مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، مسلم ممالک میں یا غیر مسلم ممالک میں ، دین کے چار شعبوں ( اعتقادات، عبادات، احوال شخصیہ اور معاملات) میں ان کے لئے قانون شریعت کا التزام ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: May 03, 2025, 2:57 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، مسلم ممالک میں یا غیر مسلم ممالک میں ، دین کے چار شعبوں ( اعتقادات، عبادات، احوال شخصیہ اور معاملات) میں ان کے لئے قانون شریعت کا التزام ضروری ہے۔
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، مسلم ممالک میں یا غیر مسلم ممالک میں ، دین کے چار شعبوں ( اعتقادات، عبادات، احوال شخصیہ اور معاملات) میں ان کے لئے قانون شریعت کا التزام ضروری ہے۔
(۱) اعتقادات سے مراد وہ احکام ہیں ، جن کا تعلق قلب و ضمیر سے ہو، جیسے : توحید، رسالت، آخرت کا یقین وغیرہ۔ (۲) عبادات سے وہ احکام مراد ہیں ، جن کا تعلق براہ راست خدا اور بندے کے باہمی ارتباط سے ہے، جیسے: نماز، روزہ وغیرہ۔ (۳) احوال شخصیہ‘‘ سے مراد پرسنل لاء ہے، اس میں نکاح و طلاق کے علاوہ میراث، وصیت اور مختلف اقارب سے متعلق حقوق و فرائض بھی آجاتے ہیں۔ اور (۴) معاملات سے مراد مالی بنیاد پر دو افراد کے تعلقات و معاہدات ہیں : تجارت اجارہ، ہبہ وغیرہ اس شعبہ کے تحت آتے ہیں اور سود وقمار جیسے حرام معاملات بھی اسی دائرہ میں ہیں۔
یہ تمام قوانین وہ ہیں کہ چاہے مسلم اکثریتی ملک ہو یا غیر مسلم اکثریتی ملک، اور کلید اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے لئے ان قوانین میں شریعت اسلامی کی اطاعت واجب ہے۔ جو قوانین اجتماعی نوعیت کے ہوں ، یا جرم وسزا سے متعلق ہوں جیسے حدود، قصاص، نظام مملکت وغیرہ، ان شعبوں سے متعلق شرعی قوانین وہیں قابل نفاذ ہیں ، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور باگِ اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہو۔
باہمی روابط و تعلقات
برادران اسلام ! جہاں تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی روابط کی بات ہے تو اس موضوع کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: سماجی تعلقات، معاشی تعلقات، سیاسی تعلقات اور مذہبی تعلقات۔ تعلقات کے ان تمام دائروں کے سلسلے میں قرآن و حدیث سے ہمیں تفصیلی رہنمائی ملتی ہے۔ سماجی تعلقات کے سلسلہ میں بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘ (الممتحنہ:۸)
یہ آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے یہ بات واضح ہے کہ جو غیر مسلم مسلمانوں سے برسر پیکار نہ ہوں ، مسلمانوں پر ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا ضروری ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ کسی قوم کا ہدایت کے راستہ پر آنا اور دین حق کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے کسی گروہ کے ساتھ بے تعلقی کا معاملہ کرنا اور حسن سلوک نہ کرنا درست نہیں ، مسلمان ان کے ساتھ جو بہتر سلوک کرینگے، انہیں بہر حال اس کا اجر مل کر رہے گا :
’’ان کو ہدایت دینا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ اﷲ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے، اور اﷲ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘ (البقرہ:۲۷۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بعض انصار کی بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں سے قرابت تھی، انصار ان پر اس لئے صدقہ نہیں کیا کرتے تھے کہ جب ضرورت مند ہوں گے تو اسلام قبول کریں گے، (تفسیر قرطبی : ۳۳۷/۳) اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویہ کو پسند نہیں کیا اور فرمایا گیا کہ ان کی ہدایت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے، لیکن تم کو اس کی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچنا چاہئے؛ کیوں کہ تم کو تمہارے انفاق کا اجر مل کر رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء نے عملی طور پر اس کو برت کر دکھایا، مکہ میں شدید قحط پڑا، لوگ مردار وغیرہ کھانے پر مجبور ہو گئے، یہ زمانہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان شدید اختلاف اور گرما گرمی کا تھا، اس کے باوجود آپؐ نے مکہ کے قحط زدہ مشرکین کے لئے پانچ سو دینار بھیجے؛ حالاں کہ اس وقت خود مدینہ کے مسلمان سخت مالی دقتوں اور فاقہ مستیوں سے دوچار تھے، نیز آپ ؐ نے یہ رقم سرداران قریش ابو سفیان اور صفوان بن امیہ کو بھیجی، جو مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور مشرکین مکہ کی قیادت کر رہے تھے۔ (رد المحتار: ۳۰۲٫۳، باب المصرف )
انسانی زندگی کا احترام و تحفظ
سماجی زندگی میں سب سے اہم مسئلہ امن و امان کا ہے اور امن و امان کا تعلق جان و مال اور عزت و آبرو سے ہے؛ چنانچہ شریعت اسلامی میں غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو وہی اہمیت دی گئی ہے، جو مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حاصل ہے، اس سلسلہ میں رسولؐ اللہ نے یہ اصولی بات ارشاد فرمائی ہے کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں۔ (نصب الراية ) چنانچہ قرآن مجید نے مطلق نفس انسانی کے قتل سے منع کیا ہے، ارشاد ہے :
’’کسی نفس کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، ناحق قتل نہ کرو۔ ‘‘ (بنی اسرائیل : ۳۳)
ایک اور موقع پر کسی معقول سبب کے بغیر ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا :
’’جس نے کسی نفس انسانی کو کسی دوسرے کے بدلے یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ ‘‘(المائدة : ۳۲)
ظاہر ہے کہ جان اور زندگی کے احترام میں اکثریت اور اقلیت کا کوئی فرق نہیں ہے، بلکه بہ حیثیت انسان ہر شخص کی زندگی کا احترام واجب ہے، سوائے اس کے کہ کسی شخص نے اپنی مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے اپنے اس حق کو کھو دیا ہو۔
املاک کا احترام
رسولؐ اللہ نے جو اصول مقرر فرمایا کہ غیر مسلموں کی جانیں مسلمانوں کی جانوں کی طرح ہیں اور ان کے مال مسلمانوں کے مالوں کی طرح ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی املاک بھی اسی طرح قابل احترام ہیں جیسا کہ مسلمانوں کی، بغیر رضا مندی کے نہ کسی مسلمان کا مال لیا جا سکتا ہے نہ کسی غیر مسلم کا: ’’اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔ ‘‘ (النساء:۲۹)
فتح خیبر کے موقع سے بعض مسلمان فوجیوں نے یہودیوں کے جانور ذبح کردیئے اور کچھ پھل کھالئے۔ آپؐ کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے اس موقع پر خطاب کیا، اس عمل پر ناگواری ظاہر کی اور فرمایا کہ یہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔ (ابوداؤد)
عزت و آبرو کی حفاظت
یہی معاملہ عزت و آبرو اور عفت و عصمت کی حفاظت کا ہے۔ سرکار مدینہ محمد الرسول اللہ ﷺ نے بلاتفریق مذہب ہر بڑے کی توقیر کا حکم دیا ہے اور ہر چھوٹے کے ساتھ شفقت اور محبت کی تلقین کی ہے۔ مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ملاحظہ کیجئے، کلام پاک میں وارد ہوا ہے:
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں ) سے بہتر ہوں ، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے بُرے نام رکھا کرو۔ ‘‘ (سورہ الحجرات ۱۱)
اسی طرح مردوں سے فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور یہی حکم مسلمان عورتوں کو بھی دیا گیا، (النور : ۳۱) یہ حکم مطلق ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی عزت و آبرو کی بھی وہی اہمیت ہے، جو مسلمانوں کی ہے، عفت و عصمت کو مجروح کرنے والی چیزیں حرام ہیں ، خواہ مسلمانوں کے ساتھ کی جائیں یا غیر مسلموں کے ساتھ، جو سزا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کی ہے، وہی سزا غیر مسلم عورت کی آبروریزی کی ہے، غرض کہ عزت و آبرو کے اعتبار سے غیر مسلم بھائیوں کو وہی درجہ حاصل ہے، جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔
خوشی و غم میں شرکت
سماجی تعلقات کے دائرہ میں کھانا کھلانا، پڑھنا، پڑھانا، باہمی ملاقات، خوشی و غم کے موقع پر دلداری وغیرہ امور بھی آتے ہیں۔ اسلام نے ان تمام شعبوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بھی خوشگوار برتاؤ کا حکم دیا ہے، رسولؐ اللہ نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری، باب قبول الهدية من المشركين ) خود آپؐ نے غیرمسلموں کو دعوت دی ہے (الدرالمنشور) انہیں اپنا مہمان بنایا ہے (الخصائص الکبریٰ) اور غیرمسلموں کی عیادت کی ہے۔ (صحیح بخاری)
آج ضرورت ہے کہ سماجی زندگی سے متعلق تقریبات میں غیرمسلم بھائیوں کو مدعو کیا جائے اور اگر وہ دعوت دیں تو ان کی دعوت میں شرکت کی جائے کیونکہ سماجی تعلقات ہی خوشگوار تعلقات کے قیام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (بحوالہ: غیرمسلم معاشرہ میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے روابط)