کیا نماز میں آپ پر کبھی یہ کیفیت طاری ہوئی ہے کہ ’’اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے؟‘‘ یعنی حضوری کا احساس کہ آپ سچ مچ اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑے ہو کر اپنی احتیاج و التجا اور عجز و نیاز کو پیش کررہے ہیں؟
اپنی نماز کا احتساب لیجئے، کیا ویسی ہے جو اللہ کو مطلوب ہے؟ تصویر: آئی این این
یہ خطاب خاص طور سے اُن لوگوں سے ہے جو آخرت فراموش تہذیب، خود نما تمدن اور مادہ پرست دور میں ’’دین دار‘‘ کہلاتے ہیں اور یہ خطاب بجا طور پر اُنہیں زیب بھی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل ہے کہ یہ لوگ دین کو صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ پسند بھی کرتے ہیں۔ اُن کی دَبی تمنا بھی یہی ہے کہ اللہ کے دین کو غلبہ اور سربلندی حاصل ہو۔ عالم انسانیت اور اسلام کو،اسی طبقے سے خیر و فلاح کی اُمیدیں وابستہ ہیں، انجیل کی اصطلاح میں یہ لوگ زمین کا نمک ہیں اور شعر و ادب کی اصطلاح میں: ’’یہ لوگ چمن ہیں، چمن کی بہار بھی‘‘۔ یہ دین دار اور مذہبی لوگ کسی خاص جماعت، طبقہ اور ملک میں محدود نہیں ہیں۔ یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور شاید انہی کا وجود اور نیکیاں اس خدا فراموش دور میں اللہ تعالیٰ کے غضب کو تھامے ہوئے ہیں ورنہ یہ دُنیا بغاوت، عصیاں اور سرکشی کے اس حد تک قریب قریب پہنچ چکی ہے کہ آسمان سے پتھروں کی بارش ہو اور انسانوں کی بستیوں کی بستیاں عاد و ثمود جیسی نافرمان قوموں کی طرح ایک افسانۂ عبرت بن کر رہ جائیں۔
اس اعتراف ِ خوبی و کمال اور مدح و مناقب کے بعد ان دین پسند حضرات سے ہم آج کی فرصت میں کچھ گزارشیں بھی کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد نہ کسی بھی طنز و تعریض ہے اور نہ اپنی پاک بازی اور اسلام پسندی کا اظہار و اعلان ہے۔ دوسروں کو ٹوکنے سے پہلے ہم خود اپنی کمزوریوں اور نفس کی دست درازیوں کا اقرار کرتے ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ ہم دوسروں کو دعوت احتساب دیتے ہوئے خود شرم و ندامت محسوس کرتے ہیں کہ حقیقت میں ہم اس منصب کے اہل نہیں ہیں مگر اس کو کیا کیجئے کہ پورا معاشرہ وَبائے عام میں مبتلا ہے ۔ حالات اس نوبت تک پہنچ چکے ہیں کہ خود مریض دوسرے مریض کو دوا اور پرہیز کی ہدایت کررہا ہے اور اُسے ایسا ہی کرنا چاہئے۔ پس قریب قریب ایسی ہی پوزیشن راقم الحروف کی ہے ۔ اس مضمون میں مضمون نگار نے نہ جانے کتنا احتساب خود اپنے پر کیا ہے۔ہم اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ’’تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہ شد‘‘ کہہ کر زخم کی دوا دارو اور مرہم پٹی ہی سے بے نیاز اور غافل ہوجاتے ہیں۔ ہم تو عزم رکھتے ہیں کہ جسم کے جتنے بھی داغوں کی دیکھ بھال ہوسکے اس سے غفلت نہ برتنی چاہئے۔ اکتاہٹ، بے نیازی، مایوسی، اور بے دلی مرد مومن کو زیب نہیں دیتی۔
خیر، آپ پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، کبھی کبھی غفلت کے سبب نماز قضا ہوجاتی ہے تو آپ کو خاصا ملال ہوتا ہے مگر یہ سوچئے کہ کیا آپ پر کبھی یہ کیفیت طاری ہوئی ہے کہ ’’اللہ آپ کو دیکھ رہے ہیں‘‘یا ’’اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے؟‘‘ یعنی حضوری کا احساس کہ آپ سچ مچ اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑے ہو کر اپنی احتیاج و التجا اور عجز و نیاز کو پیش کررہے ہیں؟ پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ آپ کے دوستوں اور عزیزوںمیں اور خود آپ کے گھر میں کتنے لوگ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور جو نہیں پڑھتے ان میں سے کتنوں کو نمازی بنانے کیلئے آپ نے جدوجہد کی؟ کیا اپنے بے نمازی دوستوں کی خفگی کے ڈر سے آپ نے انہیں یہ تک محسوس ہونے دیا کہ ان کا نماز نہ پڑھنا آپ کو پسند نہیں؟ آپ کا لڑکا یا بھائی کسی دن اتفاق سے اسکول نہ جاسکے تو آپ کو جتنا رنج اس کے اسکول نہ جانے کا ہوتا ہے کیا اتنا غم اس کے نماز قضا کردینے کا بھی ہوتا ہے؟
آپ نماز میں تعدیل ارکان کا کتنا خیال رکھتے ہیں؟ کسی دعوت یا جلسے کا اہتمام کرنا یا کسی سے ملنے کیلئے جانا یا کوئی اور ضروری کام درپیش ہو تو اس وقت نماز پڑھنے میں آپ کی توجہ کا کیا عالم ہوتا ہے؟ آپ ڈاک کے لفافے پر پتہ لکھتے ہیں تو اس میں کس قدر صحت ِکتابت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور پتہ لکھنے میں کتنا انہماک ہوتا ہے اور کس قدر احتیاط سے کام لیتے ہیں مگر کیا نماز ادا کرنے میں لفافہ کا پتہ لکھنے کے برابر بھی آپ یکسوئی اور توجہ کو صرف فرماتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، آپ روزہ بھی رکھتے ہیں اور طبیعت کے اضمحلال کے باوجود شب میں تراویح بھی پڑھتے ہیں مگر آمد صیام کے ساتھ جس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں وہ ماکولات اور مشروبات ہیں۔ کھانے پینے کے ذوق کی سیرابی کا اہتمام ایک طرف اور تقویٰ، پاکیزگی اور ذکر الٰہی کی تیاری دوسری طرف۔ ان دونوں میں آپ خود ہی موازنہ فرما سکتے ہیں کہ ان میں سے کس کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ روزہ دار کو روزہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ جو لوگ افلاس و ناداری کے سبب بھوکے رہتے ہیں ان بے چاروں پر کیا گزرتی ہوگی۔ اس احساس کے بعد آپ کے اندر قدرتی طور پر ماہ رمضان میں انفاق کا جذبہ دوسرے مہینوں کے مقابلے میں تیز تر ہوجانا چاہئے مگر ماہ صیام میں خود آپ کے کھانے پینے کے مصارف میں اتنی زیادتی ہوجاتی ہے کہ آپ کو بھوکوں اور فاقہ زدوں کی امداد کا خیال آتا بھی ہے تو اپنے بڑھے ہوئے بجٹ کو دیکھ کر یہ خیال عمل کے قالب میں ڈھلنے نہیں پاتا۔ جس مہینے میں آپ کو سراپا ایثار بن جانا چاہئے تھا اس میں آپ سب مہینوں سے زیادہ آرام طلب، خوگر ِ راحت اور کام و دہن کی لذت کے شوقین بن جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے کہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت دیا ہو اس کا اظہار اس شخص کی ظاہری حالت سے بھی ہونا چاہئے مگر حضـورؐ نے خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھانا بھی تو کھلایا ہے ! فقر کا یہ عالم تھا کہ کئی کئی دن تک حریم نبوت اور کاشانۂ رسالت میں چولہا گرم نہیں ہو پاتا تھا مگر حضورؐ کسی سائل کو ناکام نہ پھیرتے تھے یہاں تک کہ بعض اہل سوال سے یہ فرما دیا کہ تم میرے نام سے کسی سے قرض لے لینا مَیں اُسے ادا کر دوں گا۔ سرکارؐ (روحی فداک) کی معاشرت اس قدر سادا تھی کہ وہ سادگی رہتی دُنیا تک کیلئے ایک مثال بن کر رہ گئی ہے۔
حضورؐ کی مقدس زندگی کا ایک ایک ورق آپ کے سامنے ہے۔ سرکارؐ کی سیرت چاند اور سورج سے زیادہ روشن ہے، ممکن ہے کہ آسمانوں پر بھی کہیں کہیں تاریکی ہو مگر بزم ِ رسالت میں ہر جگہ نور و تجلی ہی ملے گی۔ آپ، حضورؐ کی اتباع کو ایمان کا سب سے بڑا تقاضا سمجھتے ہیں اورنام نامی سن کر آپ کے ہونٹوں پر صلوٰۃ و سلام کے نغمے اُبھر آتے ہیں اور فرط عقیدت سے آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا ہے ۔ آپ اپنے پر خود احتساب کریں کہ حضورؐ کے اتباع میں کسی بھوکے اور نادار کی خاطر خود بھوکا رہنا تو کجا کیا آپ نے کسی مفلس اور ضرورت مند کیلئے اپنے پان سگریٹ کے مصارف میں بھی کمی کی ہے اور کیا کوئی ایسا مہینہ بھی آپ پر گزرا ہے کہ اپنی آمدنی کا آپ نےبیسواں حصہ بھی اہل حاجت پر صرف کیا ہو؟
آپ کومال و دولت سے، شہرت اور ناموری سے اور عیش و راحت کے اسباب سے جو انتہا درجے کی دلچسپی ہے اور جس کیلئے آپ زمین و آسمان ایک کئے دیتے ہیں کیا سفر آخرت کے لئے زاد ِ راہ مہیا کرنے والوں کے شوق و دلچسپی کا یہی معیار اور مطلوب ہونا چاہئے؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ تمنائیں، خواہشیں اور ان کے حصول کی کوششیں حرام ہیں مگر کیا ’’حرام‘‘ سے اونچا کوئی درجہ نہیں ہے؟ کیا آپ اپنی زندگی میں صرف زہر سے پرہیز کرتے ہیں اور زہر کے علاوہ ہر چیز نوش جان کرلیتے ہیں؟ نہیں، آپ ایسا نہیں کرتے۔ آپ کھانے کی اُن چیزوں سے بھی بچتے ہیں جن پر زہر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ مگران کا استعمال آپ صحت کیلئے مضر سمجھتے ہیں۔
آپ کی بیمار پرسی، تعزیت اور جنازوں میں شرکت کا دار و مدار تعلقات، روابط اور قرابت داری پر ہے۔ جن مسلمانوں سے آپ کی شناسائی نہیں ہے ان کے جنازوں کو دیکھ کر آپ گزر جاتے ہیں۔ آپ سلام بھی عام طور پر جاننے والوں ہی کو کرتے ہیں اور اس ’’مفت‘‘ کے ثواب کو محض اپنی مزعومہ خود داری کے پندار میں ضائع کردیتے ہیں جیسے کہ ’’افشو االسلام‘‘ (سلام کو عام کرو) کا حکم حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ جیسے اہل ایمان کو دیا گیا تھا، آپ تک پہنچتے پہنچتے اس حکم کی نوعیت بدل گئی ہے۔ (جاری)