قومی کیریکٹر ہر قوم کی زندگی میں اس کی مادی دولتوں سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ہوتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کی اسلامی سیرت بڑی سے بڑی اسلامی سلطنت اور بڑے سے بڑے قومی ادارے اور زیادہ سے زیادہ قومی ترقی اور اقتصادی خوش حالی سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔
EPAPER
Updated: July 04, 2025, 5:15 PM IST | Maulana Abul Hasan Ali Nadvi | Mumbai
قومی کیریکٹر ہر قوم کی زندگی میں اس کی مادی دولتوں سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ہوتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کی اسلامی سیرت بڑی سے بڑی اسلامی سلطنت اور بڑے سے بڑے قومی ادارے اور زیادہ سے زیادہ قومی ترقی اور اقتصادی خوش حالی سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔
قومی کیریکٹر ہر قوم کی زندگی میں اس کی مادی دولتوں سے کہیں بڑھ کر بیش قیمت ہوتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کی اسلامی سیرت بڑی سے بڑی اسلامی سلطنت اور بڑے سے بڑے قومی ادارے اور زیادہ سے زیادہ قومی ترقی اور اقتصادی خوش حالی سے زیادہ قیمت رکھتی ہے۔ کسی بڑی سے بڑی قیمت اور عظیم سے عظیم بدل پر بھی اس کے نقصان یا زوال کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس پر زوال آگیا یا اس میں کچھ غلط تبدیلی واقع ہوگئی تو بڑی سے بڑی مادی کامیابی اور فتح سے اس کا کفارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تبدیلی مختلف تاریخی وسیاسی و تعلیمی و تہذیبی اسباب، بعض مؤثر اور اشتعال انگیز حالات و واقعات اور زیادہ تر قیادت کی کمزوری سے صدیوں میں پیش آتی ہے۔
ایک نہایت اہم اور گہری اور انقلاب انگیز تبدیلی جو مسلمانوں کی ذہنیت و نفسیات میں اس پچاس سال کے اندر اندر واقع ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان عملاً کمزور ہورہا ہے۔ اس سے مسلمان ایک بااصول، بلنداخلاق اور پختہ سیرت گروہ یا جماعت کے بلند مقام سے گر کر ایک بے اصول، ناقابلِ اعتبار، ابن الوقت اورمصلحت پرست قوم کی ادنیٰ سطح پر آتے جا رہے ہیں جس کے سامنے کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے بلکہ صرف منافع و مصالح اور اغراض و مقاصد ہیں۔
اخلاق و سیرت اس اُمت کے نظامِ جسم میں قلب کا درجہ رکھتے ہیں۔ لوگ تنومند و فربہ جسم کو دیکھ کر اس جسم کی صحت و طاقت کا حکم لگا دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ قلب کس قدر کمزور اور ماؤف ہے اور کس طرح بتدریج اس کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی ترقی کا اندازہ مردم شماری کے اعداد، ان کے قومی جوش، ظاہری تنظیم اور سرکاری عہدوں کے تناسب سے لگانا بالکل غلط ہے۔ ایک بااصول، دنیا کیلئے ایک پیغام رکھنے والی اور اخلاق و سیرت میں دنیا کی تمام قوموں کے لئے معیار بننے والی اُمت کی پیمائش کا ہرگز یہ صحیح پیمانہ نہیں۔ ضرورت ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اخلاق و اوصاف جو زندگی کے صحیح عناصر ہیں اور جن سے اس اُمت کا تشخص و امتیاز ہے وہ روبہ انحطاط ہیں یا روبہ ترقی!
(مولانا ابوالحسن علی ندوی: مسلمانوں کی موجودہ قومی سیرت کے بعض کمزور پہلو)