جس طرح کائنات کے نظام میں سورج گرہن یا زلزلے قدرتی الارم ہوتے ہیں، اسی طرح یہ مہینے روحانی الارم ہیں۔ ان مہینوں میں عبادت کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ بندہ رغبت سے نیکی کی طرف لپکے؛ اور گناہوں کی سزا کی شدت بڑھا دی جاتی ہے تاکہ وہ خوف سے باز آجائے۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے، ضرورت یہ ہے کہ انسان ہر لمحے کی حقیقت کو سمجھے۔ تصویر: آئی این این
زمانے کی گردش اور لمحوں کی روانی محض کیلنڈری تبدیلی نہیں، بلکہ یہ تقدیر ِ الٰہی کی ایک رمز آشنا عبارت ہے، جو ازل سے ابد تک اپنے اندر حکمتوں کا خزینہ سموئے ہوئے ہے۔ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہِ محرم الحرام، ایسے ہی ماہ و سال کی اس مسلسل کہانی کا وہ ابتدائی باب ہے، جسے خود خالقِ کائنات نے ’’حرمت والا مہینہ‘‘ قرار دے کر مقدس اور متبرک بنا دیا۔ اس کی تقدیس کسی انسانی واقعے کی مرہون منت نہیں، بلکہ یہ وہ نورانی فیضان ہے جو تخلیقِ زمین و آسمان کے ساتھ ہی تقدیر کے لوحِ محفوظ پر ثبت کر دیا گیا تھا، جیسا کہ سورۂ توبہ (آیت:۳۶) میں وضاحت سے بیان ہوا ہے۔
یہ تصور کہ حرمت والے مہینوں کی بزرگی کسی حادثۂ تاریخ کی وجہ سے ہے، نہ صرف ناسمجھی ہے بلکہ تقدیس کے تصور کے ساتھ ایک فکری خیانت بھی ہے۔ یہ مہینے کسی سانحے کے بعد متبرک نہیں بنے بلکہ ان میں عظیم واقعات کا ظہور خود الٰہی منصوبے کا حصہ تھا۔ ان مہینوں کی حرمت ازل سے طے تھی اور ان میں جو حادثات رونما ہوئے وہ اسی حرمت کی چھاؤں میں مقدر کئے گئے۔
عرب کی جاہلی دنیا، وہ عہد جس میں تلواریں زبانِ تفاخر تھیں اور خونریزی ایک ثقافتی تسلسل۔ وہاں جنگ صرف ایک دفاعی تدبیر نہیں تھی، بلکہ قبائلی شرف، انانیت کی تسکین، اور سماجی فوقیت کا پیمانہ بن چکی تھی۔ سال کے بارہ مہینے ایسے تھے، جنہیں انسانی غرور نے مسلسل آتشِ قہر میں جھونک رکھا تھا۔ غربت، افلاس اور مال کی حریصانہ ہوس نے اس آگ کو اور بھڑکا دیا تھا۔ راستے لٹنے لگے، قافلے کٹنے لگے، اور ظلم انسانی سرشت کا ایک عمومی مظہر بن چکا تھا۔ مگر اس شورِ خون و آہن میں بھی ایک مقدس سفر باقی تھا، حج و عمرہ کا سفر، جو دور دراز کے علاقوں سے ہزاروں میل طے کر کے مکۃ المکرمہ تک پہنچتا، نہ صرف دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے، بلکہ روحانی سکون اور تجارتی امکانات سے استفادہ کی غرض سے۔ شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور پھر محرم، یہی وہ مہینے تھے جن میں عازمین حج کا قافلہ رواں دواں رہتا، اور جن میں پرامن راستے کی ضمانت عبادت کی تکمیل کے لئے ازحد ضروری تھی۔
آج کی برق رفتار سواریوں، ہوائی جہازوں اور سہولتوں سے محروم وہ زمانہ جہاں ایک ایک منزل مہینوں پر محیط ہوتی، ایسا نہ تھا کہ اگر راستہ غیر محفوظ ہو، تو زائرین ہمت کر پاتے؛ اور اگر ہمت بھی کرتے تو واپسی کی راہ دھندلی، غیر یقینی اور موت کی دہلیز پر کھڑی نظر آتی۔ ایسے میں ربِ کائنات نے انسان کے اجتماعی شعور، عبادت کی آسانی، اور راہِ امن کی بقا کےلئے سال کے ان مخصوص مہینوں کو ’’اشہر ِ حرم‘‘ بنا کر جنگ کو ان میں حرام قرار دیا۔ یہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک الٰہی سماجی و تہذیبی حکمت کا تسلسل تھا، جس نے انسان کو یاد دلایا کہ عبادت امن میں پنپتی ہے، اور امن عدل کے بطن سے جنم لیتا ہے۔
ان مہینوں میں صرف جنگ روکی نہیں گئی، بلکہ نفسِ انسانی کو مہلت ِ فکر دی گئی کہ وہ اپنی حالت کا محاسبہ کرے۔ مسلسل جنگ و جدال نہ صرف جسموں کو چور کرتی ہے، بلکہ ذہن و دل کو بھی زنگ آلود کر دیتی ہے۔ انسان کی غور و فکر کی صلاحیتیں ختم ہونے لگتی ہیں، اور وہ ایک بے حس، جارح مخلوق بن جاتا ہے۔ رب نے اس تسلسل کو توڑا، تاکہ جنگ کے اس تسلسل میں صلح کا ایک دریچہ کھل جائے، دشمنی کی آنکھوں میں ندامت کا ایک عکس اترے، اور تلواروں کی گھن گرج میں تسلیم و تبسم کی کوئی صدا ابھرے۔ اسی لئے رجب کو درمیانی حرمت والا مہینہ بنایا گیا، تاکہ جو لوگ عمرہ کی نیت سے آئیں، وہ بھی سلامتی کے ساتھ آ سکیں۔ یہ انتظام محض فقہی تقسیم نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی، معاشرتی اور روحانی توازن کا شاہکار ہے۔
اگرچہ بعد میں ان مہینوں میں جنگ کی حرمت والی آیت کے منسوخ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات وارد ہوئے، مگر اس اختلاف کے باوجود جو حقیقت غیر متزلزل، ازلی اور مسلمہ ہے، وہ یہ ہےکہ ان مہینوں کو الٰہی حکمت نے پرامن اجتماعیت، روحانی ارتقاء اور سماجی تہذیب کا محور بنایا ہے۔
یہ مہینے اس بات کی گواہی ہیں کہ الٰہی نظام صرف عبادات کا ضابطہ نہیں، بلکہ ایک جامع انسانی نظام ہے، جو فرد کی نیت سے لے کر سماج کی ساخت تک، سب کچھ سنوارنے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ یہ وہ مہینے ہیں جن میں تقدیر کے فیصلے بھی عدالت ِ ربانی کے آداب میں لپٹے ہوتے ہیں۔ یہاں صرف ظاہری جنگ ممنوع نہیں، بلکہ دل کی جنگ، نفس کی سرکشی، حسد، لالچ، کینہ جیسے باطنی معرکوں سے بھی دستبرداری کی دعوت دی جاتی ہے۔
اگرچہ حرمت والے مہینے، بالخصوص محرم الحرام کی تقدیس نصِ قرآنی اور سنتِ نبوی سے ازل سے طے شدہ ہے، لیکن ان مہینوں کی حکمت و معنویت پر غور کیا جائے تو ایک گہرا تربیتی پہلو سامنے آتا ہے: ان مہینوں کو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کی غفلت و غرقابی کے مقابل ایک ربانی الارم کے طور پر رکھا ہے۔
انسان، وقت کے بہاؤ میں، روزمرہ کے معمولات، خواہشات اور گناہوں کی دلدل میں گرتا چلا جاتا ہے۔ سال بھر وہ تجارت، تفریح، سیاست اور خواہشات کی بھول بھلیوں میں گم رہتا ہے۔ ایسے میں یہ حرمت والے مہینے، اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے آتے ہیں۔ جیسے کائنات کے نظام میں سورج گرہن یا زلزلے قدرتی الارم ہوتے ہیں، ویسے ہی یہ مہینے روحانی الارم ہیں۔ ان مہینوں میں عبادت کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ بندہ رغبت سے نیکی کی طرف لپکے؛ اور گناہوں کی سزا کی شدت میں اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ خوف سے باز آ جائے؛ گویا یہ مہینے سال کے پورے نظامِ اوقات پر الٰہی مداخلت کی علامت ہیں، تاکہ انسان غفلت سے ہوشیار ہو جائے۔ یہ مہینے، سال بھر پھیلی ہوئی باطنی نیند کو توڑنے والے مہینے ہیں۔ جیسے دن میں نمازوں کے اوقات دل و دماغ کو منتشر ہونے سے بچاتے ہیں، ویسے ہی سال میں یہ حرمت والے مہینے انسان کے نفس اور ارادے کو قابو میں لانے کے وقفے ہیں۔ یہ نہ صرف احکام ِ شریعت کی علامت ہیں بلکہ سائیکلوجیکل ری سیٹ بٹن بھی ہیں۔
الغرض، حرمت والے مہینے محض تقویمی تقسیم نہیں بلکہ ایک دعوتِ توبہ، ایک فکری بیداری، اور رجوع الی اللہ کی موسمی پکار ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سال بھر معصیت میں مصروف انسان کو ایک رحمت بھری تنبیہ ہے، تاکہ وہ تھمے، سوچے، اور واپس ہوجائے اُن احکام کی طرف جن کی تعمیل میں بندہ ہی کا فائدہ ہے۔