سب جانتے ہیں کہ جس وقت ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی بعثت مکہ میں ہوئی، اس وقت مکہ بشمول مکمل خطۂ عرب شرک وکفر کے علاوہ بیشمار دیگر برائیوں میں بھی ملوث تھا۔
ایمان لانے کے بعد خود کو احکام خداوندی کے مطابق ڈھالنا ہی اصل آزمائش ہے۔ تصویر: آئی این این
سب جانتے ہیں کہ جس وقت ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی بعثت مکہ میں ہوئی، اس وقت مکہ بشمول مکمل خطۂ عرب شرک وکفر کے علاوہ بیشمار دیگر برائیوں میں بھی ملوث تھا۔ شراب پینا، جوا کھیلنا، معاشرے میں غریب اور کمزور طبقہ کو پیروں تلے روندنا، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا، دوسگی بہنوں کو بہ یک وقت نکاح میں جمع کرنا، والد کے انتقال کے بعد سوتیلی والدہ سے نکاح کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس ظلم وزیادتی اور گناہ کی ایک طویل فہرست ہے جو اس دور میں عرب معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہوا، اسلام کے احکامات سے یکے بعد دیگرے واقفیت عطا کی گئی، اور شریعت اسلامیہ کا وجود عمل میں آیا۔حضرت محمدؐکے بتلائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کے سامنے اب دوچیزیں تھیں: ایمان اور اسلام۔ حالانکہ عام نگاہ سے دیکھیں تو یہ دونوں اصطلاحات ایک ہی ہیں، لیکن اگر ہم حدیث جبرئیلؑ پر غو کریں تو اس میں حضرت جبرئیلؑ نے ایمان اور اسلام کے متعلق الگ الگ سوال کیا تھا۔ آپؐ نے جو جوابات دیئے ان کی بنیاد پر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایمان کا تعلق انسان کے باطن سے ہے یعنی دل سے یقین کرنے سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہری اعمال نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ سے ہے۔
اب ہر ایمان لانے والے سے تقاضہ کیاجاتا ہے کہ وہ ان دونوں پر کھرا اترے۔ اس لئے کہ دل سے ایمان لانے کے بعد، زبان سے اقرار کے بعد، اب اپنے سارے بدن کو، سارے معاملات میں اور چاہے جو حالات ہوں ان میں احکام خداوندی کے مطابق ڈھالنا ہی اصل آزمائش ہے۔ دل و زبان سے اقرار کے لئے جہاں چند لمحے درکار ہوتے ہیں، وہیں ساری عمر لگتی ہے اس کلمہ کو نبھانے کے لئے، اور شریعت کے مطابق چل کر دکھانے کے لئے۔
تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ سرکار دو عالم ؐ پر جب احکام شریعت نازل ہوئے تو حق وباطل کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی جو نہایت واضح تھی اور کہہ دیا گیا تھا کہ اب یا تو اِدھر کے رہیں یا اُدھر کے رہیں۔ اب جس نے ایمان قبول کیا وہ یہی سوچ کر کیا کہ میری زندگی اب اسلام کے تابع ہوگی۔ اور جس کو یہ بات پسند نہ ہوئی وہ ایمان لانے سے رکا رہا اور جاہلیت کی حالت میں فوت ہوا۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں اس بات کا تصور بھی نہ تھا کہ اسلام لانے کے بعد جاہلیت کی عادات اور گناہوں کو جاری رکھ سکے گا۔
سیرت ابن ہشام میں مشہور عربی شاعر اعشی کا ایک واقعہ ملتا ہے: ’’جب (اعشی) مکہ یا مکہ کے قریب پہنچا تو قریش کے کچھ مشرکوں نے اُس کا راستہ روکا اور اُس سے اُس کے ارادے کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ اللہ کے رسولؐ کے پاس ایمان لانے کے لئے جا رہا ہے۔ تب ایک شخص نے اُس سے کہا:’’اے ابوبصیر! وہ زنا کو حرام قرار دیتے ہیں۔‘‘اعشی نے جواب دیا:’’خدا کی قسم! یہ (زنا) تو ایسا معاملہ ہے جس سے میرا کوئی تعلق ہی نہیں۔‘‘ پھر اُنہوں نے کہا: ’’اے ابوبصیر! وہ شراب کو بھی حرام قرار دیتے ہیں۔‘‘
اعشی نے کہا: ’’رہی یہ بات، تو خدا کی قسم! دل میں اس کی کچھ رغبت ضرور ہے، لیکن مَیں اب لوٹ جاتا ہوں، اس سال میں اس (شراب) سے لطف اٹھا لوں، پھر اگلے سال آ کر مسلمان ہو جاؤں گا۔‘‘
چنانچہ وہ واپس چلا گیا، مگر اُسی سال اُس کی وفات ہوگئی، اور وہ نبی کریم ؐ کے پاس نہ آ سکا۔ اس لئے کہ گناہ اور ثواب کے کاموں کے درمیان جو خط فاصل تھی وہ اتنی واضح تھی کہ ہر ایمان لانے والا اس بات کیلئے تیار ہوجاتا تھا کہ اب ساری دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کرنا پڑے تو مجھے منظور ہے لیکن اب اس دین کو ترک نہ کروں گا۔ اور جو ان لذتوں اور گناہوں سے بری ہونا نہ چاہتا تھا، وہ اسلام میں بھی داخل نہ ہوتا تھا۔
آج کے حالات بالکل الگ ہیں۔ آج ہم خدا کے فضل و کرم سے مسلمان تو ہیں مگرگزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے ماننے والوں میں گناہ عام ہورہا ہے۔ نماز و روزہ ترک کرنا، مال ہونےکے باوجود زکوۃ نہ دینا، استطاعت کے باوجود حج بیت اللہ کو نہ جانا، سودخوری، جھوٹ، چغلی، دھوکہ دہی، رشوت خوری، حرام غذاکھانا، کسی کی املاک پر ناجائز قبضہ کرنا، تجارت میں دھوکہ دینا، راستے پر گندگی پھیلانا، پڑوسی کو تکلیف دینا، رشتے داروں کے حقوق ادا نہ کرنا اس طرح ایک کبھی نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ان امور کی جو ہمارے دین و دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، اور بحیثیت مسلم ہم ان سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
جبکہ اس ضمن میں قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے نہایت ہی واضح انداز میں اعلان اور ایمان والوں سےتقاضہ کیا ہے: ’’اے ایمان والو! اسلا م میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۲۰۸) یہاں اس آیت میں جو لفظ السِّلْمِ آیا ہے، اگرچہ کہ اس کے معنی اکثر مفسرین نے اسلام لئے ہیں، لیکن بعض مفسرین نے لفظ سِلم کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے لئے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے ایمان والو! پورے پورے (اللہ کی) اطاعت میں داخل ہوجاؤ۔
دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دو دُکانیں آس پاس میں ہوں اور ان کے مالک ایک دوسرے کے تجارتی رقیب ہوں تو ان میں کا ایک ہرگز اس بات کو برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی دکان کا نوکر جو اس کا دشمن دکان والا ہے ا س سے دوستی یاری رکھے، اس سے تعلقات رکھے اور اگر کوئی نوکر ایسا کرتا ہے تو اس کو ڈانٹ پھٹکار کی جائے گی یا نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ پس جب شیطان نے اللہ عزوجل سے بغاوت کردی ہے اوراس کو اللہ عزوجل نے دشمن قراردیا ہے، تو پھر ایک ایمان والے کے لئے شیطان کی فوج میں رہ کر رحمٰن کو خوش کرنا کیسے ممکن ہوگا؟
اس آیت کے شان نزول میں اما م قرطبیؒ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے: ’’عِکرِمہؓ کے قول کے مطابق مذکورہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ثعلبہ، عبداللہ بن سلام، ابن یامین، اسد، اسید بن کعب، سعیہ بن عمرو، اور قیس بن زید (یہ سب یہودی تھے) نے اللہ کے رسول ﷺ سے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! ہفتہ (سبت) کا دن ہم تعظیم کے طور پر مناتے تھے، ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس دن بھی اسی طرح کریں! اور تورات اللہ کی کتاب ہے، ہمیں اجازت دیں کہ ہم رات کو اس کے مطابق عبادت کریں‘‘تو ان کے اس مطالبے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘اس آیت نے ہر مسلمان پر یہ بات واضح کردی ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ چاہے گا تو شرک اور کفر کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کرے گا، لیکن یہ اللہ عزوجل کی رحمت پر منحصر ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ہماری یہ بھرپور کوشش ہونی چاہئے کہ ہم تاحیات اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ جتنا ممکن ہوسکے اتنا گناہوں سے بچنے والے اور نیکی کرنے والے بنیں نیز دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے اور بُرائی سے بچانے کی کوشش کریں۔ اسلام میں پورا پورا داخل ہونا ہی ہمارا پہلا اور آخری مقصد ہونا چاہئے۔