موجودہ دور میں لگے ہوئے روزگار کو چھوڑنا ایک فیشن بن گیا ہے، بلکہ بعض مرتبہ آدمی بغیر کسی عذر کے، اچھے بھلے روز گار کو چھوڑ دیتا ہے، اور پھر کسی دوسرے روزگار کے لئے حیران و سرگرداں پھرتا رہتا ہے اور پوری کاوش کے بعد بھی، روز گار مہیّا نہیں ہوتا، تو دیگر ذرائع اختیار کرتا ہے جو خود ، اہلِ خاندان اور معاشرے کیلئے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔
خداوند قدوس نے انسانوں کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے، اگر انسان ان نعمتوں کا احصاء کرنا چاہئے تو نہیں کر سکتا، ان ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت سہولت اور عافیت کے ساتھ روزگار سے وابستہ ہونا ہے۔ حضرت عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بےکاری پسند نہیں ہے، میں اُس شخص پر حیرت زدہ ہوں جو نہ دنیا کے کام میں مصروف ہے، اور نہ دین میں لگا ہوا ہے (إحیاء علوم الدین)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ طلب ِ معیشت کی فکر کے سوا کوئی چیز ان کا کفارہ نہیں ہوتی۔ ‘‘ ( ترمذی شریف) شریعت نے بے کارگی اور ترکِ معیشت کو پسند نہیں کیا، بلکہ حکم دیا کہ آدمی جس روزگار کے ساتھ وابستہ ہے اس پر استقامت اور ثبات قدمی کے ساتھ مربوط رہے، بلا عذرِ شدید روزگار کو نہ چھوڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے بندے کے روزگار کا کوئی سبب بنایا ہے، تو جب تک اس میں تبدیلی پیدا نہ ہو یا نقصان نہ ہو تو اس کو ترک نہ کرے۔ ( سنن ابن ماجہ )
مطلب ہے کہ جب اللہ رب العزت نے کسی شخص کے لئے حصولِ رزق کا ایک ذریعہ مقرر فرما کر انسان کو اس سے وابستہ کردیا، کہ اس ذریعہ سے اُسے رزق مہیا ہو رہا ہے تو اب بلاوجہ اس روزگار کو چھوڑ کر الگ نہ ہو، بلکہ اس میں استقامت اور ثبات قدمی کے ساتھ، اس وقت تک لگا ر ہے، جب تک کہ وہ خود اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے، یا ایسی ناموافقت پیدا ہو جائے کہ اب آئندہ اس کو جاری رکھنا پریشانی کا سبب ہو، تو اُس وقت گنجائش ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی ذریعۂ رزق سے وابستہ کر دیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے یعنی تعالیٰ کی طرف سے اس بندے کو اس کام میں لگا کر اس ذریعہ سے وابستہ کرنا ایک طرح کا انعام ہے۔ ویسے توحصولِ رزق کے سیکڑوں طریقے ہے، لیکن جب اللہ نے کسی شخص کے لئے کسی خاص طریقے کو حصول رزق کا ذریعہ بنادیا تو یہ منجانب اللہ ہے، اب اس منجانب طریقے کو اپنی طرف سے بلاوجہ نہ چھوڑے۔
حضرت نافع فرماتے ہیں میں اپنا سامانِ تجارت شام اور کبھی مصر کی طرف بھیجا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں نے عراق کی طرف تجارتی سامان بھجوانے کی تیاری کی، میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور انہیں صورتِ حال بتائی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو! تمہیں اور تمہاری جائے تجارت کو کیا ہوا؟ (یعنی کوئی نقصان ہوا ؟ یا کوئی وجہ ہے، جو تجارتی رخ تبدیل کر رہے ہو؟) پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے لئے کسی جگہ رزق کا سبب بنائے تو وہ اسے ترک نہ کرے یہاں تک کہ اس میں خود تبدیلی آجائے۔ ‘‘ ( مشکوۃ المصابیح )
اس حدیث شریف پر غور کریں کہ کس دلنشین انداز میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس اہمیت کواجاگر کیاہے۔
موجودہ دور میں لگے ہوئے روزگار کو چھوڑنا ایک فیشن بن گیا ہے، بلکہ بعض مرتبہ آدمی بغیر کسی عذر کے، اچھے بھلے روز گار کو چھوڑ دیتا ہے، اور پھر کسی دوسرے روزگار کے لئے حیران و سرگرداں پھرتا رہتا ہے اور پوری کاوش کے بعد بھی، روز گار مہیّا نہیں ہوتا، تو دیگر ذرائع اختیار کرتا ہے جو خود کے لئے، اہلِ خاندان اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ حضرت شقیق بن ابراہیم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ بغیر کسبِ معاش کے، بندوں کو رزق دیتا تو یہ فارغ بیٹھے رہتے اور باہمی دھینگا فساد کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کسب ِ معاش کے مصروف رکھا، تاکہ نہ فرصت پائیں اور نہ فساد کریں ۔ (تنبیہ الغافلین ) اس لئے آدمی جس ذریعۂ معاش سے وابستہ ہیں اسی میں صبر و شکر اور ثبوت قدمی کے ساتھ جما رہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بلاوجہ نوکری چھوڑ دی تھی، پھر باوجود بے حد کوشش اور سعی کے، تمام عمر نوکری نہیں ملی۔ فرمایا کہ اپنے ذریعۂ معاش کو چھوڑنا بلا ضرورتِ شدیدہ شرعی مناسب نہیں ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی ناشکری اور کفرانِ نعمت ہے۔ حضرت حاجی صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ضعفاء کو بھی ناجائز اسبابِ معاش کو نہ چھوڑنا چاہئے جب تک کوئی ذریعۂ جائز مل جائے۔ البتہ استغفار اور جائز ذریعہ کی کوشش میں لگار ہے، اور حکمت یہ بیان کیا کرتے تھے کہ ابھی تو معصیت ہی میں مبتلا ہیں اسبابِ معاش چھوڑ دینے کے بعد افلاس میں مبتلا ہوگا اور اس سے جو پریشانی ہوگی اس میں کفر کا اندیشہ ہے، اور اب معصیت وقایہ (بچاؤ) ہو رہی ہے کفر کا۔ ہاں اگر کوئی جائز صورت مل جائے تو اس وقت اس نا جائز کو چھوڑ دے۔ ( ملفوظات حکیم الامت جلد۴)