اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ مسلمان پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں، چنانچہ ہمیں اپنے معاملات کو اسلام کی روشنی میں طے کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 3:37 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ مسلمان پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں، چنانچہ ہمیں اپنے معاملات کو اسلام کی روشنی میں طے کرنا چاہئے۔
ہر مسلمان اپنے دل وزبان سے کلمۂ طیبہ کا اقرار کرتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت کی اور حضرت محمدؐ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اپنے مذہب کا اور مذہب کے احکامات کا بڑا احترام کرتا ہے۔ آج کل مذہب سے لگاؤ میں ایک اور نئی عادت کا اضافہ ہوا ہے کہ مسلمان سوشل میڈیا پر مذہب اسلام سے جڑی ہر اچھی بات کو فارورڈ کرکے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ میں نے دین کی تبلیغ کا ایک بہت بڑا کام کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں اس سارے ادب واحترام کے باوجود، دین اسلام اور اسلامی امور کے اس قدر تذکرے کے باوجود، سوشل میڈیا کے دینی پیغامات سے بھرے ہونے کے باوجود ہماری روزمرہ کی زندگی میں اسلام کی جھلک اس قدر کمزور کیوں ہے؟ ہمارے محلے، ہمارے گھراس صالح معاشرے کی جھلک سے عاری کیوں ہیں جو اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہیں۔
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دین اسلام ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے، اس کی تعلیمات کا ہم بڑا ادب احترام کرتے ہیں، لیکن دین اسلام کی ہم اتنی ہی اتباع کرتے ہیں جتنی ہمارے لئے آسانی سے ممکن ہوپاتی ہے۔ جہاں معاملہ قربانی کا آیا، پھر چاہے وہ اپنی انا کی، اپنے آرام کی، اپنےمال کی، یا اپنے وقت کی قربانی ہو، ہم فوری طور پر اپنے اس دعوے سے مکر جاتے ہیں جو ہم اسلام کے ادب احترام کا کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً آج کل یہ جو نئی خراب عادت راتوں میں دیر تک جاگتے رہنے کی ہمارے معاشرے میں آئی ہے، اس کی وجہ سے فجر کی نماز میں سناٹا اور بھی بڑھنے لگا ہے، اس کی وجہ رات میں دو اور تین بجے تک جاگنا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے یہ بات سمجھنے کےلئے کہ دین ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ہم دین پر اتنا ہی عمل کرتے ہیں جتنا ہمارے لئے آسان ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ہم سے تقاضہ کیا ہے: ’’تم پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ‘‘ یعنی اسلام وہ دائرہ نہیں ہے کہ جس میں ایک پیر اندر اور ایک پیر باہر چلے گا۔ یہاں تو اپنا تن من دھن سب جب تک اپنے خالق کے لئے وقف نہیں ہوگا، تب تک بات نہیں بنے گی۔
صحابہ کرامؓ نے جب اسلام قبول کیا تو انہوں نے باقی ساری دنیا پر اسلام کو ترجیح دی۔ پھر انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان سے کون اپنا دور ہورہا ہے، اور ان سے کیا کیا لذتیں دورہورہی ہیں، اور ان کو کیا کیا قربانیاں دینا پڑرہی ہیں۔ تب جا کر ان کو ’’رضي اللہ عنہم ورضواعنہ‘‘ کی بشارت ملی کہ ’’اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش۔ ‘‘ اس لئے کہ انسان جب کسی شے کو دل وجان سے قریب کرکے اپنی ترجیحات میں شامل کرلیتا ہے تو اس کے لئے قربانی دینا اور جدوجہد کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے، اور اس پر یہ ساری باتیں بالکل بھی گراں نہیں گزرتیں۔ مثلاًایک طالبعلم جس کو پڑھائی میں دلچسپی نہ ہواس کو رات میں دس بجے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دیجئے، کچھ دیر بعد اس طالبعلم کی آنکھیں بوجھل ہوجائیں گی اور وہ نیند کی جانب مائل ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف اسی طالبعلم کو اگر موبائیل تھمادیاجائے تو پھر آدھی رات بیتنے کے بعد بھی نیند کے لئے اس کی پلک تک نہ جھپکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طالبعلم کی ترجیحات میں موبائیل پر گیم کھیلنا یا ویڈیو دیکھنا شامل ہے، تو یہ کام آسان ہوگیا اور پڑھائی سےچونکہ اسے دلچسپی ہی نہیں ہے تو کتاب سے اس کو نیند آگئی۔ اس سے واضح ہوگیا کہ انسان کے لئے محنت اور قربانی کوئی مشکل کام نہیں ہے، بس وہ کام اس کی ترجیحات اور دلچسپی کا مرکز ہونا چاہئے۔
اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس امّارہ کو کچلنے کی عادت ڈالیں، دل تو برائی کی جانب مائل ہوگا ہی، لیکن ایک مومن کی زندگی اسی کوشش سے عبارت ہوتی ہے کہ وہ برائی سے بازرہنے کی اور اچھائی کی جانب آنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسی مشق کے لئے قرآن مجید میں اور احادیث رسول میں جابجا تعلیمات ملتی ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پاس ان تعلیمات کی مکمل عملی شکل موجود تھی اس لئے وہ آخرت کی تیاری میں کبھی کمزور نہیں پڑے اور دنیا تو ان کی خود بخود سنورتی ہی آئی تھی۔ پھر وقت گزرتاگیا، گرد جمتی گئی اور آج ملت کا حال یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ عملی اقدامات سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ جبکہ قرآن وحدیث کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل نقشہ اہل ایمان کے سامنے رکھنے کے بعد اللہ عزوجل سوال کرتا ہے:’پھر بھی تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟ ‘‘
قرآن مجید ہدایت انسانی کے لئے نازل کیا جاچکا ہے، اب اس کو چھوڑ کر تم کہاں دیگر راستوں کو ترجیح دے رہے ہو۔ جبکہ تم خود بھی جانتے ہو کہ اب یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ زبانی دعوؤں کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی گہرائی میں اسلام کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے۔ اس طرح وہ صالح معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں اسلام تحریر کے ساتھ ساتھ عملی شکل میں بھی نظر آئے گا، پھر پڑوسیوں سے لڑائی کے بدلے ایثار کے واقعات سامنے آنے لگیں گے، رشتے داروں میں ناچاقی کے بدلے محبت ویگانگی کی مثالیں قائم ہوں گی اور ہمارے گھر اور محلے بھی اسلامی تعلیمات کی ایک جیتی جاگتی عملی تصویر بن جائیں گے۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ دل پر یہی جبر تو بہت مشکل ہوتا ہے کہ اس کو برائی سے دورکیا جائے اوربھلائی کی طر ف لایا جائے۔ اسی بات کی کیا ہی آسان وضاحت حضور اکرمؐ نے فرمادی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جہنم کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناگوار چیزوں سے۔ ‘‘(صحیح البخاری)
اب انسان کو اپنی ترجیحات کو طے کرنا ہے، اور اس کو غوروخوض کے بعد طے کرنا ہے کہ وہ کس راستے جائے گا۔ اس لئے کہ خواہشات میں جو لطف ہے وہ، بقول کسے، ختم ہوجائے گا لیکن ان کا عذاب ہمیشہ ہمیش باقی رہے گا۔ عبادات میں جو تکلیف ہے وہ ختم ہوجائیں گی لیکن ان کا اجر ہمیشہ ہمیش کے لئے باقی رہے گا۔ بس بات ترجیحات کی ہے۔ ایک مومن کبھی اس بات کو ترجیح نہیں دیتا کہ وہ گناہ اورظلم وزیادتی کے کام کرے پھر چاہے اس کا خود کا کوئی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ یہی عظیم ترجیحات ایک عظیم معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کرداراداکرتی ہیں۔ پھر وہ افراد وجود میں آتے ہیں جو انسانی معاشرے کے لئے مفید، اور اسلام کے لئے قابلِ فخر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ترجیحات کو طے کرنا اور ان پرڈٹ جانا اشد ضروری ہوتا ہے۔ اور انہی ترجیحات کو طے کرنے میں ہمارا معاشرہ آج بہت پچھڑا ہوا نظر آتا ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔