جسٹن ٹروڈو کا کنیڈا کی پارلیمنٹ میں دیا گیا وہ بیان، جس میں انہوں نے ایک ہندوستانی کنیڈین دہشت گرد کے قتل کیلئے ہندوستان ہی کو موردالزام ٹھہرایا ہے، عالمی سفارتی اخلاقیات کے منافی ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر اس نوع کا بیان جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ تو ہے، عاقبت نااندیشانہ بھی ہے۔
جسٹن ٹروڈو۔ تصویر:آئی این این
جسٹن ٹروڈو کا کنیڈا کی پارلیمنٹ میں دیا گیا وہ بیان، جس میں انہوں نے ایک ہندوستانی کنیڈین دہشت گرد کے قتل کیلئے ہندوستان ہی کو موردالزام ٹھہرایا ہے، عالمی سفارتی اخلاقیات کے منافی ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر اس نوع کا بیان جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ تو ہے، عاقبت نااندیشانہ بھی ہے۔ کناڈا کے ہندوستان سے تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔ اس میں کبھی ایسی تلخی نہیں آئی تھی جیسی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آئی ہے۔ کنیڈا کی پارلیمنٹ میں مذکورہ بیان انہوں نے پیر کو دیا تھا۔ اس کے بعد جمعرات کو اس کا اعادہ کیا اور دُنیا کے نقشے پر ایک اہم ملک کی ہندوستان کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود سفارتی آداب کو ملحوظ نہیں رکھا۔ یا تو وہ نئی دہلی کے خلاف ثبوت فراہم کرتے یا شک کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کرتے۔ مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب بھی اُن کا ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کیس میں ہندوستان سے تعاون کا مطالبہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کنیڈین پولیس تفتیش مکمل نہیں کرسکی ہے۔ پھر کس بنیاد پر اُنہوں نے الزام تراشی کی جرأت کی؟
اس جرأت کو ہندوستانی حکومت اور عوام تو کیا، کنیڈین عوام بھی نہیں مانیں گے اور اگر معاملہ آگے بڑھا تو عالمی عدالت میں بھی ٹروڈیو ہی کو ۔ کیا اقلیتی حکومت میں ہونے کے سبب داخلی سیاست ان کے نزدیک اتنی اہم ہے کہ اس کیلئے برسوں کے دوستانہ تعلقات کو داؤ پر لگا دیا جائے؟ کیا وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اس وقت امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک ان کی پشت پناہی کو فوراً سے پیشتر آگے آگئے ہیں مگر ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ہندوستان سے اپنے تعلقات کی قیمت پر کنیڈا کی حمایت جاری رکھنا چاہے گا۔ ہندوستان وسیع و عریض صارف مارکیٹ ہے جس کا فائدہ کنیڈا کو بھی پہنچتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان کنیڈا کا دسواں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ کنیڈا میں موجود ہندوستانیوں کی مجموعی تعداد ۱۳؍ لاکھ کے قریب ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اگر کنیڈا میں تجارت اور ملازمت کے مواقع کی وجہ سے ہندوستانی شہری فیضیاب ہورہے ہیں تو اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اس سے کنیڈا بھی مستفید ہورہا ہے۔ کنیڈا کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان کا سفارتی اثرورسوخ (سافٹ پاور) غیر معمولی ہے۔ مگر شاید ٹروڈو اس وقت کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔
واضح رہنا چاہئے کہ جس دہشت گرد کی وجہ سے ٹروڈو نے اتنا بڑا بکھیڑا کھڑا کردیا ہے اُسے اس سال جون میں ہلاک کیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ٹروڈو نے عوامی سطح پر ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اگر نئی دہلی سے اتنا ہی گلہ تھا تو جی ٹوئنٹی کی چوٹی کانفرنس (منعقدہ ۹۔۱۰؍ ستمبر) میں شرکت کیلئے دہلی آنا اُنہیں کیونکر گوارا ہوا؟ وہ اس معاملے کو تب ہی اُٹھا سکتے تھے اور اِس بنیاد پر نئی دہلی کے دورہ سے انکار کرسکتے تھے۔ مگر وہ آئے اور کانفرنس میں شرکت ہی نہیں کی، اپنی فلائٹ کی تکنیکی خرابی کے سبب نئی دہلی میں طے شدہ وقت سے زیادہ قیام بھی کیا۔اُن کا کہنا ہے کہ دہلی میں اُنہوں نے وزیر اعظم مودی سے بات چیت کی تھی۔ یقیناً وزیراعظم مودی نے بھی اُن سے کچھ کہا ہوگا۔ دو وزرائے اعظم کے درمیان گفتگو ہی مسائل کے حل کا طریقہ ہے۔ عوامی سطح پر بیان دینا ٹروڈو کی غلطی اور کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا وہ کنیڈا میں اپنی گھٹتی مقبولیت سے اسی طرح نمٹنا چاہتے ہیں؟