نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہمدردی اور دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کو صرف آپؐ کے ماننے والوں ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اس صفت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں جو آپؐ کے حلقے میں شامل نہیں ہو سکے۔
EPAPER
Updated: September 27, 2024, 4:17 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہمدردی اور دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کو صرف آپؐ کے ماننے والوں ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اس صفت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں جو آپؐ کے حلقے میں شامل نہیں ہو سکے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہمدردی اور دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کو صرف آپؐ کے ماننے والوں ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اس صفت سے بے حد متاثر ہوئے ہیں جو آپؐ کے حلقے میں شامل نہیں ہو سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی اور معاشرتی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گی کہ آپؐ کے تمام کاموں کی بنیاد اور مرکزی نقطہ انسانیت کے ساتھ یہی ہمدردی اور خیر خواہی ہے چنانچہ اللہ رب العزت نے بھی آپؐ کی اس صفت خاص کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر الگ الگ تعبیرات کے ساتھ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو آیت سب سے زیادہ نقل کی جاتی ہے وہ سورہ الانبیاء (آیت ۱۰۷) ہے : ’’اور (اے رسولؐ!) ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کیلئے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ ایک ایسی شخصیت جو تمام جہان والوں کیلئے رحمت ہو، ان سے ہمدردی اور خیر خواہی کا صدور عین فطرت ہے۔
ایک عام انسان اگر غور و فکر کرے تو اس کے ذہن میں دوسروں کے تئیں ہمدردی اور خیر خواہی کے تعلق سے یہ بات آئیگی کہ اس کے بہت سارے درجے اور قسمیں ہیں لیکن ان کی تفصیل سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمدردی اور خیر خواہی کیا ہے۔ اس سوال کا جواب عقل کی نظر میں تو یہی ہے کہ ہر خاص و عام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ رکھا جائے کہ اُس کے درد کو محسوس کیا جائے، اُس کی مدد کی جائے، اُس کی غم گساری کی جائے اور اُسے ہر طرح کی تسلی، تشفی اور تیقن سے نوازا جائے۔ یہ، موجودہ زند گی کے بعد کی زندگی میں بہت کام آنے والی خصوصیت ہے۔ انسانیت پر سب سے زیادہ احسان رسولؐ اللہ کا ہے جن کی بعثت کو قرآن مجید نے کچھ اس طرح لوگوں کیلئے رحمت قرار دیا ہے، ترجمہ: ’’ اور تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اﷲ نے تم کو اس سے بچالیا۔ ‘‘ (آل عمران:۱۰۳)
ہمدردی و خیر خواہی کے تعلق سےاس مرکزی نکتے کے آئینے میں اگر ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ایک عجیب بات ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ ہمیں اپنے ماتحتوں اور بطور خاص اہل و عیال کو جس سمت میں لے جانا چاہئے، ہم میں سے بہت سے لوگ اس سمت میں لے جانے کے بجائے دوسری طرف لے جانے پر پوری قوت صرف کر رہے ہیں۔ اس کی ایک بہت واضح مثال یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو نماز فجر کیلئے صرف اس لئے نہیں اٹھاتے کہ ان کو آرام سے سونے دیا جائے۔ جبکہ درحقیقت یہ ان کو تکلیف میں ڈالنے کا سبب ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے: ’’جو شخص نماز چھوڑدے، وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہونگے۔ ‘‘ اس طرح کی ایک دو نہیں بے شمار احادیث ہیں ، جن میں نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، بلکہ نماز میں سستی کرنے پر بھی طرح طرح کی وعیدیں ہیں۔ خیر خواہی اور ہمدردی کے تعلق سے اس مرکزی نکتے سے آگے بڑھ کر جب ہم ثانوی درجے میں معاشرتی اور سماجی زندگی میں اپنے اندر اس نبوی صفت کو تلاش کرتے ہیں تو اس میں بھی ہم اپنے آپ کو بہت پیچھے پاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے سامنے خود نبیؐ اکرم اور ان کے بلا واسطہ تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں اس حوالے سے کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے تین بار یہ ارشاد فرمایاکہ ’’دین سراسر خیرخواہی کا نام ہے۔ ‘‘ (سنن النسائی) اس سے یہ بات بھی واضح ہو تی ہے کہ دین اسلام فقط عبادات یا ذکر و اذکار یا وظائف کا نام نہیں ، بلکہ بندوں کے حقوق، ان کے ساتھ خیرخواہی اور ان کیلئے بھلائی کا چاہنابھی اس میں شامل ہے اور وسیع تر تناظر میں یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔
چونکہ ہمارے معاشرے میں ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے، اس لئے اسے دور کرنے کیلئے ہمیں مذہبی بیداری لانے اور مذہبی اعتبار سے اس کی اہمیت کو قولاً اور عملاً بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس طرز پر کام نہیں ہوگا ہم اپنے اندر اورلوگوں میں خیر خواہی و ہمدردی کا جذبہ جگانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ زیر نظر مضمون کے مطابق ہمدردی و خیر خواہی چاہے مرکزی ہو یا ثانوی دونوں اعتبار سے ہمارے مستفیدین مسلم و غیر مسلم دونوں ہیں۔ اس لئے جہاں ہم اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو اور تمام مسلمان کو جہنم کی آگ سے بچا نے کی کوشش کریں وہیں اپنے غیر مسلم بھائیوں کیلئے بھی یہ کوشش کریں۔ اسی طرح معاشرتی اور سماجی زندگی میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کر یں وہیں غیر مسلم بھائی بھی ہماری ہمدردی و خیر خواہی سے محروم نہ رہیں۔ یہ بھی ہماری اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔