ہمارے معاشرے میں ٹریفک کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ، لیکن قرآن و حدیث پر غور کیا جائے تو مختلف انداز میں یہ تاکید فرمائی گئی ہے کہ راستے کے حقوق ادا کئے جائیں اور متعلقہ قوانین پر بھی عمل کیا جائے۔
             
            
                                    
                 
                                
                
                جلدبازی کرتے ہوئے یا اپنی گاڑی کو دوسروں سے آگے لے جانے کے چکر میں ٹریفک جام بھی ہوتا ہے اور راہ گیروں کو بھی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ تصویر: آئی این این                
             
             حکومت کی طرف سے وقتا فوقتا لوگوں میں ٹریفک کا شعور پیدا کرنے کی غرض سے مختلف اقدامات کئے جاتے ہیں۔ واقعہ ہے کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی، بے اصولی اور نامناسب حد تک جلد بازی کی وجہ سے حادثات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جاتا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں اخبار سڑک حادثہ کی اطلاع سے خالی ہو اور کچھ ہلاکتیں اس کی وجہ سے پیش نہ آئی ہوں۔ اسلام نے اس سلسلہ میں بھی ہماری رہنمائی کی ہے اور قرآن و حدیث میں ہمیں اس سلسلہ میں اصولی ہدایات ملتی ہیں۔ 
بنیادی بات یہ ہے کہ کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے شریعت نے منع فرمایا ہے، ان باتوں پر بعینہ عمل کرنا ضروری ہے، ان میں کسی کمی یا اضافہ کی گنجائش نہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں کہ نہ ان کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ان سے منع کیا گیا ہے، ان سے ایسی مصلحت متعلق ہے کہ نہ صراحتاً شریعت میں اس کے معتبر ہونے کا ذکر ہے اور نہ نا معتبر ہونے کا، ان چیزوں کے بارے میں حکومت کو حق ہے کہ عام لوگوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتظامی قانون بنائے اور حسب ضرورت لوگوں پر کسی پہلو کو لازم قرار دے دے۔ اسلام کے اصول قانون کی اصطلاح میں ان کو ’’مصالح مرسلہ‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے: انسان دائیں بھی چل سکتا ہے اور بائیں بھی، شریعت میں کوئی ہدایت نہیں ہے کہ چلنے میں کون سی سمت اختیار کی جائے اور کون سی سمت اختیار نہ کی جائے۔ حکومت حفاظتی نقطہ نظر سے عوام کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ متعینہ سمت سے ہی سفر کرے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ 
اس لئے ٹریفک کے جو اصول و قواعد مقرر کئے گئے ہیں، کہیں تیز چلنے کے اور کہیں آہستہ چلنے کے، رکنے کے اور نہ رکنے کے، گاڑی کسی مقام پر ٹھہرانے کے اور کسی مقام پر نہ ٹھہرانے کے، یہ انتظامی نوعیت کے قوانین ہیں، جن کا مقصد ہماری جان اور ہماری سواری کا تحفظ ہے۔ جان و مال کا تحفظ ایک شرعی فریضہ ہے اور حکومت کے ایسے قوانین کی اطاعت کا ہم نے عہد کیا ہے جو احکامِ شریعت سے متصادم نہیں ہیں، اس لئے ان اصول و ضوابط کی رعایت ہم پر واجب ہے اور ان کی رعایت نہ کرنا نہ صرف ملکی قانون کی مخالفت ہے بلکہ عہد کی خلاف ورزی اور اپنی جان و مال کی حفاظت میں بے احتیاطی کی وجہ سے شرعاًبھی ایک قبیح فعل ہے اور گناہ کا باعث ہے، اس لئے مذہبی نقطہ نظر سے بھی ان مفید قوانین کی رعایت کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے۔ 
قرآن نے انسان کی چال کے بارے میں ہدایت دی ہے کہ اس سے تکبراور اکڑفوں کا اظہار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۳۷)
  ایک اور موقع پر اللہ کے نیک بندوں کی چال ڈھال اور گفتار و رفتار کا ذکر کرتےہوئے فرمایا گیا:
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔ ‘‘ (الفرقان: ۶۳)
زمین پر اکڑ کر چلنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب تو ظاہر ہے کہ سینے تنے ہوئے ہوں اور گردنیں تکبر سے اکڑی ہوئی ہوں، لیکن اکڑ کر چلنے کی صرف یہی ایک کیفیت نہیں، بلکہ ہر وہ چال جس میں اپنی بڑائی کا اظہار ہو اور دوسروں کی تحقیر محسوس ہو، اس ہدایت ربانی کا مصداق ہے۔ آپ گاڑی پر سوار ہیں اور آپ کو یہ گوارا نہیں کہ کسی کی گاڑی آپ سے آگے رہے، آپ بلا وجہ اس کو پیچھے کر کے خود آگے بڑھنے کے درپے ہیں، اس کے لئے نا مناسب طریقے اختیار کرتے ہیں ، ہارن بجا بجا کر اسے پریشان کرتے ہیں، تو یہ بھی اکڑ کر چلنے ہی کے حکم میں ہے۔ تواضع کی چال یہ ہے کہ آپ اپنی رفتار معتدل رکھیں، جو آپ سے آگے چل رہا ہے، اسے آگے رہنے دیں، اگر کسی کی سواری آپ سے پیچھے ہے لیکن اس کی رفتار بہ مقابلہ آپ کی سواری کے تیز ہے اور راستہ میں اس کی گنجائش ہے کہ آپ اسے آگے بڑھنے کا موقع دے دیں، تو آپ اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اپنے دوسرے بھائی کو آگے بڑھنے دیں۔ یہ تواضع کی چال ہے۔ 
صحابہ ؓ جب آپؐ کے ساتھ سفر میں ہوتے اور آگے کی سمت سے دشمن کا اندیشہ نہ ہوتا تو اہتمام کرتے کہ اپنی سواری کو حضورؐ کی سواری سے پیچھے رکھیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا کہ آپؐ کے احترام کو ملحوظ رکھا جائے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی اونٹنی آگے بڑھ گئی، یہ اونٹنی بڑی سرکش تھی اور قابو میں نہ آتی تھی، صحابہؓ کو یہ بات گراں گزری اور حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمرؓکو اس پر ڈانٹ ڈپٹ بھی فرمائی لیکن سرور کائناتؐ نے اس کا برا نہ مانا اور حضرت عمرؓکو اس سے منع فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اس پر اصرار نہ کرنا چاہئے کہ اس کی سواری آگے رہے اور دوسرے چلنے والے اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ 
قرآن مجید نے اچھے انسان کی صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ اگر ناسمجھ لوگ اس سے الجھنے کی کوشش کریں تو وہ سلامتی کی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ یہ نہایت اہم بات ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔ راستہ میں بار بار اس کی نوبت آتی ہے کہ ٹریفک کے اصول سے نا واقف، جلد باز، جاہل اور اُجڈ قسم کے لوگ منہ آنے لگتے ہیں، کوئی اپنی سواری غلط طریقہ پر بیچ میں لے آتا ہے، کوئی مخالف سمت میں گھس آتا ہے، کوئی بے موقع ہارن بجا کر دق کرتا ہے اور کوئی ایسی جگہ گاڑی روک دیتا ہے جہاں گاڑی روکنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ گاڑی روکنے سے دوسروں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ خود غلطی کرتے ہیں اور اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے الٹا دوسروں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ بڑے جذباتی مواقع ہوتے ہیں، اگر دوسرا آدمی بھی یہی طرز عمل اختیار کرے تو اس سے ماحول کے اور خراب ہونے، آویزش بڑھ جانے اور ٹریفک جام ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ انہی صورتوں میں یہ آیت ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے کہ یہ وقت برداشت، تحمل اور کلمۂ خیر کہہ کر گزر جانے کا ہے۔ 
رفتار حالات کے اعتبار سے ہونی چاہئے، جہاں گاڑیوں کا ازدحام ہو وہاں آہستہ چلا جائے اورجہاں آپ کے آہستہ چلنے کی وجہ سے ان لوگوں کو دشواری ہو جو آپ کے پیچھے ہیں تو وہاں سبک خرامی کے بجائے تیز گامی اختیار کیجئے۔ 
حضرت اسامہ بن زیدؓ حجۃ الوداع کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے رسولؐ اللہ کی رفتار کی بابت فرماتے ہیں کہ جب کہیں خالی جگہ ہوتی تو تیز چلتے ورنہ رفتار اس سے کم رہتی۔ (بخاری، مسلم)۔ پیدل چلنے میں وقار اور متانت ہو۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’سکون کے ساتھ چلو، تیز چلنا کچھ نیکی کا کام نہیں۔ ‘‘  (مسند احمد عن اسامہ بن زیدؓ)۔ راستہ پر بے ضرورت ہارن بجانا بھی پسندیدہ نہیں ، اس سے آگے چلنے والے کو وحشت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ حادثہ کا باعث بھی ہو جاتا ہے، اس لئے بھی ہارن کی آواز سنجیدہ لوگوں کے لئے گراں خاطر ہوتی ہے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے راستہ چلتے ہوئے گھنٹہ بجانے سے منع فرمایا۔ عربوں کا طریقہ تھا کہ اونٹ کی گردنوں میں گھنٹیاں باندھ دیتے، جب پورا قافلہ چلتا تو راستہ گھنٹیوں کی آواز سے گونج اٹھتا۔ آپؐ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ 
اس سے بے ضرورت ہارن بجانے، جس سے صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے، کی قباحت ظاہر ہوتی ہے۔ بعض لوگ نت نئی آوازوں کے انتہائی تیز ہارن گاڑیوں میں لگاتے ہیں اور وہ خواہ شاہراہ سے گزریں یا گلیوں سے، دوسروں کی اذیت کو سمجھے بغیر مسلسل شور مچاتے رہتے ہیں۔ اس سے ہر قیمت پر اور ہر صورت میں گریز کرناچاہئے۔ 
یہ بھی ضروری ہے کہ پیدل چلنے والے گاڑی والوں کا اور گاڑی پر چلنے والے پیدل چلنے والوں کا خاص کر خواتین، بچوں اور بزرگوں کی رعایت ملحوظ رکھیں جو جلد راستہ طے نہیں کرسکتے۔ غرض، راہ چلتے ہوئے مزاج میں صبر اور تحمل ہو، رویہ میں اعتدال ہو، دوسرے راہ گیروں کے ساتھ رعایت اور ایثار کا معاملہ ہو۔ اگر دوسرے بے احتیاطی کریں اور نامناسب رویہ اختیار کریں تو ان کے بارے میں عفو و درگزر ہو اور ہر شخص اپنے اپنے طور پر ٹریفک کے اصولوں کو ملحوظ رکھے۔ یہ ہیں وہ اصول جن کی طرف قانون شریعت میں اشارہ ملتا ہے۔