی گرمی سے پریشان ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے تگ ودو کرتا ہے اور اُس مہلک اور جھلسادینے والی گرمی کو بھول جاتا ہے جو بہت زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہوگی، جس سے بچنے کی تنبیہ اللہ عزوجل نے بھی فرمائی ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اس پرسخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (تحریم: ۶)۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب انسان اس دنیا کی گرمی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرے اور اس سے باہر نکلنے کے راستے تلاش کرے تو اس کو یہ خیال ضرور آنا چاہئے کہ اللہ عزوجل نےجہنمیوں کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’ جب کبھی (جہنمی ) تکلیف سے تنگ آکر اس سے نکلنا چاہیں گے تو انہیں پھر اسی میں لوٹا دیا جائے گا کہ چکھو جلتی آگ کا مزہ۔ ‘‘ (حج:۲۲)
جہنم کی آگ سے بے تحاشہ خوف کھانے کے لئے انسان کو بس یہی بات کافی ہے کہ سورۃ الھمزہ میں اللہ عزوجل نے جہنم کی آگ کو سلگانے کی نسبت اپنی جانب کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ حطمہ (چورا چورا کر دینے والی آگ) کیا ہے، (یہ) اﷲ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ ‘‘ (الھمزہ:۵۔ ۶)
اس کے علاوہ قرآن مجید میں اور احادیث رسولؐ میں جہنم کی گھاٹیوں، وادیوں، وہاں کی آگ، وہاں پر مسلط فرشتے، اس کے دروازے، وہاں جہنمیوں کی درگت اور ان کی چیخ پکار، وہاں پر موجود سانپ، بچھو ودیگر عذاب دینے والے جانور، الگ الگ گناہوں پر جہنم میں ملنے والے الگ الگ عذاب کا مفصل ذکر جابہ جا آیا ہے جس کا مقصد سوئے ہوئے یا غافل انسان کو بیدار کرنا ہے۔ انسان ہے کہ دُنیا کی گرمی سے تو پریشان نظر آتا ہے، لیکن آخرت کی گرمی اور جہنم کی آگ کے تئیں اس کو کوئی فکر نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہوئی کہ کسی انسان کو سزائے موت کے لئے لے جایا جارہا ہو اور وہ اس انجام کی فکر چھوڑ کر پریشان ہورہا ہو کہ اس کی انگلی میں سوئی چبھ گئی ہے۔ کیا لوگ اس کی حماقت پر نہیں ہنسیں گے؟ کہ جس کا انجام موت ہو وہ انگلی میں سوئی چبھنے کی فکر میں ڈوبا جا رہا ہے۔ بس یہی حال جہنم کی گرمی کو بھول کر دنیا کی پریشانی میں الجھنے والے کا ہے کہ وہ جہنم جسے قیامت کے دن دہکایا جائے گاتو اس کا حال یہ ہوگا: ’’(قیامت کے دن) ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شدتِ غضب سے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جائے گی۔ ‘‘(الملک: ۸) اسی طرح انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نگل جانے کے بعد بھی اس جہنم کا پیٹ نہیں بھرے گا، وہ مزید انسانوں کو کھانے کیلئے بے چین رہے گی۔ سورۃ ق (آیت ۳۰) میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وہ وقت (یاد رکھو) جب ہم جہنم سے کہیں گے: کیا توبھر گئی؟ اور وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟‘‘
اس سلسلے میں ایک حدیث رسولؐ بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جہنم کی آگ کا درجہ ٔ حرارت کیا ہوگا؟ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’تمہاری دُنیا کی آگ، جہنم کی آگ کا ۷۰؍واں حصہ ہے۔ ‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسولؐ یہ دنیا کی آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ آگ اس پر انہتر حصے زیادہ کردی گئی ہے اور اس کا ہر حصہ دنیا کی آگ کے برابر گرم ہے۔ ‘‘
یہ ہے جہنم کی آگ، جس کا تذکرہ ہی ہر انسان کا ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے۔ پھر بھلا انسان اس کو کیسے بھول سکتا ہے؟ اور اگر بھول بھی گیا، تو یہ گرمی کا موسم، یہ بے چینی، یہ بڑھتا درجۂ حرارت، یہ دھوپ کی تمازت، اور یہ دنیا کی آگ سب اس کو یاد دلانے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ اہل ایمان کلام پاک میں وارد تنبہیہات پر غور کریں تو اُن میں حساسیت پیدا ہوسکتی ہے۔