Inquilab Logo Happiest Places to Work

پرسکون زندگی کیلئے موت کی یاد سب سے آسان نسخہ ہے

Updated: March 08, 2024, 12:39 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

دُنیا کے ہر انسان کا نام موت کے رجسٹر میں لکھا ہوا ہے، بحیثیت مسلمان ہمارا اس پر ایمان بھی ہے لیکن افسوس کہ اکثریت موت کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتی۔

Death is an inescapable fact, it is mentioned in the Holy Quran that every soul has to taste its taste, yet we neglect it. Photo: INN
موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے کہ ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے، اس کے باوجود ہم اس سے غفلت برتتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

شعبان المعظم کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔ بہت جلد رحمتوں والا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ ایک ایسا مہینہ جس میں ایک ایک عمل کے ثواب میں اللہ تعالیٰ بے پناہ اضافہ کردیتا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزارمہینوں سے بہتر ہے۔ رمضان المبارک کے اس طرح بیشمار فضائل ہیں جن سےہر مسلمان مردو عورت واقف ہیں۔ لیکن ہر سال یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں (خاص کر پہلے عشرے میں ) تو نہایت جوش وخروش اور چہل پہل دیکھنے ملتی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے توعبادتوں کے حوصلے ماند پڑتے جاتے ہیں۔ بلکہ، اس شور شرابہ سے درکنار، اب تو رمضان میں مخلصانہ عبادتوں کے اہتمام کا ہی فقدان نظر آنے لگا ہے۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسافر دو قسم کے ہوتے ہیں : ایک وہ مسافر کہ جس کو ہرگھڑی یہ فکر لگی رہتی ہے کہ میری سواری کبھی بھی آسکتی ہے اور میرا سفر شروع ہوسکتا ہے۔ وہ ہمہ تن مستعد رہتا ہے، تیار رہتا ہے اور اپنے سامان سفر کو جٹانے میں لگا رہتا ہے۔ اور دوسرے وہ مسافر ہوتا ہے جس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ’’ہنوز دلّی دور است۔ ‘‘ ان مسافروں کو کوئی فکر نہیں رہتی کہ سفر کا آغاز کب ہوگا؟کیسے ہوگا؟ اور وہ اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ ہم ذرا کچھ اور موج مستی کرلیں پھر اس کے بعد سفر کی تیاری شروع کریں گے۔ بس یہی حال عبادات کے معاملے میں انسانوں کا ہے، اور ان دو میں سے مؤخر الذکر لوگ وہ ہوتے ہیں کہ اپنے دنیا کے کاموں کی آج فکرکرتے ہیں اور آخرت کی تیاری کو کل پر ڈالے رہتے ہیں۔ ان سب کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ ان کے سال بھر کے اعمالِ صالحہ متأثر رہتے ہیں بلکہ رمضان المبارک کے بابرکت لمحات بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ 
 چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان، آخرت کے تئیں سستی اور لاپروائی کی اس بیمار ی کا بہترین علاج موت کی یاد ہے جس سے آج ہم میں سے اکثر لوگ غافل ہوچکے ہیں۔ ہمیں ہنسنے ہنسانے اور دل لگی کی باتوں میں زیادہ لطف آنے لگا ہے اور موت کے تذکرے سے بھی ہم ڈرنے لگے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی کمزوری ہے جو ہمارےنیک اعمال کی فکر کو گھن کے کیڑے کی طرح کھائی جارہی ہے۔ ایک عربی کتاب ’’حلیۃ الاولیاء وطبقۃ الاصفیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ایک مرتبہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازمؒ سے پوچھا: ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم موت سے اتنی نفرت کرتے ہیں ؟ حضرت ابو حازمؒ نے فرمایا: تم نے دنیا کو آباد کیا اور آخرت کو ویران کررکھا ہے، اس لئے تمہیں ڈر لگتا ہے کہ آبادی سے نکل کر ویرانے کی طرف جاؤ۔ ‘‘
حضرت ابو حازمؒ کا یہ ایک جملہ آج کے دور کے انسان کے جذبات کی عکاسی کے لئے اور ہمارے احوال کی تعبیر کی کے لئے کافی ہے۔ ہم نے بھی اپنی مکمل سوچ کا، اپنے ہر عمل کا مرکز دنیا کو بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کا خیال کبھی ہمارے ذہنوں میں نہیں آتا اور اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہم اس کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کی سب سے پہلی سیڑھی یعنی موت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ موت، جس کو ہمارے نبی کریمﷺ نے کثرت سے یادکرنے کا حکم دیا تھا ہم کبھی بھولے سے بھی اس کو یاد نہیں کرتے۔ 

یہ بھی پڑھئے: شر سے بچنے کا حکیمانہ طریقہ

آج سوشل میڈیا پر ہماری نگاہوں کے سامنے ایسے ویڈیوز آتے رہتے ہیں جس میں لوگ چلتے پھرتے، گاڑی چلاتے ہوئے، ہنسنے اور ناچتے ہوئے، کھیلتے ہوئے، پانی میں تیرتے ہوئے، جنگلوں کی سیر کرتے ہوئے موت کا شکار ہورہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ عبرت نہ حاصل کرنے کی گویا قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ موت کے لئے اللہ عزوجل نے کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ بیماری، حادثات، جنگ، حملے، بڑھاپا یہ صرف چند مشہور وجوہات ہیں ورنہ موت ان سب کے بغیر بھی ہر عمر والے پر نشانے سادھ رہی ہے، ہم سب دیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں لیکن خود کو ایک محفوظ جزیرے پر سمجھ رہے ہیں جبکہ ایسا کوئی مقام نہیں جہاں موت نہیں آسکتی اور ایسا کوئی شخص نہیں جو موت کے تیر سے خود کو ہمیشہ بچا سکتا ہو۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں موت کے متعلق ارشاد فرمایا ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ ‘‘ اسی بات کو عہد عباسی کا مشہور عربی شاعر ابو العتاہیۃ ایک شعر کی شکل میں پیش کرتاہے:
’’کسی بھی لمحہ، کسی بھی گھڑی موت کی جانب سے مطمئن نہ ہونااگرچہ کہ تو خودکو دروازوں اور نگہبانوں کے ذریعہ محفوظ کرچکا ہو۔ یاد رکھ کہ موت کے تیر ہر زرہ پہنے ہوئے اور پہرے میں محفوظ شخص کو کبھی بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ‘‘ 
ایک تحقیق کے مطابق اس دنیا میں ہر ایک گھنٹے میں چھ ہزار انسانوں کی اموات ہوتی ہیں۔ اس دنیا کے ہر انسان کا نام اس فہرست میں لکھا ہوا ہے جس کو اللہ عزوجل نے بالکل واضح الفاظ میں ارشادفرمادیا کہ ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ لیکن انسان کی اپنی خود کی منطق اور اس کی طویل طویل آرزوئیں ا س کو موت کی جانب سے غافل کئے رہتی ہیں جبکہ ہم خود اپنی آنکھوں سے کتنے لوگوں کو اس دنیا سے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں، کتنوں کو تو ہم خود ان کی قبر تک پہنچا کر واپس آرہے ہیں لیکن اپنی خود کی موت کا خیال آتے ہی ہم فوری طور پر اس کو ذہن سے باہر نکال دیتے ہیں اور جلدی سے دنیا کی رعنائیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں جبکہ ’’دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ آج عمل ہے حساب نہیں، کل حساب ہوگا عمل نہیں۔ ‘‘ 
ہمارے سامنے بیشمار مثالیں بھی ہیں : ہم سے پہلے کئی لوگ اس دنیا سے چمٹ کررہے، انہوں نے دنیا وی دولت اتنی جمع کر لی کہ کوئی گن نہیں سکتا تھا لیکن جب اس دنیا سے گئے توخالی ہاتھ گئے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ’’اگلا گر اپچھلا ہوشیار‘‘ لیکن پتہ نہیں کیوں موت کے گڑھے میں اتنے لوگوں کو گرتاہوا دیکھ کر بھی ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے؟ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ موت کی یاد ہی وہ شے ہے جوہمارے دلوں کو اللہ کی یاد کی جانب متوجہ کرسکتی ہے۔ اللہ کی یاد جس سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، زندگی خوشگوار بنتی ہے اور آخرت کی تیاری کی جانب ہمارے قدم خود بخود اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK