Inquilab Logo Happiest Places to Work

بات ایک ڈراما شوکی

Updated: August 14, 2023, 1:59 PM IST | Mohammad Rafi Ansari | Bhiwandi

سنیچر۵؍ اگست کی شام کا صبح ہی سے انتظار تھا۔ موسم خشک تھا مگر رُت بدلنے کا ہر آن دھڑکا لگا ہواتھا۔ دوسروں کی طرح ہمارے دل سے بھی دعا نکل رہی تھی کہ سب کچھ خیریت سے ہو جائے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

سنیچر۵؍ اگست کی شام کا صبح ہی سے انتظار تھا۔ موسم خشک تھا مگر رُت بدلنے کا ہر آن دھڑکا لگا ہواتھا۔ دوسروں کی طرح ہمارے دل سے بھی دعا نکل رہی تھی کہ سب کچھ خیریت سے ہو جائے۔ چنانچہ ہم نے بھی سویرے ہی سے مناسب تیاری کرلی۔ شام کے معمولات میں دو دن پہلے ہی سے تبدیلی کا اعلان کردیا تھا۔ اس لئے درونِ خانہ حالات بھی سازگار رہے۔ شام کی اہمیت اس لئے دو چند ہو گئی تھی کہ آج بھیونڈی کے جی ایم مومن کالج کے آڈیٹوریم میں صادق انصاری کے ڈرامے ’ عشق جلے تو جلے ایسا‘کا ۲۵؍واں شو ہوناتھا۔ یقین جانیے جب سے اس ڈرامے کا شہرہ سنا تھا رہ رہ کر اس کا عنوان بے چین کئے جا رہا تھا۔ عشق جلے تو جلے ایسا... یہ کیا ہے؟کیوں ہے اور کیسے ہے؟
 بہر حال ہم(اپنی چھتری کے علاوہ) کئی طرح کے اندیشوں کو اپنے ہمراہ لے کر خراماں خراماں سوئے منزل روانہ ہوئےشو دیکھنے۔ تھانہ روڈ کے اوبڑ کھابڑ راستے پر پہنچ کر ادھر ادھر نگاہ کی کہ کوئی ڈرامے کا شائق نظر آجائے۔مگر دور تک سناٹے کا ڈیرہ تھا۔ دن کی روشنی میں سڑکوں کا حلیہ کبھی نظر نہیں آیا لیکن اس وقت راستے کا دامن تار تار دیکھ کر شرمسار ہوگئے۔ گیٹ سے کیمپس میں داخلہ لیا تو دور سے شائقین کی ٹولی دکھائی دی۔ آگے بڑھے ہی تھے کہ روفی میاں اپنی کار میں نظر آئے۔ ڈرامہ کاعشق انھیں مہاپولی سے بھیونڈی کھینچ لایا تھا۔ کچھ اورآگے بڑھے تو خالد عبدالقیوم سے ملاقات ہوئی۔ خیریت کے بعدراستے کاحال پوچھا۔چال درست کرتے کالج کے گیٹ تک پہنچے۔ صادق بھائی نے قدم بڑھایا، ہم بھی تیزی کے ساتھ ان کی طرف لپکے ۔پروگرام شروع ہونے سے قبل گیٹ کے قریب احباب کا یوں جمع ہونا تقریب کی اہمیت اور نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ملنے والوں سےبالمشافہ ملنے کا یہی مقام اور یہی مناسب گھڑی ہوتی ہے۔ مخلص میاں نے حسب عادت خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے لائق جو کام ڈھونڈھ نکالا تھا اس کا ذکر کیا۔ ہم نے انکار نہ کیا۔پھر آڈیٹوریم کے اندر کا احوال پوچھا۔ بولے اندر غلام نبی مومن کلیان سے پہلے ہی تشریف لاچکے ہیں ۔راستوں کے نشیب و فراز اور موسم کی بے اعتدالی سے بے پروا ہوکر اردو اور صادق انصاری کی محبت انھیں یہاں کھینچ لائی ہے۔عالی جناب افسانہ نگار ایم مبین کے ساتھ تشریف فرما ہیں ۔
 ہم اندر داخل ہوئے تو سماں خواب خواب لگا۔ہال میں سرمئی اندھیرا تھالیکن اس عالم میں بھی کئی چہرے چمک بلکہ دمک رہے تھے۔وحیدہ آپا نظر آئیں ۔بولیں آؤآج تمہیں ایک خاص مہمان سے ملواؤں ۔ پھر انہوں ہمارے پرانے دوست پروفیسرحفیظ الرحمن مومن سے ملوایا۔ ایک مدت کے بعد حفیظ بھائی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔دونوں طرف سے مسکراہٹوں کے تبادلہ کے ساتھ مکالمہ بھی ہوا۔جیسے جیسے آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوئیں کچھ اور جانے پہچانے چہرے نظر آئے۔ ہر کوئی خوش تھا۔ہر جوان امنگ میں ڈوبادکھائی دیا۔البتہ صادق بھائی کےچہرے پرفکروترددنمایاں تھا۔ ہم نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔
 صادق بھائی بھی کیا آدمی ہیں ۔ہر بات مان جاتے ہیں مگر افسوس ہم ان کی بات ماننے میں اکثر اگر مگر کرتے ہیں ۔ بینک میں ملازم ہیں مگر انہیں حساب کتاب بالکل نہیں آتا۔ ہر کام خسارے کا کرتے ہیں ۔اپنے سامنے اپنا گھاٹا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر مسکراتے رہتے ہیں ۔جس کے دوست بن جاتے ہیں ۔ کمال کرتے ہیں ۔بولتے ہیں تو جیسے منہ سے آواز نہیں نکلتی۔ پاس سے گزرجاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا۔ کبھی کبھی تو سامنے ہوتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ ہم تو خیر ان کے پرستار ہیں ہی۔یہ کیا کم ہے کہ مجیب خان جو ڈرامے کی دُنیا کے بڑے درویش ہیں ان کے مداح ہیں ۔ ان کی ڈرامہ نگاری کا چرچا بغیر خرچ کے سارے ملک میں پھیل گیاہے۔صاحبِ اولاد ان معنوں میں ہیں کہ اب تک پچاسی ڈرامے تخلیق کر چکے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کو انعام کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ ان کے کئی ڈرامے ملک گیر شہرت رکھتے ہیں ۔ آڈیٹوریم میں کچھ دیر ہم نے ان کی رفاقت میں گزارا لیکن اس دوران گفتگو بہت کم ہوئی۔
 ناظرین جن کی تعداد کا اندازہ اس وقت نہیں ہو رہا تھا بعد کو پتہ چلا کہ ہال کی تمام کرسیاں بھر گئی ہیں ۔ جو لوگ کھڑے ہیں ،زیادہ لطف اندوز ہورہے ہیں ۔خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آڈیٹوریم میں نسبتاًسناٹا چھایا ہواہے۔ اسٹیج پر کوئی پردہ نہیں ۔ اس لئے نگاہ پردہ اُٹھنے کی منتظر بھی نہیں رہی۔ پھر یوں ہوا کہ اسٹیج پر رکھی شمعیں فروزاں ہو نے لگیں ۔کچھ کھٹ پٹ ہوئی۔ پس منظر سے موسیقی ابھرنا شروع ہوئی۔اسٹیج پر مجیب خان جلوہ افروز ہوئے۔ مجیب خان کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔وہ اردو ڈرامے کے پریم چند ہیں ۔صنف ڈرامہ کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو اس طرح وقف کردیا ہے کہ گویا وہ اسی کے لئے بنائے گئے ہیں ۔وہ جس ڈرامے کو ہاتھ لگاتے ہیں اسے سنہرا کر دیتے ہیں ۔ڈرامہ کی پیشکش پر انھیں اتنا عبور حاصل ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنا نے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔اردو کے فروغ اور اردو ڈرامہ کی ارتقاء کے لئے ان کا نام تاریخ ادب میں محبت سے لکھا جائے گا۔ قیصرؔالجعفری نے یہ شعر جیسے انہی کے لئے کہا ہے ؎
بنجاروں کا چولا پہنے، بدلے بھیس فقیروں کا 
بستی بستی گھوم رہا ہوں میں سوداگر ہیروں کا
 ڈراما شروع ہونے سے پہلے شمعیں ایک ایک کرکے روشن ہونا شروع ہوئیں ۔ دیکھنے والوں کے چہرے کھلے۔کسی کے منہ سے آہ اور کسی کے منہ سے واہ نکلی۔سب سے پہلے مجیب خان کی پاٹ دار آواز روشنی کی طرف کھنچنے لگی۔وہ داستانِ عشق کا خلاصہ پیش کرنےلگے۔مجیب صاحب نے اپنے دو ٹوک انداز میں امرتا اور امروز کا احوال سنایااورسننے والوں کی معلومات میں اضافہ کیا۔ صادق انصاری کے متعلق مجیب صاحب نے فرمایا کہ ’ عشق جلے تو جلے ایسا‘ صادق انصاری کے فن کی معراج ہے۔یہ شو نہ صرف ان کے قد کو بلند کرتا ہے بلکہ یہ ہم اردو والوں کے لئے بھی باعث فخر و انبساط ہے۔صادق بھائی اس موقع پر اپنے آپے میں نہ تھے۔ رہ رہ کے ان کے جذبات، ان کی حرکات وسکنات و نشست و برخاست پر حاوی ہوجاتے تھے۔ بہر حال انہوں نےپہلے رب کا اور پھر سب کا شکریہ ادا کیا۔
 ڈراما جیسے ہی شروع ہواچھا گیا ۔ستّر منٹ کے اس یک بابی ڈرامہ میں سترہ ایسے مقامات آئے جہاں ناظرین اپنے آپ کو نہ روک پائے اور بیساختہ داد دینے پر مجبور ہوئے۔مکالموں کی برجستگی اور روانی،ہدایت کاری کی ہنر مندی اور مہارت کے نمونے جا بجا نظر آئے۔ ڈرامہ کے چاروں کردار چار رتن کی طرح معلوم ہوئے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کس سے بہتر ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ امرتا کا کردار بے مثال ہے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ امروزمردِ میدان ہے۔ کبھی راوی یا داستان گو کے لئے تعریفی کلمات نکلتے تو کبھی ضمیر کے زندہ ہونے کا احساس جاگزیں ہوتا ۔ڈرامہ کا آغاز جتنا دل آویز تھا اختتام بھی اتنا ہی متاثر کن رہا۔ناکام محبت کرنے والوں کی کہانیاں ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں ، سو اس کہانی کے انجام پر بھی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں ۔
 ڈراما اپنے انجام کو پہنچا اور ہال روشنی سے جگمگا اُٹھا۔ پہلی بار آڈیٹوریم کی اصل صورت نظر آئی۔ سارے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ جن میں سب سے نمایاں وہ چار چہرے تھے جوڈرامہ کا حصّہ بنے تھے۔ مجیب خان اور صادق بھائی اور ان کے رفقائے کار کے چہرے روشنی میں بھی چمک رہے تھے۔ ڈرامہ میں شریک اداکاروں اور معاونین کوتحائف پیش کئے گئے۔واپسی پرآنکھوں میں نور اور دل میں سرور تھا۔ایک اردو ڈرامے کے کامیاب سلور جبلی شو نے آنکھوں سے نیند اُڑا دی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK