• Fri, 14 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نئی نسل اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک بن سکے اس لئے تعلیم ِ نسواں کی فکر کیجئے

Updated: November 14, 2025, 4:31 PM IST | Sumiya Islam | Mumbai

آج ہم جس وقت اور زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے اور اس بدلے ہوئے زمانے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کو سمجھیں اور کتاب و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں بھی دنیاوی ا ور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کریں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدروقیمت رہی ہے؛ تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش بے بنیاد خواہش ہے، انسان کی نافعیت کے لئے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لئے پانی کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں دینی تعلیم کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
اسلام کا سورج جب طلوع ہوا اور اس کی ضیا پاش کرنیں پوری دنیا کو روشن کرنے لگیں تو اس نے اپنے ماننے والوں پر سب سے پہلے جو امر نافذ کیا وہ تھا تعلیم۔ یعنی علم حاصل کرنے کا حکم دیا تاکہ امت مسلمہ جہالت کی تاریکیوں سے آزاد ہو سکے اور علم کی روشنی میں نہ صرف سانس لے سکے بلکہ پوری دنیا میں ایک کامیاب اور ترقی یافتہ قوم کی شکل میں ابھر سکے۔ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر دور میں وہی قومیں سب سے زیادہ کامیاب و کامراں اور ترقی یافتہ رہیں جو تعلیم میں سب سے زیادہ آگے تھیں۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پوری انسانیت کی تعلیم کیلئے اسلام نے بھی جو طریقہ اختیار کیا وہ یہی تعلیمی طریقہ تھا۔
اسلام کے جو بھی احکامات ہیں ان پر عمل پیرا ہونا عورتوں کیلئے بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ مردوں  کے لئے ، سوائے اس کے کہ ان میں سے کسی کے لئے کوئی تخصیصی حکم الگ سے نہ آگیا ہو۔ حصول علم کے حوالے سے بھی یہی بات ہے یعنی اس کے حصول کے جو احکام ہیں وہ صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ مردو خواتین دونوں ہی کے لئے یکساں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ کے رسول ﷺ نے صحابۂ کرام کے ساتھ ساتھ تر ازواج مطہرات کو زیور علم سے اس حد تک آراستہ و پیراستہ کیاکہ ہجرت مدینہ کے بعد ایک طرف اصحاب صفہ تھے تو  دوسری جانب خواتین کی پہلی مرکزی درسگاہ حضرت عائشہ ؓ کی تعلیم گاہ قرار پائی اور جہاں سے مردو زن دونوں ہی نے یکساں طور پر اپنی علمی تشنگی بجھا ئی اور مسائل کا حل تلاش کیا۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ خلفائے راشدین کا زمانہ ہو یا عہد بنی امیہ یا پھر دورِ عباسی، ہر ایک میں تعلیم مرداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں پر بھی توجہ دی گئی اور دونوں ہی کی علمی صلاحیتوںکو تسلیم کیاگیا۔ یہاں تک کہ ان ادوار میں مردوں اور خواتین کے علاوہ غلام اور کنیزوں کو بھی کسی سے پیچھے نہیں رکھا گیا۔ خود ہندوستان میں جب مسلمان آئے اور یہاں ان کی حکومت قائم ہو ئی تو مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی تحصیل علم کی جانب توجہ دی اور اس کی بدولت وہ نہ صرف ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہیں بلکہ بہت سی دینی و غیر دینی در سگاہیں بھی قائم کیں ،ا نہیں اپنے خون جگر سے سینچا اور کامیابی کے لئے راہیں ہموار کیں۔
جدید تعلیم کے جھنڈے تلے جس مسئلے کو سب سے زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی تعلیم نسواں تھی۔ بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم اور بالخصوص تعلیم نسواں کی نہ صرف کھل کرمخالفت کی بلکہ اس کے حصول پر کفر کے فتوے تک صادر کر دیئے۔ اس کے باوجود اس عہد میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو ہر حال میں لڑکیوں کی تعلیم چاہتے تھے اور ان کی خواہش کے بقدر لڑکیاں بھی اعلی تعلیم کے حصول کی راہ پر گامزن تھیں۔
بیسویں صدی کے نصف اول تک آتے آتے تو ہندوستان کا تعلیمی نقشہ ہی بدل گیا۔ اس وقت کے جو زمیندار اور پڑھے لکھے لوگ تھے ، جنھیں آج ہم طبقہ ٔ اشرافیہ سے موسوم کرتے ہیں، ان کا رجحان غیر معمولی حد تک جدید تعلیم اور نسواں کی طرف ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مرد و خواتین دونوں ہی میں حصول علم کا رجحان ملتا ہے۔ پھر طبقہ ٔ  اشرافیہ کی دیکھا دیکھی دیگر طبقات کے لوگ بھی جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس طرح بدلتے ہوئے حالات نے جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کے مخالفین کو بہت زیادہ دنوں تک اپنے موقف پر قائم نہیں ر ہنے دیا اور نتیجتاً وہ بھی تعلیم نسواں کے قائل ہوگئے اور پھر لڑکوں کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لڑکیاں بھی اسکول پہنچ گئیں اور تعلیم نسواں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
لیکن باوجود اس کے تعلیم نسواں کی طرف اس نوع سے پیش رفت نہیں کی گئی جس طرح سے ہونی چاہئے تھی۔ آج ملک آزاد ہوئے تقریباً پون  صدی  ہورہی ہے پھر بھی ہماری تعلیمی حالت میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج بھی ہم تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں۔ جب ہم اپنے علاقے کے تعلیمی منظر نامے اور بالخصوص مسلمانوں کی شرحِ تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں توبڑی مایوسی ہوتی ہے بلکہ سر پکڑ کر رو لینے کا دل کرتا ہے کیونکہ ابھی بھی تعلیم نسواں کی نہ صرف کمی ہے بلکہ سرے سے فقدان ہے۔ وقت اور زمانے کی تمام تر ترقیوں کے باوجود ہمارے یہاں وہ تعلیمی نظام اور تعلیمی ماحول نہیں بن پایا ہے جس کی اس دور میں حد درجہ ضرورت ہے۔
ضرورت اور وقت دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے؛ لیکن اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے لئے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں۔ مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے۔ اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیم ِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہئے؛ تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق وکردار کی مالک بن سکے؛ مگر معاشی اعانت کے لئے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیرفطری بھی ہے اور غیراسلامی بھی؛ اس لئے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اور مباح امور میں شوہر کی اعانت و اطاعت کرنا۔
تاریخِ اسلام میں ایسی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب و سنت کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں سے بعض مخلوط تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے ساتھ طالبات داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعض تعلیمِ نسواں کے لئے خاص ہیں۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسلامیات پر خاصا کام ہوا ہے اور بڑی تعداد میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں۔ برصغیر ہند وپاک میں بھی طالبات میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر مصروفِ حصول ِ علم ہیں نیز ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں۔
گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھا، ان کے لئے مخصوص تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صلاحیتوں کو جلا ملی اور انھوں نے اسلامیات کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کئے۔ ان سے خواتین کے تخلیقی کمالات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  علومِ اسلامیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کو اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے، لیکن ان سے مزید کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اور تابناک رہا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعہ علوم اسلامیہ کے مختلف میدانوں میں قابلِ قدر اور معیاری کام سامنے آئے گا۔
آج ہم جس وقت اور زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے اور اس بدلے ہوئے زمانے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کو سمجھیں اور کتاب و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں بھی دنیاوی ا ور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ آج اگر ہم اپنے سماج کو ظلمت وجہالت اور غلط رسم ورواج سے پاک و صاف کرنا چاہتے ہیں تواس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم مرَداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کی طرف توجہ دیں اور لڑکوں کے شانہ بہ شانہ لڑکیوںکو بھی ہرطر ح کے علوم و فنون سے روشناس کرائیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اورپیشہ ورانہ ہوں یا غیر پیشہ ورانہ، تاکہ وہ بھی ہر طرح کے علوم وفنون کے میدان میں آگے بڑھ سکیں او ر خود کو سماج و معاشرہ کے لئے مفید اور کار آمد ثابت کرسکیں۔ بقول  اکبر الہ آبادی
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK