Inquilab Logo Happiest Places to Work

شر سے بچنے کا حکیمانہ طریقہ

Updated: March 01, 2024, 1:51 PM IST | Mufti Muneebur Rehman | Mumbai

سَمع،بصر اور لَمس یہ تمام حسیات بدکاری کا دروازہ ہیں۔ ہمیں برائیوں کے ان دروازوں کو بند رکھنا ہو گا یا ان کی حفاظت کرنی ہوگی۔

Technology has both advantages and disadvantages. We must beware of harm! Photo: INN
تکنالوجی میں فائدہ بھی ہےنقصان بھی۔ ہمیں نقصان سے متنبہ رہنا چاہئے!۔ تصویر : آئی این این

شاعر نے کہا ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
شر سے بچنے کا حکیمانہ طریقہ یہ ہے: اگر آپ کسی برائی سے بچنا چاہتے ہیں تو اس میں مبتلا ہونے اور اس کے مہلک اثرات ظاہر ہونے کے بعد آہ و فغاں کرنے سے بہتر ہے پیش بندی کرلی جائے۔ سو شاعر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ کوپروانے کی جان بچانی ہے تو شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے نہ دیں کیونکہ جب وہ باغ میں جائے گی تو پھلوں، پھولوں، کلیوں اور پتوں کا رس چوسے گی اور واپس اپنے چھتے پر آکر اسے اگل دے گی۔ اس سے شہد بھی بنتا ہے اور موم بھی۔ جب موم بنتا ہے تو اس سے شمع جلتی ہے اور جب شمع جلے گی تو لازم ہے کہ پروانہ بھی آئے گا اور اس طرح وہ شمع کی لو میں جل کر فنا ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر پروانے کی زندگی چاہئے تو اس کی موت کے اسباب کا سدِباب کیجئے۔ شریعت نے بھی منکرات سے بچنے کی تدبیر یہی بتائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حلال و حرام واضح ہیں (ان میں کوئی ابہام نہیں ہے) لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ (غیر واضح) امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص مشتبہ امور سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں مبتلا ہو گیا تو اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد اپنے مویشی چراتا ہے اور ہمیشہ اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی کھیت میں جا گھسیں گے، سنو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوعہ حدود ہوتی ہیں اور اللہ کی زمین پر اس کی ممنوعہ حدود اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، سنو! بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسمانی نظام درست رہتا ہے اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو پورا جسمانی نظام بگڑ جاتا ہے، سنو! گوشت کا وہ لوتھڑا دل ہے۔ (بخاری:۵۲) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خطرات کے قریب جانا اُن میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اخلاقی انحطاط: وجوہات اور نتائج

 ابتدائے آفرینش سے رب تبارک و تعالیٰ نے ہماری اصلاح کیلئے یہی حکمت پسند فرمائی کیونکہ وہ انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے۔ وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں، قوت و ضعف اور استعداد کو بہتر جانتا ہے۔ پس اس کی حکمت نے چاہا کہ آدم و بنی آدم برائی سے دور رہیں۔ چنانچہ جب حضرت آدم و حوا کو جنت میں داخل کیا گیا تو انہیں یہ نہیں فرمایا: اس درخت کو نہ کھانا، بلکہ فرمایا ’’تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا۔ ‘‘و (البقرہ:۳۵) اسی حقیقت کو نبی کریمﷺ نے ’’مشتَبہات‘‘سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ درخت کا پھل وہی کھائے گا جو اس کے قریب جائے گا، جو اُس سے کوسوں دور رہے اس کے دل میں کبھی اس کی طلب بھی پیدا نہیں ہو گی۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان نے حضرت آدم و حوا کو بہکانے اور لغزش دینے کیلئے یہی حربہ استعمال کیا اور کہا تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ تم ( اس کا پھل کھا کر) فرشتے بن جاؤ گے یا تمہیں دائمی زندگی مل جائے گی۔ ‘‘(الاعراف:۲۰) کھلے دشمن کو پہچاننا تو آسان ہوتا ہے، انسان اس سے بچاؤ کیلئے کوئی تدبیر بھی اختیار کر لیتا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک دشمن وہ ہے جو خیرخواہ اور ہمدرد کے روپ میں آکر شکار کرتا ہے۔ ابلیس بھی حضرت آدم و حوا کے پاس اسی روپ میں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس (ابلیس) نے قسم کھاکر ان دونوں کو یقین دلایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ‘‘ (الاعراف:۲۱) قرآنِ کریم نے اس کے سارے مکروفریب کا ہدف ان الفاظ میں بتا دیا:’’پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘ (الاعراف:۲۲)آج یہی مظاہر ہم میڈیا کے مختلف شعبوں اور صنعتِ تشہیر میں ہر سو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی خواب گاہوں میں بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ الغرض عریانی، فحاشی، اخلاق بافتگی، برہنگی، صنفی اور جنسی اشتہا کی اشتعال انگیزی شیطان کا ایسا حربہ ہے جو دلکشی، دلربائی اور فریبِ نظر کی مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے اپنی تمام تر بربادیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ تہذیب ِ مغرب کی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے، بس ہیئت بدلتی رہتی ہے، ورنہ روزِ اول سے شیطان کا منشور یہی رہا ہے۔ 
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ، وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ ‘‘ (الانعام: ۱۵۱)۔ نیز بے حیائی کے آخری درجے کی بابت فرمایا:’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک یہ بے حیائی (کی انتہا )ہے اور برا راستہ ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل:۳۲)
 خلاصۂ کلام یہ کہ سَمع، بصر اور لَمس یہ تمام حسیات بدکاری کا دروازہ ہیں۔ ہمیں برائیوں کے ان دروازوں کو بند رکھنا ہو گا یا ان کی حفاظت کرنی ہو گی۔ ورنہ ان راستوں سے برائیاں انسان کے دل و دماغ تک پہنچتی ہیں اور جو لوگ ایمان و عقیدے میں کمزور ہوتے ہیں، وہ ان کے برے اثرات کو قبول کر لیتے ہیں اور ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ہر برائی میں مبتلا ہونے سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان ان کے محرکات و اسباب سے دور رہے۔ 
  آئے روز ہم سوشل میڈیا پر جو مظاہر سنتے اور دیکھتے ہیں تو قرآن کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ فسق و فجور کی راہوں کو کھلا رکھا گیا تو اس میں مبتلا ہونے سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حکمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK