بڑی جدوجہد کی گئی کہ حکومت کو روکا جائے مگر قانونِ وقف ۲۰۲۵ء بن گیا، اس کیخلاف جو قانونی چارہ جوئی ممکن ہے وہ کی جارہی ہے، مگر اتنا کافی نہیں، مزید اقدام ضروری ہیں۔
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 4:34 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
بڑی جدوجہد کی گئی کہ حکومت کو روکا جائے مگر قانونِ وقف ۲۰۲۵ء بن گیا، اس کیخلاف جو قانونی چارہ جوئی ممکن ہے وہ کی جارہی ہے، مگر اتنا کافی نہیں، مزید اقدام ضروری ہیں۔
ممشہور شعر ہے، ممکن ہے آپ نے بھی سنا ہو یا پڑھا ہو:
بدلتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
اس وقت ہمارے ملک کی فرقہ پرست حکومت کی یہی صورت حال ہے، مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا، ان کی شناخت پر حملہ کرنا، اور اُن کو دبا کر رکھنا، یہ اِس حکومت کی خصوصی پالیسی ہے۔ یہ صورت حال یوں تو ایک حد تک ۲۰۱۴ء سے پہلے بھی تھی؛ لیکن ۲۰۱۴ء سے اس کی رفتار بہت تیز ہوگئی، اور کیوں نہ ہو کہ ہندی کا محاورہ ہے’’سیاں بھئی کوتوال تو اَب ڈر کاہے کا‘‘۔ اسی جذبۂ منافرت کے تحت تین طلاق کا قانون لایا گیا، سی اے اے لایا گیا، بعض ریاستوں میں یونیفارم سول کوڈ لایا گیا، مرکز میں بھی اس کی کوشش کی گئی اور ابھی بھی اس کا خطرہ ٹلا نہیں ہے، مساجد ومدارس پر ہونے والے حملے بھی اسی کا حصہ ہیں اور اسی کی بدترین شکل قانونِ وقف ۲۰۲۵ء ہے۔
آپ کوئی بھی اجتماعی، تنظیمی، سیاسی و فلاحی، مذہبی یا تعلیمی کام کریں، اس کے لئے ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے، اس مرکز کے لئے زمین اور عمارت مطلوب ہوگی، نماز ادا کرنے کے لئے مسجدیں، تعلیم کے لئے مدرسے اور اسکول، یتیم بچوں کی پروش کے لئے یتیم خانے، مسافروں کے قیام کیلئے مسافر خانے، رفاہی خدمات کیلئے ایسی زمینیں جن سے کرائے اور زرعی پیداوار حاصل کی جائے، اسی طرح موت کے بعد اسلامی طریقہ پر تدفین کیلئے قبرستان اور درگاہیں، غور کیا جائے تو یہ سب ملت کے لئے شہ رگ ہیں، ان ہی سے ہماری دینی شناخت، ایمان کا تحفظ، دعوت واصلاح اور رضاکارانہ طور پر شریعت کی تنفیذ متعلق ہے۔ آر ایس ایس میں چونکہ ہندو شدت پسند اسکالرس کی بڑی تعداد ہے؛ اسی لئے ان لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر نہایت شاطرانہ طریقے سے یہ قانون بنایا ہے اور صرف بنایا نہیں، پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی طاقت کی بناء پر اسے منظور بھی کروالیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قانون کے پاس ہو جانے کے بعد اب ملک کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے ؟ اسی سلسلہ میں چند نکات پیش کئے جاتے ہیں :
یہ بھی پڑھئے:وقف املاک کی حفاظت ایک ملی فریضہ ہے!
(۱) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ تمام ملی تنظیموں اور مختلف مسالک کی نمائندہ شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس قانون کو ختم کرانے کی جدوجہد کر رہا ہے، پہلے تو اس نے اس قانون کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کو کروڑوں کی تعداد میں ای میل بھجوائے، جے پی سی کی میٹنگوں میں ہر جگہ سے باشعور مسلمانوں کی نمائندگی کروائی، اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں نے عوامی اسٹیج پر اور پارلیمنٹ میں کھل کر اس کے خلاف آواز بلند کی، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو ساتھ لیا، دیگر اقلیتوں سے گفتگو کی، ان کو حکومت کے خطرناک عزائم سے آگاہ کیا اور ان کی حمایت حاصل کی، غیر مسلم نمایاں سیاسی وسماجی شخصیتوں کے ساتھ میٹنگیں کیں، پریس کانفرنسیں کیں، بورڈ نے براہ راست اپنے زیر انتظام یا بورڈ میں شامل دیگر تنظیموں کے زیر انتظام دہلی، ممبئی، بنگلور، پٹنہ، وجے واڑہ، کلکتہ، رانچی اور مختلف شہروں میں بڑے اجتماعات کئے، جس میں تمام مسلم تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈروں کو بھی دعوت دی اور مسلم مسائل کو نظر انداز کرنے والا بکا ہوا میڈیا بھی مثبت یا منفی انداز میں اس موضوع کو سامنے لانے پر مجبور ہوا، جمعہ کے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کے گھر گھر یہ پیغام پہنچایا؛ چوں کہ حکومت فریب دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کے فائدہ کے لئے لا رہی ہے؛ اس لئے خواتین نے بھی پوری قوت کے ساتھ اس احتجاج میں حصہ لیا، دہلی، پٹنہ اور وجے واڑہ میں کافی طاقتور طریقہ پر دھرنے دئیے گئے، ان کوششوں کی وجہ سے پورے ملک میں یہ مسئلہ مسلمانوں اور انصاف پسندشہریوں کی سوچ کا اہم ترین موضوع بن گیا۔
بحمدللہ بورڈ پوری قوت کے ساتھ ایک مہم کے طور پر اس کام کو انجام دے رہا ہے اور حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اس قانون کو ہر صورت میں واپس لے، اس کے لئے بورڈ نے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے، احتجاج کا ایک تفصیلی پروگرام بنایا ہے، اور تمام مسلمانوں سے اس میں شرکت کی اپیل کی ہے، ان شاء اللہ عنقریب پورے ملک میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے ہوں گے، مقامی حالات کو دیکھتے ہوئے دھرنے دئیے جائیں گے، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مسئلہ کی اہمیت کو اُجاگر کیا جائے گا، خواتین کے بھی بڑے احتجاجی پروگرام رکھے جائیں گے، غیر مسلم دانشوروں اور قائدین کے ساتھ میٹنگیں رکھی جائیں گی، ملک کے بڑے شہروں میں پریس کانفرنسیں کی جائیں گی، غرض کہ جمہوری طریقہ پر اس قانون کو مسترد کرنے کے جتنے پُرامن طریقے ہو سکتے ہیں، ان سب کو اختیار کیا جائے گا۔
مسلمانوں کا اولین فرض ہے کہ وہ بورڈ کی آواز کو متفقہ آواز بنائیں، اس پر لبیک کہیں، بورڈ کی ہدایات پر عمل کریں، جہاں آگے بڑھنے کو کہا جائے، وہاں آگے بڑھیں اور جہاں رُکنے کو کہا جائے، وہاں رُک جائیں تاکہ پوری قوت کے ساتھ یہ پُرامن احتجاج جاری رہے۔
مسلمان اس بات پر متوجہ رہیں کہ بہت سے لوگ اُن کو بھٹکانے کی پوری کوشش کرینگے، حکومت کا آلہ کار بن کر تفرقہ ڈالنے کی سعی کرینگے، مذہبی تنظیموں اور قیادتوں کو بے وزن کرنے کی کوشش کرینگے، ان کے خلاف بدگمانی پھیلائیں گے اور یہ سب کچھ ملک و ملت کیلئے غیرت کے نام پر کیا جائیگا تو ایسے فتنہ پردازوں سے خوب بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۲) جو بچے کھچے اوقاف ہیں، ان کی حفاظت کی بھر پور کوشش ہونی چاہئے، اسی کوشش کا ایک حصہ یہ ہے کہ جو موقوفہ اراضی کھلی ہوئی حالت میں ہوں، جلد از جلد ان کی احاطہ بندی کی جائی؛ تاکہ حریصانہ نظر رکھنے والے ان زمینوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ کریں، خاص کر مسلم سماج میں کھلے قبرستان اور عیدگاہیں، بہت سی جگہ احاطہ کے بغیر مساجد سے باہر کھلے ہوئے صحن، بعض جگہ مدارس اور مساجد کے مصالح کے لئے باغات اور زرعی زمینیں وقف کی گئی ہیں، ان کی بھی عام طور پر احاطہ بندی نہیں کی گئی ہے، بعض جگہ مسجدیں ویران ہیں، خاص کر ایسی مسجدیں جو قدیم زمانہ میں بادشاہوں اور نوابوں نے تعمیر کی تھیں اور اب ان کے گردو پیش کی مسلم آبادی ختم ہو چکی ہے، ان سب کی احاطہ بندی ضروری ہے۔ جو جگہیں ویران پڑی ہوئی ہیں، علماء اور ارباب افتاء کے مشورہ سے دینی وملی ضرورتوں کیلئے ان کے استعمال کی تدابیر پر غور کرنا اور ان تدابیر کو عمل میں لانا چاہئے؛ کیونکہ جو جگہ استعمال میں رہتی ہے، اس کی حفاظت آسان ہوتی ہے اور جو جگہ استعمال میں نہیں رہتی وہ ویران ہو جاتی ہے اور اس کا تحفظ مشکل ہو جاتا ہے، یہ حفاظتی انتظام بھی بہت اجر کا کام ہے؛ کیونکہ یہ ملت کے مفادات اور دین کے شعائر کا تحفظ ہے؛ اس لئے اس پر اولین توجہ کی ضرورت ہے۔
(۳) جو زمین کسی شخص یا سماج کی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ نہ ہو، حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے اور پھر من چاہا استعمال کرتی ہے؛ اس لئے ضرورت ہے کہ پہلے کے اوقاف کو بھی اور اب جو اوقاف قائم کئے جائیں ، ان کا بھی جلد سے جلد رجسٹریشن کرا لیا جائے؛ تاکہ دستاویزی طور پر ملکیت کا ثبوت فراہم ہو جائے۔ اس کے لئے قانون دانوں سے مشورہ کیا جائے، پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو اجتماعی کوششوں کے ذریعہ سے اس کا انتظام کیا جائے اور ہر قیمت پر اس کام کو کرنے کی کوشش کی جائے؛ ورنہ مستقبل میں ہم بہت سی اوقافی جائیدادوں سے خدانخواستہ محروم ہو جائینگے۔
(۴) اول تو وقف بورڈ میں پہلے سے بعض خدا ناترس لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی ناجائز حرکات اور عاقبت نااندیشی کے واقعات شب وروز سامنے آتے رہتے ہیں، وہ رشوت لے کر اور حکومت کے دباؤ کے آگے جھک کر قصداََ وقف کے مقدمات ہارتے ہیں اور چند روپوں کے لئے ملت کی قیمتی اَملاک غاصبین کے حوالہ کر دیتے ہیں، ۔ حد تو یہ ہے کہ فریق مخالف کے اشارہ پر کاغذات غائب کر دیتے ہیں تاکہ ثبوت پیش ہی نہ ہو سکے اور مخالفین کا قبضہ ہو جائے۔
لیکن اب یہ جو وقف قانون آیا ہے، یہ قانون کے دائرہ میں ایسی بدعنوانیوں کے ارتکاب کا راستہ فراہم کرتا ہے ؛ اس لئے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مدرسوں، مسجدوں، فلاحی اور رفاہی اداروں، یتیم خانوں اور قبرستان کی کمیٹیوں کا ٹرسٹ بنادیا جائے، بظاہر ٹرسٹ کی شکل میں زیادہ حفاظت ہوسکتی ہے، اور ٹرسٹ کے قانون میں کافی گنجائش ہے کہ مصلحت کے اعتبار سے اختیارات اور ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں، مصارف متعین کئے جائیں اور چونکہ اس میں عوامی کمیٹی ہوگی، سالانہ آڈٹ پیش کیا جائے گا؛ اس لئے خرد برد کا اندیشہ بھی کم محسوس ہوگا۔ بہر حال اس سلسلہ میں قانون دانوں سے مشورہ کرنا چاہئے اور جو مفید تر صورت ہو سکتی ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن میں مداخلت کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، اور وقف کے موجودہ قانون نے وقف کی حفاظت میں خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ بہر حال یہ قانونی مسئلہ ہے اور قانون دانوں کے مشوروں اور مقامی حالات کے اعتبار سے کوئی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
(۵) اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ جب کوئی گروہ اللہ کے حکم کو توڑتا ہے اور اس کی نعمت کی ناقدری کرتا ہے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی پکڑ ہوتی ہے اور وہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔ اوقاف کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے، حکومت نے جس قدر اوقاف پر قبضہ کیا ہے، شاید مسلمانوں کے ناجائز طریقہ پر قبضہ کئے ہوئے اوقاف اس سے کم نہ ہوں۔ بعض لوگوں نے تو اوقاف پر مکمل قبضہ کر لیا ہے اور اپنی ملکیت کی طرح اس میں تصرف کرتے ہیں، اور بعض جگہ اوقاف کی زمین کرایہ پر لی ہے، جس کا کرایہ، مثال کے طور پر، پچاس ہزار ہونا چاہئے، اس کا کرایہ سو ڈیڑھ سو روپے ادا کرتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کم کرایہ پر لے کر زیادہ کرایہ پر لگا دیتے ہیں، خود بیس پچیس ہزار کرایہ وصول کرتے ہیں اور وقف بورڈ کو سو دو سو روپے ادا کرتے ہیں۔ اسی غصب، ناجائز قبضہ اور حرام خوری کی وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ ہمیں اِس نعمت سے محروم کر رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ درگاہوں کی زمینیں وہ سجادے فروخت کر دیتے ہیں، جن کی دینی نسبت کی وجہ سے لوگ ان کے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں۔
شاید اوقافی اَملاک کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہی جرم ہے، جس کی سزا موجودہ قانون کے ذریعہ ہمیں مل رہی ہے، اور اس کا سہارا لے کر حکومت وقف قانون لائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو مسلمان وقف کی چوری کے گناہ میں مبتلا ہیں، وہ خود اس سے توبہ کریں، ناجائز پیسوں سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی اولاد کو بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کسی کی ایک بالشت زمین پر ناجائز قبضہ کرے گا تو قیامت کے دن اسے سطح زمین سے کے کر تحت الثریٰ تک زمین کا ٹکڑا بنا کر گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ ( صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۱۹۸) پھر ایسی زمین جو اجتماعی ملکیت ہو اور جس سے سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کے حقوق متعلق ہوں، کوئی اس کے گناہ کا اندازہ کر سکتا ہے؟
اس لئے اول تو ایسے لوگوں کو خود وقف کی غصب کی ہوئی زمینیں چھوڑ دینی چاہئیں اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، اگر انہوں نے وہ زمین چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر زمین اور اس سے زیادہ دولت سے نوازے گا۔ اس سلسلہ میں مسلم سماج کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ جیسے آپ اپنی زمین کی حفاظت کرتے ہیں، اگر کوئی لینڈمافیا قبضہ کے لئے آپہنچتا ہے تو اس سے اپنی طاقت بھر لڑائی لڑتے ہیں، اور قبضہ ہونے سے بچا لیتے ہیں ، اسی طرح ملت کی جائیداد کے لئے آگے بڑھ کر ظالم کے ہاتھ پکڑ لیں اور اُن کو اس سے روک دیں اور ایسے لوگوں کو احساس دلائیں کہ ان کا ظلم کتنا بڑا ہے اور سماج اسے کتنی حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اجتماعی کوششوں کی ذریعہ ہی اس کا سد باب ہو سکتا ہے، اگر ہم خود اپنے اوقاف کے معاملہ میں دیانت سے کام نہ لیں گے تو کیسے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہو سکتی ہے؟
(۶)وقف کی حفاظت کے لئے ایک اہم ضرورت بیدار مغزی اور متحدہ کوشش ہے، کسی بھی وقف پر ناجائز قبضہ ہو، چاہے حکومت کی طرف سے ہو، یا کسی اور کی طرف سے، عوام کا فریضہ ہے کہ وہ اتحاد کے ساتھ مل جل کر ان حالات میں کھڑے ہو جائیں، عوامی دباؤ بنائیں اور جہاں قانونی پیروی کی ضرورت ہو، وہاں مل جل کر عدالتی چارہ جوئی کی جائے اور نیچے سے اوپر تک امکان بھر کوشش کی جائے۔
بہر حال یہ بہت نازک وقت ہے، حُسن تدبیر بھی ضروری ہے اور گہری فکر بھی ضروری ہے، جرأت وہمت کا مظاہرہ بھی ہونا چاہئے اور اعتدال و توازن کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے، اللہ تعالیٰ ان مشکل حالات میں مسلمانوں کی مدد فرمائے اور ہوش مندی کے ساتھ اس میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔