کلامِ الٰہی نے اپنے لئے جو اسماء و القاب اختیار کئے ہیں اُن کو زیرنظر مضمون میں حروف تہجی کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے۔ طوالت سے گریز کی خاطر ہر نام کے تحت صرف ایک حوالے پر اکتفا کیا گیا ہے
EPAPER
Updated: August 25, 2023, 3:03 PM IST | Muhammad Rafiq | Mumbai
کلامِ الٰہی نے اپنے لئے جو اسماء و القاب اختیار کئے ہیں اُن کو زیرنظر مضمون میں حروف تہجی کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے۔ طوالت سے گریز کی خاطر ہر نام کے تحت صرف ایک حوالے پر اکتفا کیا گیا ہے
قرآن مجید نے اپنی گوناگوں خصوصیات اور مختلف حیثیات کے پیش نظر اپنے لئے جگہ جگہ ایسے صفاتی نام تجویز کئے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنا تعاراف کراتا ہے اور جس کے نتیجے میں اس کا عظیم مرتبہ و مقام واضح ہوتا ہے۔
اِس ضمن میں اگرچہ لفظ ’’قرآن‘‘ کی لغوی بحث میں کئی اقوال ملتے ہیں تاہم اس لفظ کی حیثیت بھی اسم ِ عَلم یعنی اس کے اصل نام کی ہوگئی ہے، کیونکہ بعض دوسری الہامی کتابوں مثلاً توریت اور انجیل (جو کہ اب لفظی اور معنوی طور پر محرّف ہوچکی ہیں ، بدلی جاچکی ہیں ) کے اسماء کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کے لئے جو نام اختیار کیا وہ قرآن ہی ہے۔ سورہ توبہ میں ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔‘‘ (آیت: ۱۱۱)
پھر اس کتاب ِ الٰہی کے تمام اسماء میں بھی سب سے زیادہ قرآن ہی کا نام مذکور ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسمائے حسنیٰ میں ’’اللہ‘‘ کا نام ہی قرآن مجید میں سب سے زیادہ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اپنے لئے جو اسماء و القاب اختیار کئے ہیں اُن کو زیرنظر مضمون میں حروف تہجی کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے اور ہر ایک نام کے تحت صرف ایک ہی حوالے پر اکتفا کیا گیا ہے تاکہ مضمون میں طوالت پیدا نہ ہو۔
حکمت: قرآن مجید کی ایک صفت ’’حکمت‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں دانائی، محکم اور دانشمندانہ بات، فیصلے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا اور جہالت، گمراہی اور افراط و تفریط سے بچ کر چلنا۔ قرآن مجید اس لحاظ سے حکمت ہے کہ اس میں دانائی ہی کی باتیں مذکور ہوئی ہیں ۔ یہ ایک حکیم ودانا ہستی کا کلام ہے۔ اس کی ہر بات محکم اور دانش پر مبنی ہے اور عدل و انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کہی گئی ہے:
’’اور ان کو ایسے حالات (سابقین) پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی لیکن ڈرانا ان کو کچھ فائدہ نہیں دیتا ۔‘‘ (القمر:۴۔۵)
حکیم: قرآن مجید کا ایک نام ’’حکیم‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں دانا، عقل و دانش سے بھرپور، حکمت بھرا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید اس اعتبار سے ’’حکیم‘‘ ہے کہ اس کے ہر بیان میں حکمت ، دانائی اور بصیرت ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو بلامقصد ہو، فصول یا بے کار ہو۔ اس کے ہر حکم میں حکمت و مقصد ہے:
’’یٰسین۔ قسم ہے قرآن حکیم کی۔‘‘ (یٰسین:۱۔۲)
ذکر: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’ذکر‘‘ ہے جس کے معنی نصیحت، یاددہانی اور شرف و عزت کے ہیں ۔ قرآن مجید کو ذکر اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے ایک نصیحت نامہ ہے۔ وہ ایک ایسی یاددہانی ہے جس سے انسانوں کا خوابیدہ ضمیر اور اُس کی خفتہ فطرت کو جگایا جاسکتا ہے تاکہ وہ اپنے خالق کی صحیح معرفت حاصل کرسکے اور راہِ ہدایت پر گامزن ہوسکے۔ نیز وہ سابقہ اقوام کے عروج و زوال کو بیان کرکے انسان کی توجہ قوانین الٰہی اور نوامیس ِ فطرت کی طرف مبذول کراتا ہے۔ مزید برآں قرآن مجید اس لحاظ سے بھی ذکر ہے کہ اس پر عمل کرکے قومیں عزت و شرف حاصل کرسکتی ہیں اور اس کو ترک کرکے وہ قعر ِ مذلّت میں گر سکتی ہیں :
’’بےشک ہم نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘ (الحجر:۹)
ذکریٰ: قرآن مجیدکی ایک صفت ’’ذکریٰ‘‘ بھی آئی ہے جس کے معنی ہیں نصیحت اور یاددہانی۔ قرآن مجید اس لحاظ سے ذکریٰ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نوعِ انسانی کے لئے ایک نصیحت ہے جو اس کی سوئی ہوئی فطرت ِ اسلامی کو بیدار کرتی ہے تاکہ وہ اپنے بھولے ہوئے خالق کو یاد کرکے اُس کی بتائی ہوئی راہ پر چلیں :
’’یہ ایک کتاب ہے جو آپؐ کی طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، آپؐ کے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈرائیں اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو ۔‘‘ (الاعراف:۲)
رحمت: قرآن مجید کی ایک صفت ’’رحمۃ‘‘ ہے جس کے معنی مہربانی، شفقت اور عطیہ کے ہیں ۔ قرآن مجید ان معنوں میں رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنے بندوں کو جہالت اور گمراہی سے بچانا چاہتا ہے، وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے جہالت و ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکتے پھریں اور دنیا و آخرت میں اس کے غضب و عذاب کے مستحق ٹھہریں ۔ اس لئے یہ اس نے اپنی خاص مہربانی اور شفقت فرمائی کہ اُن کے لئے ایک ایسی کتاب نازل کردی جس پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے مقصد حیات کے گوہر ِ مراد کو پاسکتے ہیں ۔ اور وہ اس کے ذریعے اللہ کا نہیں بلکہ اپنا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ کتاب انسانوں کو اُن کی کسی محنت کے صلے میں یا اُن کے کسی عمل کے بدلے میں نہیں ملی ہے بلکہ یہ سراسر فضلِ الٰہی، عطیۂ خداوندی اور عنایت ِ ربانی کی صورت میں اُن کے پاس آئی ہے:
’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘ (النحل:۸۹)
روح: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’الروح‘‘ بھی جس کے معنی ہیں زندگی، رحمت اور وحی ٔ الٰہی۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’الروح‘‘ ہے کہ اس سے مردہ دلوں کو حیات ِ تازہ ملتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی کا یہ فضل و احسان ہے کہ اُس نے کتاب کی صورت میں ایسی وحی نازل کردی جس کے ذریعے انسان دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوسکتا ہے اور خسارہ و نقصان سے بچ سکتا ہے:
’’اور اِسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے ۔‘‘ (الشوریٰ:۵۲)
شفاء: قرآن مجید کی ایک صفت ’’شفاء‘‘ بھی ہے جس کے معنی کسی مرض پر غالب آنے اور صحت یاب ہونے کے ہیں ۔ قرآن مجید اس لحاظ سے ’’الشفاء‘‘ ہے کہ اس سے دلوں کے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے روحانی اور نفسیاتی بیماریوں مثلاً جہالت، کبر ، غرور، حرص و بخل، حسد اور کینہ وغیرہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے:
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں ) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کیلئے رحمت (بھی)۔‘‘ (یونس:۵۷)
صدق: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’الصدق‘‘ بھی ہے جس کے معنی سچائی اور نیک نامی کے ہیں ۔ قرآن مجید کے الصدق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ سراسر سچائی اور صداقت ہے۔ اس کے بیان میں کسی قسم کے جھوٹ کا شائبہ تک نہیں ۔ اس کی باتیں سچی ہیں ، اس کے دعوے برحق ہیں ۔ انسان اور کائنات کے بارے میں جو کچھ اس نے بیان کردیا ہے وہ حق و صداقت پر مبنی ہے ۔ وہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ذکر خیر قیامت تک ہوتا رہے گا۔ اس کا احترام ہمیشہ باقی رہے گا:
’’سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہو؟ کیا کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے؟اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ تو متقی ہیں ۔‘‘ (الزمر:۳۲۔۳۳)
عجب: قرآن مجید کی ایک صفت ’’عجب‘‘ ہونا ہے جس کے معنی ہیں بہت عجیب، دل پزیر اور اثرانگیز۔ قرآن مجید اس اعتبار سے عجب کہلاتا ہے کہ یہ عام انسانی کلام کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ خالق کائنات کا کلام ہے جو اپنی فصاحت و بلاغت میں بے نظیر، اپنی تاثیر میں یکتا اور دل پزیری میں منفرد ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے تمام مخلوقات عاجز ہیں :
’’آپ فرما دیں : میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (میری تلاوت کو) غور سے سنا، تو (جا کر اپنی قوم سے) کہنے لگے: بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔‘‘ (الجن:۱)
عرَبی: قرآن کی ایک صفت ’’عربی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں فصیح اور واضح طور پر بیان کرنے والا۔ قرآن مجید کے عَرَبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے۔ اس کی زبان ایسی ہے جو فصیح و بلیغ ہے۔ اس کے بیان میں کوئی الجھاؤ یا ابہام نہیں ہے۔ اس کی بات میں کجی یا پیچیدگی نہیں ہے۔ وہ اپنی بات کو نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اپنا مدعا نہایت عمدہ طریقے سے بیان کردیتا ہے:
’’بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘ (یوسف:۲)
عزیز: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’عزیز‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں زبردست، غالب، عزت والا اور نادر۔ یہ نام اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید اس لحاظ سے عزیز ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا زبردست کلام ہے جس میں کبھی کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔یہ کتاب نہایت عزت و احترام کی حامل ہے اور یہ اللہ کا نادرکلام ہے:
’’اور بے شک وہ (قرآن) بڑی باعزت کتاب ہے، باطل اِس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔‘‘ (الفصلت:۴۱۔۴۲)
عظیم: قرآن مجید کا ایک نام ’’عظیم‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں عظمت والا۔ یہ نام بھی اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ قرآن مجید ان معنوں میں عظیم ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا باعظمت کلام ہے۔ یہ شہنشاہِ کائنات کا عالی مرتبہ کلام ہے، اس کی عظمت و جلالت کے آگے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوسکتے ہیں :
’’اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (سورۂ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔‘‘ (الحجر:۸۷)
علم: قرآن مجید کی ایک صفت ’’العلم‘‘ ہے جس کا مطلب ہے یقینی علم، صحیح معلومات، حقیقت ِ نفس الامری کا علم، حقیقت و واقعیت کا معلوم ہونا۔ قرآن مجید اس پہلو سے ’’علم‘‘ ہے کہ خالق کائنات اور علیم و خبیر خدا کا اتارا ہوا علم ہے جو حقائق و واقعات کا صحیح علم ہے اور جس میں غلطی اور خطا کا کوئی امکان نہیں :
’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے، اور (اے سننے والے!) اگر تو نے ان (کافروں ) کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ تیرے پاس (قطعی) علم آچکا ہے تو تیرے لئے اﷲ کے مقابلہ میں نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی محافظ۔‘‘ (الرعد:۳۷)
فرقان: قرآن مجید کا ایک نام ’’الفرقان‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں فرق کرنا، حق و باطل میں امتیاز کرنے والا اور حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا۔ قرآن مجید اس لحاظ سے الفرقان ہے کہ یہ حق و باطل کی راہوں میں اور حلال و حرام چیزوں میں فرق و امتیاز کرتا ہے، اپنے اوامر و نواہی کو وضاحت سے بیان کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کے لئے بصیرت کی روشنی ہے جس سے وہ جائز و ناجائز میں تمیز کرسکتے ہیں ۔ وہ ایک معیار اور کسوٹی ہے جس سے ہر چیز کی قدر و قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے:
’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈر سنانے والا ہو جائے۔‘‘ (الفرقان:۱)
احسن َالحدیث: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’احسن الحدیث‘‘ہے جس کے معنی ہیں بہترین کلام، عمدہ ترین بات، سب سے اچھی بات۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی کلام بہترین اور عمدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اس رب العالمین اور خالق ِ کائنات کا کلام ہے جس کا کوئی شریک و سہیم اور ثانی نہیں ہے :
’’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ۔‘‘ (الزمر:۲۳)
الاَمْر:قرآن مجید کا ایک نام ’’الامر‘‘ ہے جس کے معنی ’’حکم‘‘ کے ہیں ۔ قرآن مجید ان معنوں میں الامر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام بیان ہوئے ہیں جن کی تعمیل اور اطاعت کرنا اُس کے بندوں پر فرض ہے :
’’یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔‘‘ (الطلاق:۵)
بُرہان: قرآن مجید کی ایک صفت ’’البرہان‘‘ ہے جس کے معنی ہیں مضبوط اور روشن دلیل، ہر حال میں سچی دلیل۔ قرآن مجید کے البرہان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حجت ِ قاطع ہے، ہر شعبے کا ازالہ، ہر اعتراض کا جواب اور ہر سوال کا تشفی بخش جواب ہے ۔ یہ اپنی دلیل آپ ہے اور ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ والی بات ہے :
’’لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے ۔‘‘
(النساء:۱۷۴)
بشریٰ: ’’بشریٰ‘‘بھی قرآن مجید کا ایک نام ہے جس کے معنی ’’خوش خبری‘‘ کے ہیں ۔ قرآن مجید کے ’’بشریٰ‘‘ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کو جنت کی بشارت دیتا ہے ، اُن کے اچھے اعمال کے بہتر بدلے اور ثواب کی خوشخبری سناتا ہے:
’’ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے ۔‘‘ (النحل:۸۹)
بشیر: ’’بشیر‘‘ بھی قرآن مجید کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کا معنی ہے خوشخبری دینے والا، بشارت دینے والا۔ یہ لفظ حضورؐ کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’بشیر‘ ہے کہ وہ انسان کو اُخروی زندگی کی نعمتوں ، آسائشوں اور جنت کی بشارت دیتا ہے،بشرطیکہ وہ اس قرآن مجید کی پیروی کرے اور وہ نیک لوگوں کو جنت کے اچھے انجام کی خوشخبری دیتا ہے :
’’ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن، اُن لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا ہے۔ ‘‘ (الفصلت:۳۔۴)
بصائر: قرآن مجید کی ایک صفت ’’بصائر‘‘ ہے جو بصیرت کی جمع ہے جس کا معنی ہے سمجھ بوجھ، علم کی روشنی، کھلی حقیقت۔ قرآن مجید اس مفہوم میں ’’بصائر‘‘ ہے کہ وہ ایسی کھلی حقیقتوں کا بیان ہے جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ وہ علم کی ایسی روشنی ہے کہ جس میں کسی دھوکے ، فریب نظر، جہالت یا گمراہی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ دل کی آنکھوں کے پردے ہٹادینے والی کتاب ہے:
’’یہ (قرآن) لوگوں کے لئے بصیرتوں کا مجموعہ اور ہدایت کا ذریعہ ہے اور یقین لانے والوں کے لئے بڑی رحمت ہے۔‘‘(الجاثیہ:۲۰)
بلاغ: قرآن مجید کا ایک نام ’’بلاغ‘‘ بھی ہے جس کا معنی ہے ’’پیغام‘‘ یا ’’وہ ذریعہ جو منزلِ مقصود تک پہنچادے۔‘‘ قرآن مجید کو بلاغ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُس کے بندوں کے نام پیغام ہے، یہ ایسا کلام اور پیغام ہے جو قربِ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے:
’’یہ (قرآن) ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے، اور یہ بھیجا گیا ہے اس لئے کہ اُن کو اِس کے ذریعہ سے خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں ۔‘‘ (ابراہیم:۵۲)
بیان:قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’بیان‘‘ ہے جس کا معنی ہے اظہارِ حقیقت، کسی چیز کا کھل کر سامنے آنا، واضح ہوجانا اور وہ دلیل جس سے کوئی چیز ظاہر ہوجائے۔ قرآن مجید ان معنوں میں بیان ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے انسان، کائنات اور خدا کے بارے میں اصل حقیقت کا اظہار ہے، وہ راہِ ہدایت کو واضح کرتا ہے اور زندگی کی غلط راہوں کی نشاندہی کرتا ہے:
’’یہ (قرآن) لوگوں کیلئے بیان صریح اور اہلِ تقویٰ کیلئے ہدایت اور نصیحت ہے۔‘‘ (سورۃ آل عمران:۱۳۸)
بیِّنَہ: قرآن مجید کی ایک صفت ’’بَیِّنَہ‘‘ ہے جس کا معنی ایسی واضح حقیقت اور روشن دلیل ہے جو عقلی اعتبار سے اور محسوس طور پر واضح ہو۔ قرآن مجید کے ’’بیّنہ‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی کھلی حقیقت اور روشن دلیل ہے جو عمل پر اُکساتی ہے اورجسے بصیرت محسوس کرتی ہے:
’’سو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے۔‘‘ (الانعام:۱۵۷)
تِبْیان:قرآن مجید کا ایک نام ’’تبیان‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’واضح اور مفصل طور پر بیان کرنا۔‘‘ قرآن مجید کے ’’تبیان‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے ہر اس چیز کو واضح اور مفصل طور پر بیان کردیا ہے جس کا تعلق عقیدے اور عمل سے ہے۔ گویا قرآن مجید وہ کتاب ہے جس میں دین اسلام کی پوری وضاحت موجود ہے اور شہادت ِحق ادا کردی گئی ہے:
’’اور ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں ) ہر چیز کا بیان (مفصل) ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے۔‘‘ (النحل:۸۹)
تذکرہ: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’تذکرہ‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’یاددلانا‘‘، ’’یاددہانی کرانا۔‘‘ قرآن مجید ان معنوں میں تذکرہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری اصل فطرت ِ اسلام یعنی توحید کے سبق کی یاددہانی کراتا ہے، ہمارے ضمیر کو خواب ِ غفلت سے جگاتا اور جھنجھوڑتا ہے، ہمیں تاریخی واقعات اور پہلی قوموں کے حالات کی یاددہانی کراتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ اور بے لاگ انصاف کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے:
’’اور یہ (قرآن) بے شک پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے ۔‘‘ (الحاقہ:۴۸)
تنزیل: قرآن مجید کا ایک نام ’’تنزیل‘‘ بھی ہے جس کا معنی ہے ’’نازل کرنا‘‘، ’’نازل شدہ‘‘ ، ’’(آسمان سے) اُتارا ہوا۔‘‘ قرآن مجید کو اس لئے تنزیل کہا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے ، کسی انسان یا مخلوق کا قول نہیں ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام سے نازل فرمایا ہے: ’’اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے ۔‘‘ (الشعراء:۱۹۲)
حق: قرآن مجید کی ایک صفت ’’حق‘‘ بھی ہے۔ حق کا معنی ہے ایسی بات جو ثابت ہو، اٹل ہو، اَنمٹ ہو اور قائم و باقی رہنے والی ہو۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’حق‘‘ ہے کہ اس کی ہر بات اٹل ہے، ثابت ہے اور حقائق و واقعات کے مطابق ہے۔ اس کی ہر دلیل سچی اور ہر دعویٰ مبنی برحقیقت ہے۔ زمان و مکان کے تغیر سے اس کی بات میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوسکتا۔ یہ اپنے مقابلے میں آنے والی ہر چیز کے سامنے قائم و ثابت ہے اور کوئی چیز اس کے مقابلے میں آکر ٹھہر نہیں سکتی۔ اس میں ثابت اور قیام ہے، فرار اور زوال نہیں :
’’بات یہ ہے کہ میں نے ان کفار کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامان دیا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف بیان کرنے والا پیغمبر آ پہنچے۔ اور جب ان کے پاس حق (یعنی قرآن) آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے ۔‘‘ (الزخرف: ۲۹۔۳۰)
حکم: قرآن مجید کا ایک نام ’’حکم‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں فیصلہ، ماخذ ِ قانون اور ضابطہ ٔ حیات۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’حکم‘‘ ہے کہ یہ انسانی زندگی کے لئے مکمل ضابطہ ہے۔ ہر قسم کے اُمور اور معاملات کے لئے ماخذِ قانون اور بہترین ہے اور اس میں حیات ِ انسانی کے لئے اوامر و نواہی کے ضابطے موجود ہیں ۔ ’’حکم‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیا:
’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو حکم بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے۔‘‘ (الرعد:۳۷)
کتاب: قرآن مجید کی ایک صفت ’’الکتاب‘‘ ہے جس کے معنی ہیں تحریر، ضابطہ، حکم، قانون، مجموعہ۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’الکتاب‘‘ ہے کہ وہ رب العالمین کا ضابطہ و قانون اور حکم نامہ ہے اور سورتوں کا مجموعہ ہے:
’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ سب بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں ۔‘‘ (الانعام:۹۲)
کریم: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’الکریم‘‘ ہے جس کے معنی ہیں شرف والا، باوقار اور معزز۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’الکریم‘ ہے کہ یہ کسی حقیر مخلوق کی بات نہیں ہے، کسی جن یا کاہن کا قول نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کا برگزیدہ کلام ہے:
’’بیشک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے ۔‘‘
(الواقعہ:۷۷)
کلام اللہ: قرآن مجید کی ایک صفت ’’کلام اللہ‘‘ ہے جس کے معنی ہیں اللہ کی بات یا اللہ کا قول۔ یہ ان معنوں میں کلام اللہ ہے کہ یہ کسی مخلوق کی کہی ہوئی بات یا بندے کا قول نہیں ہے:
’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں ۔‘‘
(التوبہ:۶)
مبارک: قرآن مجید کی ایک صفت ’’مبارک‘‘ ہے جس کے معنی ہیں بابرکت، فیض بخش ، اضافے والی۔ قرآن مجید اس اعتبار سے ’’مبارک‘‘ ہے کہ اس سے انسان پر راہ ہدایت بآسانی کھلتی ہے ، اس کے ایمان و عمل میں برکت ہوتی ہے، اس کے پڑھنے ، سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے میں ثواب و اجر ہے جسے اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ یہ فیض پہنچانے والی اور برکت دینے والی کتاب ہے:
’’یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں ۔‘‘ (الانعام:۹۲)
مبین: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’مبین‘‘ ہے جس کے معنی ہیں واضح، کھلا، ظاہر۔ قرآن مجید اس لحاظ سے مبین ہے کہ وہ اپنی تعلیمات کو بالکل واضح طور پر پیش کرتا ہے:
’’یہ تو ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے۔‘‘
(یٰسین:۶۹)
متشابہ: قرآن مجید کی ایک صفت ’’متشابہ‘‘ آئی ہے جس کے معنی ہیں باہم ملتا جلتا، تضاد سے پاک، ہم رنگ، ہم آہنگ۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’متشابہ‘‘ ہے کہ اس کی تعلیمات ملتے جلتے انداز میں جلوہ گر ہوئی ہیں ۔ ایک ہی واقعہ مختلف اسلوب بیان سے ہمارے سامنے آتا ہے اور اس کے مضامین میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے:
’’اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں ) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں ) بار بار دہرائی گئی ہیں ، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
(الزمر:۲۳)
مثانی: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’مثانی‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں جوڑا، دہرائی جانے والی چیزیں ۔ قرآن مجید اس پہلو سے ’’مثانی‘‘ ہے کہ اس میں متوازی اور متضاد چیزوں کو بیان کرنے کا اسلوب پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ اہل ایمان کا ذکر ہے تو ساتھ ہی اہل کفر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس طرح جنت کے تذکرے کے ساتھ دوزخ کا تذکرہ بھی ہوتا ہے ۔ نیز قرآن ایک ہی قسم کے واقعات و قصص کو کئی مختلف اسالیب ِ بیان سے دہراتا ہے۔ کہیں مجمل اور کہیں مفصل انداز سے پیش کرتا ہے:
’’اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں ) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں ) بار بار دہرائی گئی ہیں ۔‘‘ (الزمر:۲۳)
مجید: قرآن حکیم کا ایک صفاتی نام ’’مجید‘‘ ہے جس کے معنی بزرگی والا اور برتر کے ہیں ۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید اس اعتبار سے ’’مجید‘‘ ہے کہ یہ بزرگ وبرتر کلام ہے۔ یہ ایسا کلام ہے جس کی بہت سی خوبیاں اور کمالات ہیں :
’’یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے، جو لوح محفوظ میں میں (لکھا ہوا) ہے۔‘‘ (البروج:۲۱۔۲۲)
مصدق: قرآن مجید کا ایک وصف ’’مصدق‘‘ ہوتا ہے جس کے معنی ہیں مصداق، تصدیق و تائید کرنے والا ۔ قرآن مجید ان معنوں میں مصدق ہے کہ وہ انبیاء و سابقین اور پہلی کتابوں کی پیش گوئیوں کا مصداق ہے اور وہ سابقہ کتب سماویہ کے بارے میں یہ تصدیق کرتا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض انبیائے کرام پر نازل ہوئی تھیں :
’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ سب بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں ۔‘‘ (الانعام:۹۲)
موعظت: قرآن مجید کی ایک صفت ’’موعظت‘‘ بھی آئی ہے جس کے معنی ہیں نصیحت ، خیرخواہی اور کسی شخص کو کسی اچھے اور برے نتیجے سے آگاہ کرکے اس کے دل کو نرم کرنا۔ قرآن مجید کو ’’موعظہ‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔ اس میں ان کی خیرخواہی اور بھلائی کے جذبے سے اُن کو سمجھایا گیا ہے اور ان کو ان کے اچھے اور برے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے:
’’یہ قرآن لوگوں کیلئے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۳۸)
مُہیمن: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’مُہَیمن‘‘ ہے جس کے معنی ہیں نگہبان، محافظ۔ یہ لفظ امن سے بنا ہے اور اس میں ہمزہ (ء) ھ سے بدل گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’مہیمن‘‘ ہے کہ یہ تمام کتب ِ سابقہ کی اصل اور بنیادی تعلیمات کا محافظ اور ان کی صداقتوں کا امین ہے:
’’اور ہم نے آپؐ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے۔‘‘ (المائدہ:۴۸)
نذیر: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’نذیر‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں خبردار کرنے والا، خطرے سے ڈرانے والا۔ یہ لفظ نبی کریم ﷺ کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے۔ قرآن مجید اس اعتبار سے ’’نذیر‘‘ ہے کہ وہ انسان کو اس کی بداعمالی کے برے انجام سے خبردار کرتا ہے اور اُسے اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں ہونے والے عذاب سے ڈراتا ہے:
’’(اِس) کتاب کا جس کی آیات واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں علم و دانش رکھنے والی قوم کے لئے عربی (زبان میں ) قرآن (ہے)، خوشخبری سنانے والا ہے اور ڈر سنانے والا ہے۔‘‘ (حمٓ سجدہ: ۳۔۴)
نور: قرآن مجید کا ایک نام ’’نور‘‘ بھی ہے جس کے معنی روشنی اور اجالے کے ہیں ۔ قرآن مجید ان معنوں میں ’’نور‘‘ ہے کہ وہ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں کو دور کرتا ہے اور علم و ہدایت کی روشنی بکھیرتا ہے:
’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں ) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہے۔‘‘ (النساء:۱۷۴)
وحی: قرآن مجید کی ایک صفت ’’وحی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں اشارۂ سریع، القاء اور الہام۔ قرآن مجید ان معنوں میں وحی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ بات اور اس کا پیغام ہے، کسی مخلوق کا قول نہیں ۔ وہ خالق کائنات کا کلام ہے جو اس کے آخری رسولؐ پر نازل کیا گیا ہے:
’’اُن ؐ کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘ (النجم:۴)
ھدیٰ: قرآن مجید کا ایک صفاتی نام ’’ھدیٰ‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہدایت اور رہنما کے ہیں ۔ قرآن مجید اس اعتبار سے ہدیٰ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوعِ انسانی کے لئے سراپا ہدایت ہے۔وہ انسان کو صحیح راہ پر چلاتا اور غلط راہوں سے بچاتا ہے ۔ وہ گمراہی سے نکال کر صراط ِ مستقیم کی طرف بلاتا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کی جانب دعوت دیتا ہے اور اللہ کی نافرمانی والے کاموں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے:
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں ) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں ) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ۔‘‘ (البقرہ:۱۸۵)
اسی طرح قرآن مجید نے اپنے بہت سے اسماء و القاب اور صفاتی ناموں کے ذریعے اپنا تعارف خود ہی کرادیا ہے۔ اس کے بعد اُس کی حقیقی عظمت و جامعیت کا صحیح تصور ہمارے سامنے آجاتا ہے۔