Inquilab Logo

خدمت خلق :اسلامی تعلیمات کا درخشندہ باب ہے

Updated: November 27, 2020, 2:45 PM IST | Maolana Shameem Akram Rahmani

قرآن مجید میں جہاں تخلیق انسانی کا مقصد عبادت کو قرار دیاگیاہے، وہاں عبادت میں خدمت خلق بھی داخل ہے، اس لئے دیگر عبادتوں کی طرح یہاں بھی دنیوی اغراض پر نظررکھنے کے بجائے اخروی ا غراض پر ہی نظر رکھنے کی ضرورت ہے

Muslims
خدمت خلق کے کئی راستے ہیں، کسی کی مدد کرکے بھی اور کسی کے دکھ درد کو سن کر بھی خدمت کی جاسکتی ہے

 اصطلاح شرع میں رضائے الٰہی کے حصول کے لئے جائز امور میں اللہ کی مخلوق کا تعاون کرنا خدمت خلق کہلاتاہے۔ آیات و روایات کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ خدمت خلق نہ صرف صالح سماج کی تشکیل کا اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ محبت الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخروئی کاوسیلہ بھی ہے ۔عام طور پر لوگ محض مالی امداد کو ہی خدمت خلق سمجھتے ہیں حالانکہ مالی امداد کے علاوہ کسی کی کفالت کرنا ، علم و ہنر سکھانا ، مفید مشوروں سے نوازنا ، بھٹکے ہوئے مسافر کو صحیح راہ دکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی ورفاہی ادارے قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے سیکڑوں دوسرے امور بھی خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں جن پر اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہرانسان چل سکتاہے۔ اس کے لازمی معنی یہ ہوئے کہ خدمت خلق کی شاہراہ پر چلنے کیلئے کسی لیڈر یا تحریک کے بجائے محض ایک مقدس جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور مقدس جذبہ ہی وہ شے ہے جواللہ کے نزدیک کسی بھی انسان کو بیش قیمت بنا دیتاہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ایک اصول سے امت کو روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ’’دین خیر خواہی کانام ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ خیر خواہی بھی ایک مقدس جذبہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جذبۂ خیر خواہی جب درجہ کمال کو پہنچتاہے تو اعمال سے اس کااظہار مختلف شکلوں میں ہونے لگتاہے، جنہیں لوگوں کی نگاہیں دیکھتی ہیں اور زبانیں دعاؤں سے نوازنا شروع کر دیتی ہیں۔ نتیجتاًانسان بسا اوقات اس درجے پر فائز ہو جاتاہے جہاں دوسرے لوگ برسوں کی عبادت و ریاضت کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔  ایک بدکار عورت کے پیاسے کتے کو پانی پلاکر جنت میں جانے کا واقعہ اس حقیقت کی عمدہ مثال ہے جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام میں خدمت خلق جوکہ جذبۂ خیر خواہی کا اہم ترین نتیجہ ہے،عظیم الشان عبادت کی حیثیت رکھتا ہے اور قرآن مجید میں جہاں تخلیق انسانی کا مقصد عبادت کو قرار دیاگیاہے، وہاں عبادت میں خدمت خلق بھی داخل ہے، اس لئے دیگر عبادتوں کی طرح یہاں بھی دنیوی اغراض پر نظررکھنے کے بجائے اخروی ا غراض پر ہی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ سخی ترین شخص کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینکنے کی وعید حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ خدمت خلق کے نتیجے میں حاصل ہونے والے دنیوی مفادات کو اسلام ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہے؛ اسلئے کہ نفع رساں چیزوں کے زمین میں جم جانے اور مضبو ط ہوجانے کی بات قرآن مجید میں موجود ہے:’’ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔‘‘ (سورہ الرعد:۱۷)
بات اتنی سی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند بناتاہے کہ وہ ہرکام محض رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کریں ؛خواہ نتائج کچھ بھی ظاہر ہوں۔ اس حقیقت کا اظہار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے:
’’آپ کہہ دیں کہ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی ،میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔‘‘  (سورۃ الانعام:۱۶۲)
خدمت خلق سماج کی ضرورت بھی ہے ،جس سے راہ فرار اختیار کرنے کے نتیجے میں سماج مسائل و مصائب کے دہانے پر کھڑاہوجاتاہے۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ جس سماج میں خدمت خلق کا رواج نہ ہو وہ سماج اسلامی سماج تو دور انسانی سماج کہلانے کا حقدار بھی نہیں ہے، ممکن ہے میرے خیال سے کسی کو اختلاف ہو، لیکن انسان کا لفظ ہمیں واضح طور پر اسی نتیجے تک پہنچاتاہے، انسان کے مادے میں محبت و انسیت کا مفہوم داخل ہے جنہیں اگر انسان سے الگ کردیا جائے، تو حقیقی معنوں میں انسان انسان نہیں رہتا بلکہ شعور کی پست ترین سطح پر پہنچ کر انسانی معاشرے میں پلنے والا ایک جانور بن جاتاہے، جس کے لئے جائز اور ناجائز کی حدود کو پھلانگنا کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے سب کچھ کرنا آسان ہوجاتاہے۔ اسی لئے اسلام نے حدود و تعزیرات کے ذریعے ایسی ذہنیت اورایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے، جو ذاتی مفادات اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے دوسروں کے مفادات و خواہشات سے کھلواڑ کرنے کی جرأت کرتے ہیں اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے جو سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹنے کی قدرت رکھتے ہیں، تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، اپنے آرام کو تج کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں، بہ الفاظ دیگر خدمت خلق کے میدان میں کام کرتے ہیں۔ لوگوں کی نفع رسانی کے لئے کام کرنے والا شخص اسلام کی نگاہ میں بہترین شخص ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں  ارشاد فرمایا کہ: ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنزالعمال)
مذکورہ روایت میں نفع رسانی کے لئے کام کرنے کی ترغیب ہے اور بغیر کسی قید کے ساتھ ہے اس لئے کہ صرف مسلمانوں کے لئے نفع رسانی کا کام کرنے والا ہی اللہ کا محبوب نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ نفع رسانی کا کام کرنے والا بھی اللہ کا محبوب ہے جس سے بڑی آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرۂ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا ہے، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کی ترغیب دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت کی تعمیر کیلئے آپسی ہمدردی، باہمی تعاون اور بھائی چارے کی ایسی وسیع ترین بنیاد فراہم ہوئی ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ پڑوسیوں کے حقوق کی بات ہو، مریضوں کی تیمارداری کا معاملہ ہو ، غرباء کی امداد کا مسئلہ ہو یا انسانی حقوق کے دوسرے مرحلے ہوں؛ اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا ہے، حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، حالانکہ مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، اور اپنے ماننے والوں کو سب کیلئے یعنی تمام عالم انسانیت کیلئے خیر خواہی کا پابند بنایاہے۔ 
تبلیغ دین کے فریضے کو سرانجام دینے کا حکم بھی خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہی ہے، تاکہ انسانیت کو جہنم کے گڑھے میں جانے سے بچایا جاسکے۔ حتی کہ جب تک غیر مسلموں کی طرف سے صریح دشمنی کا اظہار نہ ہو، مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کریں۔ قرآن مجید کی سورہ نساء میں مشرک قیدیوں کو کھانا کھلانے والوں کی تعریف موجود ہے  جس سے اسلام کے خدمت خلق کے دائرۂ کار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علماء جانتے ہیں کہ فرامین نبویؐ کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے، طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرے کی اجازت نہیں دیتا ہے ورنہ سیکڑوں روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مشہوراحادیث کا تذکرہ کردیاجائے۔
 (۱) تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا(ترمذی شریف)، (۲) قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے (الجامع الصغیر للسیوطی)،  (۳) اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے  جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددکرتاہے(مسلم شریف)، (۴)  تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے(مسلم شریف)، (۵) جو رحم نہیں کرتا ہے اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔  (مسلم شریف)
مذکورہ روایات سے بسہولت کوئی بھی شخص خدمت خلق کے سلسلے میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے مزاج کا اندازہ لگاسکتاہے، پھر یہ کہ مذکورہ تعلیمات محض زبان خرچی نہیں ہے کہ کسی کو اعتراض کا حق حاصل ہو، بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی بھی خدمت خلق سے لبریز ہے۔  بعثت سے قبل بھی آپ ﷺخدمت خلق میں خوب مشہور تھے، بعثت کے بعد تو خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپؐ نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو ترجیحی بنیاد پرمعاشرے میں معاشی استحکام کے لئے اہل ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی ۔
لہٰذافرقہ پرستی اوراخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں، دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کررہے ہیں، لیکن مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے، نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ عملی مشق کرائیں، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے۔ یہ سب ہمارے کرنے کے کام ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK